تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     03-03-2015

آئی ایم ایف کا سابق سربراہ عدالت کے کٹہرے میں

لگتا ہے، اِن دنوں پوری دُنیا سیاسی زلزلوں کی زد میں ہے ۔ پاکستان سے یہ دل ہلا دینے والی خبر آئی کہ کراچی کی بلدیہ ٹائون فیکٹری والوں نے 20 کروڑ بھتہ دینے سے انکارکر دیا تو فیکٹری والوں کو اس جرم کی سزا دینے کے لیے سپیشل قسم کا آتش گیرکیمیائی مواد استعمال کر کے فیکٹر ی کو آگ لگا دی گئی جس سے ڈھائی سو سے زیادہ کارکن جل کر راکھ بن گئے۔ لاطینی امریکہ کے جنوبی ملک ارجنٹائن سے خبر آئی کہ وہاں پچھلے دنوں اٹارنی جنرل کے قتل کی جو واردات ہوئی اُس کے پیچھے ملک کی خاتون صدرکا ہاتھ ہونے کا شبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ فرانس سے خبر آئی کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کا سابق صدر جو 'ڈی ایس کے‘ کے نام سے مشہور ہے، Lille کی عدالت میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا دس سالہ قید سے بچنے کے لیے یہ دفاع پیش کر رہا ہے کہ اُس کی تقریباً ہر شام ( لندن ہو، پیرس یا نیو یارک ) ہر رنگ و نسل کی خواتین کے ساتھ اجتماعی خرمستیوں میں گزرتی ہے (نوٹ فرمایئے کہ ملزم نے 'خواتین‘ یعنی جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔) استغاثہ کا الزام ہے کہ جن خواتین کی خدمات اذیت ناک عصمت فروشی کے لیے حاصل کی گئی تھیں، اُنہیںایک بڑے مقتدر شخص (جو سربراہ مملکت کا درجہ رکھتا تھا) کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے، اُس کے چوٹی کے امیرکبیردوستوں نے ایک دلال کو بڑی رقم دے کر جنسی سرگرمیوں کے دنگل میں اُتارا تھا۔ مفلوک الحال، ضرورت مند اور بدنصیب عصمت فروش خواتین کو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ اُن پر Lille میں سجائی جانے والی عیش و عشرت کی پارٹی میں شرکت کا خاطر خواہ معاوضہ وصول کرنے کے بعد ، حد درجہ ذلت کی صورت میں کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ فرانس کے قانون کی تحت عصمت فروشی جرم نہیں مگر رقم دے کر خواتین کی عصمت فروشی کے لیے فراہمی سنگین جرم ہے۔ ڈی ایس کے نے یہ دفاع پیش کیا کہ وہ ان خواتین سے پہلے کبھی نہ ملا تھا اور نہ ہی اُنہیں ذاتی طور پر جانتا تھا مگر وہ بالکل لاعلم تھا کہ یہ خواتین پیشہ کے اعتبار سے عصمت فروش ہیں اور وہ اُس کے دوستوں کے توسط سے اُس پارٹی میںلائی گئی تھیں۔
اس مقدمے کی کارروائی فرانس کے ہر اخبار کے صفحہ اوّل سے شرو ع ہوکر اندرکے کئی صفحات پر پھیلی ہوتی ہے۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ اس مقدمے کی کارروائی کے دوران ہونے والے شرمناک انکشافات نے اہل فرانس کو نہ صرف شرمندہ کیا بلکہ یہ سوچنے پر بھی مجبورکیا ہے کہ وہ کس منہ سے اپنے آپ کو مہذب ملکوں کی صفت اوّل میں شمار کرتے ہیں؟ باقی یورپی ممالک کی طرح فرانس نے اپنی پاکیٔ داماں کی تو کبھی داستان نہ بڑھائی تھی مگر اس مقدمے کی وجہ سے اہل فرانس کی جھکی ہوئی نظریں اپنے دامن صد چاک اور اپنی آلودہ قبا کے ٹوٹے ہوئے بند پر جم کر رہ گئی ہیں۔
ان دنوں اہل یورپ کا ستارہ یقیناً گردش میں ہے۔ مذکورہ جنسی سکینڈل نہ صرف فرانس بلکہ ہر یورپی اخبارکو روزانہ سرخیاں بہم پہنچاتا ہے۔ عین اس طوفان کے دوران، آنے والے ایک زلزلے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ یورپ کے صحافیوں کی ایک انجمن نے تفتیش و تحقیق کے لیے اپنے تنخواہ دار سراغ رساں ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ نہ معلوم آج تک یہ سراغ رساںکون سے کارنامے سرانجام دے چکے ہیں، مگر کرکٹ کی زبان میں جو چھکا لگایا ہے وہ بے مثال ہے۔ یوں سمجھیے کہ گیندگرائونڈ سے باہر جا گری ہے اور دیکھنے والے اور سننے والے انگشت بدنداں ہیں کہ یوں کیسے ہو سکتا ہے؟ مالیاتی سیکنڈل کا تعلق دُنیا کے دُوسرے بڑے بینک HSBL سے ہے (میں بے خبر ہوں کہ اس کی پاکستان میں بھی شاخیں ہیں یا نہیں۔) اس بینک کا ایک بڑا دفتر سوئٹزرلینڈ میں ہے جہاں اربوں ڈالرکا ٹیکس چوری کرنے والوں کی بھاری رقوم جمع ہیں۔ بہت بڑے فراڈ کرنے ، بڑے پیمانہ پر منشیات فروشوں ، بڑے بڑے ڈاکہ زنوں،الغرض ہر قسم کے مجرموں نے (جن میں کئی ممالک کے چوٹی کے سیاست دان بھی شامل ہیں) HSBLکی اعلیٰ قیادت کی ملی بھگت سے وہاں دولت کے اتنے بڑے ذخائر چھپائے ہوئے ہیں کہ آپ کے کالم نگارکی طرح ایک عام شخص اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ صحافیوں کے سراغ رسانوں کی رپورٹ میں ہر شعبے سے تعلق رکھنی والے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ اب وہ لوگ کس طرح منہ چھپائیں یا کہاں غائب ہو جائیں؟ آسمان دُور ہے ورنہ وہ اُنہیں اُٹھا لیتا۔ زمین سخت ہے ورنہ وہ اُس میں سما جاتے۔ اب تو مجھے غالب کی وہ غزل یاد آتی ہے جس کی ردیف اور قافیہ اپنی مثال آپ ہے: آئے نہ بنے اور بلائے نہ بنے۔۔۔۔اور۔۔۔۔کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے۔
آپ کو یہ پڑھ کر بالکل حیران نہیں ہونا چاہیے کہ الہ دین کی مذکورہ غار میں پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی معقول تعداد بھی شامل ہے، مگر ایک مصدقہ خبر کے مطابق ان کے اثاثوں کی کل مالیت بمشکل ایک ارب ڈالر بنتی ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی ''اشرافیہ‘‘ کے ایک رُکن کے خفیہ اکائونٹ میں 136کروڑ ڈالر کے لگ بھگ رقم ہے۔ یہ رقوم، میری طرح سوئس بینکوں کی طرف شدید قسم کے شک و شبہ سے گھور گھورکر دیکھنے والوں کے اندازے سے کافی کم نکلیں۔ ہمارے ملک کا خون چوسنے والی جونکوں نے صرف سوئس بینکوں پر انحصار نہیںکیا، شاید اُنہوں نے انگریزی زبان کا وہ محاورہ سنا ہوگاکہ سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں ڈال دینے چاہئیں۔لہٰذا انہوں نے فرانس، چین، برطانیہ اور امریکہ تک میں جائیداد خریدنے کے علاوہ ان کی رقوم Isle of Man اور Canary Islands کے اُن بینکوںکے کھاتہ داروں میں شامل ہیں جوکام ہی صرف یہی کرتے ہیں(چوری کا مال چھپانا) اور اس دھندے سے خوب کمائی کرتے ہیں۔کمائی اچھی کیوں نہ ہو؟ پنجابی محاورے کے مطابق کپڑے کے تھان چوری کے ہوں تو ناپنے کاگز لاٹھی جتنا لمبا ہوتا ہے۔ صحافیوںکے انکشاف سے خدا کی بے آواز لاٹھی کی ضربیں لگنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ اب (بقول فیض) کئی تخت گرائے جائیں گے اور تاج اُچھالے جائیں گے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی بڑھتی ہوئی کامیابی کا مطلب ہے کہ اب ہمارے اُجڑے ہوئے صحن میں بھی برسوں کے انتظارکے بعد چاند نکلنے والا ہے۔
Andrew Small عصری سیاست کے بہت اچھے مبصر اور محقق ہیں۔ اُنہوں نے Asian's New Geopolitics کے عنوان سے پاکستان چین تعلقات کی تاریخ، نوعیت، اونچائی اورگہرائی پر قابل تعریف اور قابل مطالعہ کتاب لکھی ہے۔ اسے برطانیہ کے ایک معیاری اشاعتی ادارے C Hurst And Co نے اس سال جنوری میں شائع کیا۔ فاضل مصنف کا تعلق German Marshal Fund of United States سے ہے۔ اُنہوں نے چھ برس کی محنت کے بعد یہ کتاب لکھی جو نہ صرف ہماری وزارت خارجہ کے افسروں، مطالعہ کے شوقین جرنیلوں بلکہ ہمارے دانشوروں کو غور سے پڑھنی چاہئے تاکہ ہماری سوجھ بوجھ میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔ مصنف کی رائے میں چین کی قیادت پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سکیورٹی منظر نامہ کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہے مگر اُسے صرف ایک پہلوکے ادراک میں بڑی مشکل پیش آتی ہے اور وہ ہے اسلام (یعنی جدید دورکا سیاسی اسلام اور اُس سے جنم لینے والی تحریکوں کے مضمرات۔) میں کتاب میں لکھے ہوئے صرف ایک واقعے کے تذکرے پراکتفا کروںگا۔ جنرل اشفاق پرویزکیانی اکتوبر2013 ء میں آخری بار چین گئے تو ان کے سرکاری دورے کے دوران چین کے دارالحکومت کے عین دل میں بارود سے بھری ہوئی ایک کارکو ایک چینی اقلیتUghurs کے تین مسلمان افراد نے خود کش دھماکے سے اُڑا دیا۔ باورکیا جاتا ہے کہ یہ اقلیت علیحدگی پسند ہے اور اس کی جڑیں پاکستان کے قبائلی علاقے تک پھیلی ہوئی ہیں اور اسے پاکستان کی ایک بنیاد پرست مذہبی جماعت کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ مصنف کی رائے میں چین جس طرح اپنے پر پرُزے نکال رہا ہے اُس میں پاکستان کے کئی بڑے منصوبوں (مثلاً بندرگاہوں کی تعمیر اور پائپ لائن بچھانے) میں سرمایہ کاری کوکلیدی اہمیت حاصل ہے۔ میں کالم کا اختتام ابن انشاء کے اس مشورے پر کرتا ہوںکہ 'چلتے ہو تو چین کو چلیے‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved