جموں و کشمیر میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) اور مقامی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ( پی ڈی پی) کی مشترکہ حکومت معرض وجود میں آگئی ہے۔شدید ترین نظریاتی اختلافات کے باوجود دونوں پارٹیوں نے حکومت سازی کیلئے ایک ایجنڈے پر بھی دستخط کئے ۔ جموں و کشمیر پر حکومت کرنے کا دیرینہ خواب من میں سجائے بی جے پی نے پی ڈی پی کو لبھانے کیلئے اپنے کشمیر اور مسلم دشمن ایجنڈے کو پس پشت تو ڈال دیا، مگر یہ اب وقت ہی بتائے گا کہ پی ڈی پی کے سربراہ اور نئے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کس طرح اس ایجنڈے پر عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اس طرح کے ایکارڈ یا سمجھوتے صرف کاغذوں میں ہی سمٹ کر قصۂ پارینہ بن کر رہ جاتے ہیں،کیونکہ برابر کی طاقتوں کے درمیان ہوئے سمجھوتے ہی اپنی منزل پاتے ہیں۔ کمزور اور طاقت ور کے درمیان ہوئے ایگریمنٹ وقت گزاری کے سامان کے سوا اور کچھ نہیں ہوتے۔
کشمیر صدیوں سے سازشوںاور باہری طاقتوں کی کشمکش کی آماجگاہ رہا ہے۔ اس خطے کی بدقسمتی یہ رہی کہ آمد اسلام کے 250 سال بعد ہی یہ خطہ آزادی سے محروم ہوکر مغلوں، افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں کے تابع رہا، جنہوں نے مقامی مسلم شناخت کو زیر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔پچھلے 400سالوں کے دوران شاید ہی کبھی یہاں عوام نے حکمرانوں کو اپنا نمائندہ تسلیم کیا ہو، کیونکہ چند ایک کو چھوڑ کر اکثر یا تو باہری طاقتوں کے گورنر تھے یا ان کی طرف سے مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمران ۔ اپنی تخت نشینی کے فوراً بعد مغل بادشاہ
جلال الدین محمد اکبر نے کشمیر پر اپنی نظریں جمائی ہوئی تھیں، اور اس خطہ کو حاصل کرنے کیلئے کئی بار فوج کشی کی۔ تقریباً ایک دہائی پر محیط بغیر کسی نتیجہ کے جنگ و جدل،کے بعد مغل جنرل راجہ بھگوان سنگھ نے 1580ء میں مقامی کشمیری سلطان یوسف شاہ چک کے ساتھ ایک معاہدہ کیلئے سلسلہ جنبانی کی شروعات کیں۔پانچ سال کی عرق ریزی کے بعد دونوں فریق ایک معاہدے پر رضامند ہوگئے، جس کی رو سے کشمیر میں لین دین مغل سکہ کے ذریعے ہونا طے ہوا، اور جمعہ کے خطبہ میں مغل فرمانروا کا نام پڑھا جانے لگا۔ باقی تمام امور میں مقامی حکمرانوں کو خود مختاری عطا کی گئی۔ ایک سال بعد اس معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے یوسف شاہ چک کو مغل دارالحکومت آگرہ سے متصل فتح پور سیکری آنے کی دعوت دی گئی، مگر لاہور میں ہی اس کو گرفتار کرکے پابہ زنجیر اکبر کے دربار میں حاضر کیا گیا۔ یوسف شاہ جو اپنی شاعرہ ملکہ حبہ خاتون کیلئے بھی مشہور ہے، نے باقی زندگی بہار کے شہر پٹنہ سے متصل ایک قصبہ میں جلاوطنی میں گزاری، جہا ں آج بھی اس کی قبر کشمیر پر قبضے اور طاقت کے بل بوتے پر ایکارڈوں اور سمجھوتوں سے انحراف کی داستان بیان کرتی ہے۔
1947ء کے متنازعہ الحاق کے بعد 1952ء میں سرینگر میں اس وقت کے حکمران شیخ محمد عبداللہ اور بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دہلی ایگریمنٹ پر دستخط کئے اور جواہر لال نہرو کے نام سے جمعہ کا خطبہ پڑھنے کی شرط کے بغیر اس معاہدے کی باقی تمام شقیں وہی تھیں جو1585ء میں مغل بادشاہ کے ساتھ طے ہوئی تھیں، جس کے تحت فارن افیئرز، کرنسی، مواصلات، اور ڈیفنس کو چھوڑ کر باقی تمام امور سرینگر کے دائرہ اختیار میں رکھے گئے تھے۔ اس ایگریمنٹ کے ایک سال بعد ہی شیخ محمد عبداللہ کو معزول کرکے گرفتار کیا گیا اور 25سال تک نام نہاد اسمبلیوں نے اس ایگریمنٹ کی ہوا نکال کر رکھ دی اور کشمیر پر دہلی کے اختیار کو مزید پختہ کرکے بھارتی آئین کی دفعہ 370کو کھوکھلا بنادیا۔اسمبلی میں کسی کشمیری پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث 1954ء اور 1960ء دو بار بھارتی صدر نے نام نہاد اسمبلی کی سفارش پر بھارتی قوانین کا کشمیر پر اطلاق کروایا، اسی کے ساتھ بھارتی اداروں کا دائرہ بھی بڑھا دیا گیا۔ 1975ء میں ،سقوط ڈھاکہ سے بد دل ہوکر اور دیگر وجوہ کی بنا پر شیخ عبداللہ نے رائے شماری کے نعرہ سے دستبردار ہوکر اندرا گاندھی کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ایک ایکارڈ کی صورت میں سمجھوتہ پر دستخط کئے۔ شیخ صاحب تو دوبارہ برسر اقتدار تو آگئے، مگر اس ایکارڈ میں شامل سیاسی شقوں کشمیر کو اختیارات کی واپسی کے وعدوں پر کبھی عمل نہیں ہوا۔1982ء میں ان کی وفات کے بعد انہوں نے فرزند فاروق عبداللہ نے سیاسی مراعات کی واپسی کا بیڑا اٹھایا، مگر جلد ہی اندراگاندھی کے عتاب کا شکار ہوکر 1984ء میں معزول کردئے گئے۔1987ء میں فاروق صاحب نے اقتدار کی گدی دوبارہ حاصل کرنے کیلئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ ایکارڈ کرکے کانگریس کو اقتدار میں شراکت دار بھی بنایا۔ اس ایکارڈ کو کشمیر ی عوام کی غالب اکثریت نے نہ صرف مسترد کردیا بلکہ اس کے نتیجے میں عسکری جدوجہد کا ایک دور بھی شروع ہوا۔ جو اب تک جاری ہے۔
28سال بعد اب دو ماہ کی عرق ریزی کے بعد مفتی محمد سعید نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لیے ایک ایجنڈے پر دستخط کئے، جس کی رو سے وہ اگلے 6سال تک وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہیں گے۔ اس ڈاکومنٹ سے لگتا ہے کہ اقتدار کی دیوی کی خاطر بی جے پی اپنے دیرینہ موقف،بھارتی آئین کی دفعہ 370کی معزولی کے نعرے سے دستبردار ہوگئی ہے، اور پاکستان اور کشمیری آزادی پسند لیڈران کے ساتھ انسانیت ، جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے کے اندر بات چیت کرنے پربھی رضامند ہوگئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے، کہ اس میں بھارتی آئین کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ یوں تو 47ء کے بعد بیشتر کشمیری حکمران عیاش، کنبہ پروری کے شکاراورمفاد پرست تھے، مگر ان کمزوریوں کے باوجود 1975ء کے بعد یہ بات قدرے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے کشمیر کے عوام کے بھلے کیلئے کچھ کیا ہو یا نہیں کیا ہو لیکن کم از کم انہوں نے کشمیری عوام کے بنیادی مفادات پر ضرب نہیں لگائی۔ کشمیرکی مسلم اکثریتی شناخت ،خصوصی سیاسی موقف اور منفرد تہذیب و تمدن پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ مزید برآں کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت میں کمی لانے کے کسی منصوبے پر عمل درآمد کی اجازت نہیں دی اور غیر کشمیریوں کو کم ازکم زبانی ہی کشمیری شہریت کا حق نہ دینے کا اعلان کر رکھاتھا۔ اب وقت دیکھے گا کہ کیا مفتی سعید بھاجپا حمایت یافتہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے یہ روایت قائم رکھیں گے؟ورنہ تاریخ خاصی بے رحم ہوتی ہے، کہیں وہ اپنے دامن میں داغ لگاکر دنیا سے رخصت نہ ہوجائیں۔ نیشنل کانفرنس سے دلبرداشتہ ہوکر کشمیری عوام نے ان کی پارٹی کا دامن پکڑ لیا تھا۔ کانگریس میں ایک عمر گزارنے اور بھارت کے واحد وزیر داخلہ ہونے کے باوجود پچھلی ایک دہائی سے وہ کشمیریوں کے زخموں پر مرہم لگاتے نظر آئے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنے ماضی کے گناہوں کا کفارہ ادا کررہے ہوں ، ان کے پچھلے تین سالہ دور اقتدار میں 2002ء اور 2008ء کے بیچ عوام نے عمومی طور پر سکھ کا سانس لیا تھا۔ اسی دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر پر کافی عرصے کے بعد بات چیت کے دور بھی چلے اور ایک ایگریمنٹ بھی تقریباً طے ہوگیا تھا۔ دیکھنا ہے کہ کیا مفتی سعید یہ دور واپس لانے میں کامیاب ہوتے ہیں ، یا تاریخ میں بکنے والے حکمرانوں میں اپنا نام درج کرواتے ہیں۔