امریکہ کے کثیرالاشاعت جریدے ''ٹائم میگزین‘‘ نے پچھلے شمارے میں 'پیو ریسرچ سنٹر‘ کی نئی تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے۔ تحقیق اور سروے کے حوالے سے دنیا میں مستند سمجھے جانے والے 'پیو ریسرچ سنٹر‘کی اس رپورٹ میں دنیا کے 33 پُرانتشار ممالک کے باسیوںکی سیاسی سرگرمیوں (ووٹنگ، جلسے جلوس وغیرہ) میں دلچسپی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سروے کے مطابق سیاست میں سب سے زیادہ شراکت مصر کے عوام (63فیصد) کی ہے۔ پاکستان میں عوام کی سیاست میں مداخلت سب سے کم ہے، صرف 12فیصد آبادی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہے۔
یہ سروے پاکستان کے ماہانہ بنیادوں پر چلنے والی کسی نہ کسی ''تحریک‘‘ اور ''انقلاب‘‘ کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس قسم کی جعلی تحریکوں اور ان کے ''رہنمائوں‘‘ کو اتنی مبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا ہے کہ میڈیا کا سب سے زیادہ اثر قبول کرنے والے درمیانے طبقے کا لاابالی پن اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ حکومتیں گرنے، مارشل لا لگنے یا کسی ''انقلاب‘‘ کی آمد کا تاثر مصنوعی طور پر پھیلایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکمران طبقے کا عدم اعتماد، ریاست کے داخلی تضادات اور سیاسی خلفشار آج انتہائوں پر ہیں اور حکمرانوں کی آپسی لڑائی میں ''کچھ بھی‘‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حقیقی عوامی تحریک کے فقدان میں کچھ ہوکر بھی عوام کے مفاد میں کچھ نہیں ہوسکتا۔
سیاست میں عوام کی عدم دلچسپی سے حکمران طبقے کے لیے انتہائی خطرناک صورت حال جنم لے رہی ہے۔ لوٹ مارکی اندھی دوڑ میں انہیں صورت حال کی نزاکت کا پوری طرح اندازہ تو نہیں ہے؛البتہ ان کے لاشعور میں خوف بڑھتا جارہا ہے۔ حکمرانوں کے دانشور اور تجزیہ نگار مستقبل کے کسی پرامید یا خوش آئند تناظر سے محروم ہیں۔کھیل ہو یا معیشت، کسی شعبے سے کوئی اچھی خبر نہیں آرہی۔ ٹوٹ پھوٹ اور مایوسی کی اس کیفیت میں حکمران طبقے اور ریاست کے سنجیدہ پالیسی سازوں نے بھی ملک کو جدید صنعتی معاشرہ بنانے کا خواب عرصہ پہلے دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اقتدار میں بیٹھی سیاسی کٹھ پتلیوں کے بیانات حقائق سے اتنے دور ہیں کہ یہ لوگ کسی اور سیارے کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔ یہاں کے باسیوں کی ذلت اور بربادی کا احساس تو دورکی بات، یہ طبقہ اس کے ادراک سے بھی نابلد ہوچکا ہے۔
پیو ریسرچ کے سروے سے پاکستان کی طبقاتی ساخت بھی واضح ہوتی ہے۔ سیاست میں دلچسپی یا حصہ داری والی اس 12فیصد آبادی کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے۔ اس ملک میں حکمران طبقہ ایک فیصد سے تھوڑا ہی زیادہ ہوگا۔ وقت کے ساتھ اس بالادست طبقے کی ساخت اورکردار میں بھی بہت تبدیلی آچکی ہے۔ یہ پانچ دہائیاں پہلے والے 22 خاندانوںکی نہیں جن کی اکثریت انڈسٹری یا صحت مند سرمایہ داری کے دوسرے شعبوں سے وابستہ تھی۔ آج کا حکمران طبقہ کالے دھن کی دیوہیکل معیشت سے وابستہ ہے۔ یہ لوگ کم مدت میں بے پناہ منافعوں والے شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری سے زیادہ سٹہ بازی ہے۔ پیداواری صنعت سے ان کا تعلق کم ہی ہے۔
گرتی ہوئی معیشت میں سکڑتا ہوا درمیانہ طبقہ نفسیاتی طور شدید تذبذب کا شکار ہے۔ جدید شاپنگ مالز اور ریستورانوں میں یہی طبقہ نظر آتا ہے۔ تصنع، بناوٹ اور موقع پرستی اس طبقے کے رویوں کا بنیادی جزو ہوتے ہیں۔ یہ دو ڈھائی کروڑ لوگ سرمایہ داروںکی اصل منڈی ہیں جو ٹیلیوژن کے اشتہار دیکھتے ہیں، گاڑیاںخریدتے ہیں اور ہائوسنگ سکیموں کے گاہک بھی ہیں۔گرتے ہوئے معیار زندگی سے جنم لینے والی بے چینی اس مڈل کلاس کو بوسیدہ سرمایہ داری کی کرپٹ سیاست کے تماشوں کا حصہ بھی بنا ڈالتی ہے۔ طبقاتی کشمکش پر پردہ ڈالنے کے لئے میڈیا میں انہیں ''سول سوسائٹی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس ''سول سوسائٹی‘‘ کی نفسیات، ثقافت اور اخلاقیات مذہبی رجعت اور توہم پرستی سے لبریز ہوتی ہیں۔ منافقت، مطلب پرستی کے رشتے اور نمود ونمائش اس طبقے کا خاصہ ہیں۔ یہ مڈل کلاس بیک وقت حکمران طبقے کا آلہ کار بھی ہے، اس سے نفرت بھی کرتی ہے اور اس کا حصہ بھی بننا چاہتی ہے۔ یہ مخلوق شاہ کوگالی دے کر بھی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار ہوتی ہے۔ یہی 12فیصد لوگ ایک فیصد حکمران طبقے کے فیشن، روایات اور اقدارکو باقی کے 88 فیصد استحصال زدہ انسانوں پر مسلط کرتے ہیں۔ سیاست، صحافت اور ریاست میں یہ حکمرانوں کی دلالی کرنے والا طبقہ ہے۔ نظریاتی غلاظت اور مایوسی کے ذریعے محنت کش عوام کو پژمردہ کھنے کا کردار اسی طبقے کے نیم مذہبی، ''لبرل‘‘ یا سیکولر ''دانش ور‘‘ ادا کرتے ہیں۔
محنت کش طبقہ جبر، تذلیل اور محرومی کو برداشت تو کر رہا ہے لیکن حکمرانوں کی ہر حرکت، ہر واردات کو بھی دیکھ رہا ہے۔ سینٹ میں اربوں روپے کا بیوپار ہو یا ''منتخب جمہوری نمائندوں‘‘ کی لوٹ مار کی داستانیں، یہ نظام اپنی حقیقت خود ہی بے نقاب کر رہا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں صرف 12فیصد کی شرکت ظاہر کرتی ہے کہ میڈیا تمام تر سنسنی خیزی کے باوجود محنت کشوں کو ضمیر فروشی کی اس ''سیاست‘‘ میں الجھانے میں ناکام رہاہے۔ ریاست اور حکمران طبقے کا غلیظ کردار عیاں ہونے سے اس نظام پر سے عوام کا بچا کھچا اعتماد بھی اٹھ گیا ہے۔ یہ عہدے ، وزارتیں،ریاستی اجلاس، پارلیمنٹ، آئینی شقیں اور ''آزاد‘‘ صحافت محنت کشوں کی نظروں میں گر چکے ہیں۔ ویسے بھی یہاں کا حکمران طبقہ اخلاقی اور ثقافتی طور پر اتنا گرا ہوا ہے کہ مزید گراوٹ کی گنجائش نہیں۔ حکمرانی کا نظام جب متروک ہو جائے تو حکمرانوں کے کردار ایسے ہی ہوجایا کرتے ہیں۔
''ظلم تو سہتے ہیں بغاوت نہیں کرتے‘‘ والی بات بھی ادھوری ہے۔ غربت یا بھوک انقلاب کی واحد شرط ہے نہ ہی معاشی تنزلی اور انقلابی تحریکوں کا تعلق اتنا سادہ اور سیدھا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو افریقہ میں ہر روز انقلاب آتا۔ انقلابی تحریکیں معاشی ابھارکے ادوار میں بھی ابھر سکتی ہیں جیسا کہ 1968-69ء میں پاکستان میں ہوا تھا۔ اس کے برعکس 1917ء کا بالشویک انقلاب بدترین معاشی حالات اور بھوک میں برپا ہوا تھا۔ کسی بھی انقلابی تحریک کے ابھار میں کئی عناصر کارفرما ہوتے ہیں جن میں معاشی کیفیت میں یک لخت تبدیلی، محنت کش طبقے کی تاریخی روایات اور میراث، عالمی حالات، جنگیں اور سب سے بڑھ کر انقلابی پارٹی کی تیاری اور موضوعی کردار شامل ہیں۔ ان میں ظاہری طور پرکچھ تضاد بھی نظر آتا ہے لیکن جدلیاتی نقطہ نظر سے ارتقائی تسلسل میں دیکھا جائے تو ضدین ایک دوسرے کو تقویت بخش کر آگے بڑھاتے ہیں۔
بغاوت کی سب سے حتمی شرط یہ ہوتی ہے کہ محنت کش اور نوجوان، رائج الوقت نظام کو بحیثیت مجموعی مستردکر دیتے ہیں۔ ریاستی جبرکا خوف عوام کی ذلت کے سامنے بے معنی ہوجاتا ہے۔ حکمران طبقے کا ہر نظریہ رد ہوجاتا ہے اور سماج پر اس کی نفسیاتی جکڑ ٹوٹ جاتی ہے۔ پاکستان میں آبادی کی وسیع اکثریت آج حکمرانوں کے مذہبی، جمہوری اور قوم پرستانہ ہتھکنڈوں سے بیزار بھی ہے اور متنفر بھی۔ حکمران طبقے کی سیاست اور ریاست سے جب رعایا کا اعتماد ہی اٹھ جائے تو دھماکہ خیز واقعات ناگزیر طور پر جنم لیتے ہیں۔ عوام پر رائج الوقت سیاست اور معیشت کا متبادل آشکارکرنے والی انقلابی قوت کے ابھرنے میں وقت لگ سکتا ہے لیکن حالات جو رخ اختیارکر رہے ہیں اس کے پیش نظر یہ وقت بھی شاید تھوڑا ہی رہ گیا ہے۔ فیض صاحب کے یہ الفاظ ان افراد کے لئے بڑا پیغام سمیٹے ہوئے ہیں جو بے صبری میں محنت کش طبقے پر اعتماد کھو چکے ہیں:
اور کچھ دیر ٹھہر جائو کہ پھر نشتر صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے