تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     03-03-2015

ایران ‘امریکہ اور مڈل ایسٹ

کچھ عرصے سے ایران اور امریکہ کے تعلقات میں واضح بہتری آئی ہے اور اس کی کئی وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو امریکہ کا یہ ادراک ہے کہ جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ایران پر حملہ کوئی دانائی کی بات نہ ہو گی اور ساتھ ہی ایران کا شدت سے احساس کہ ایٹمی پروگرام اہم ہے مگر معیشت اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ صدر احمد ی نژاد کی ایٹمی پروگرام کے بارے میں پالیسی سخت تھی ۔وہ اس پروگرام کی بقا کو ایران کی قومی غیرت کا مسئلہ سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں ایٹمی پروگرام کا تسلسل ایرانی قوم کو متحد رکھنے اور عوام سے حکومت کے لیے تائید حاصل کرنے کا ذریعہ تھا۔ مگر احمدی نژادکی سخت اور جامد پالیسی کی وجہ سے ایران معاشی پابندیوں کا شکار ہوا ۔یہی وہ پابندیاں تھیں جن کی وجہ سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی نہ بچھ سکی۔ ایرانی کرنسی کی قیمت کم ہوئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے۔تیل کی برآمدات پر اثر پڑا۔ پچھلے سال حسن روحانی صدر منتخب ہوئے تو ایرانی خارجہ پالیسی میں اعتدال پسندی کا عنصر نظر آنے لگا۔
ایران اور چھ ممالک کے درمیان جوہری پروگرام پر عارضی معاہدہ صدر روحانی کے انتخاب سے پہلے ہو چکا تھا۔ اس معاہدہ کی رو سے ایران ایٹمی مواد کی تخصیب بیس فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد پر لے آیا تھا۔ ادھر عالمی طاقتوں نے اقتصادی پابندیوں میں قدرے نرمی کر دی۔ اس معاہدے سے طرفین کی اشک شو ئی ہو گئی۔ اس سے پہلے اسرائیل اور بعض خلیجی ممالک امریکہ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ باقاعدہ حملہ کر کے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے مگر امریکہ نے دانش مندی سے کام لیا اور انتہائی قدم نہیں اٹھایا ۔ امریکہ کا خیال ہے کہ پانچ فیصد تخصیب سے ایران ایٹمی ہتھیار یا تو بالکل بنا ہی نہیں پائے گا یا اس کام میں کئی سال لگ جائیں گے۔
ایران کا جوہری پروگرام کے بارے میں موقف دلچسپ ہے ۔ ایران شروع سے کہتا آیا ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہمارا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے ۔ مثلاً یہ زراعت اور صحت کے شعبوں میں ترقی کے لیے استعمال ہو گا مگر مغربی دنیا کو یقین نہیں آیا حالانکہ ایران نے خلوص نیت کے ثبوت کے طور پر جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کے معاہدہ یعنی این پی ٹی پر دستخط بھی کر دیے تھے ۔ اپنے اخلاص نیت کو سچا ثابت کرنے کے لیے ایران کی قیادت نے یہ استدلال بھی استعمال کیا کہ ایٹمی ہتھیار غیر اسلامی ہیں۔ دلیل یہ تھی کہ اسلام حالت جنگ میں بھی معصوم شہریوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا نیز بچوں اور خواتین کا قتل بھی جائز نہیں۔ ایٹمی ہتھیار چونکہ ساری آبادی کو تباہ کر دیتے ہیں لہٰذا اسلامی نظریہ جنگ سے متصادم ہیں۔ لیکن مغربی ممالک کا شک اپنی جگہ پر قائم رہا۔
جنیوا کا عارضی معاہدہ ایران اور چھ ممالک کے درمیان ہوا تھا۔ ان چھ ممالک میں سلامتی کونسل کے پانچ دائمی ارکان اور جرمنی شامل تھے۔اس معاہدے نے باہمی شکوک و شبہات کو کم کیا ۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی ایک سال پہلے جرمنی میں ملاقات ہوئی۔موجودہ حالات میں یہ ایران اور امریکہ کا پہلا ڈائریکٹ اور اعلانیہ سفارتی رابطہ تھا یعنی دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے۔ اب جنیوا میں دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا ہے۔ ہدف یہ ہے کہ مارچ کے آخر تک سیاسی مفاہمت طے پا جائے اور دائمی معاہدے پر اس سال جون کے آخر تک دستخط ہو جائیں۔ اور اب مڈل ایسٹ کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہیں ۔ اس خطے کی اس وقت حالت اتنی خراب ہے کہ افسوس ہوتا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ پورے خطے کو کسی کی نظر لگ گئی ہو۔ عراق اس وقت عملاً تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے کیونکہ کرد بھی بہت حد تک خود مختار ہیں۔شام کے بھی تین واضح حصے ہیں ۔ایک حصے پر بشار الاسد کی حکومت کا کنٹرول ہے۔ دوسرا حصہ اپوزیشن کے زیر تسلط ہے اور تیسرے حصے میں داعش دندنا رہی ہے ۔ مصر اس خطے کا اہم اور طاقت ور ملک تھا مگر اس کی بھی پُرانے والی حیثیت نہیں رہی ۔پچھلے چار سال کے واقعات نے مصر کی سوسائٹی کو تقسیم کیا ہے۔ لیبیا بدامنی کا شکار ہے ۔ملک کے مختلف حصوں پر وار لاڈز کا قبضہ ہے ۔داعش یہاں بھی پہنچ گئی ہے۔ پچھلے دنوں مشرقی لیبیا کا شہر درنہ جو بن غازی سے زیادہ دور نہیں وہاں بیس سے زائد مصری عیسائیوں کو داعش نے قتل کیا جو اب میں مصری حکومت نے داعش کے ٹھکانوں پر ہوائی جہازوں سے بم برسائے ۔ یمن میں خانہ جنگی والی کیفیت ہے۔حالات خونی باغیوں کے مکمل کنٹرول میں نہیں آئے۔
مڈل ایسٹ میں ریاست کا تصور کمزور ہوا ہے وہ ملک جن کی حکومتیں پولیس اور ایجنسیوں کی مدد سے زبردست رعب اور دبدبہ رکھتی تھیں وہ آج کمزور اور لاغر نظر آتی ہیں۔ میری مراد بغداد اور طرابلس سے ہے۔ آج پوری دنیا میں تیل کی پیداوار کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ تیل کے اعتبار سے مشرق وسطیٰ کی اہمیت
قدرے کم ہوئی ہے۔ دوسری دلچسپ بات صدر اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوکے خراب تعلقات ہیں لیکن اسرائیلی لابی امریکہ میں بھی مضبوط ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کو امریکہ کے دورے کی دعوت ایوان نمائندگان کے سپیکر نے دی ہے اور اگر وہ امریکہ گئے تو عین ممکن ہے کہ صدر اوباما سے ملاقات بھی نہ ہو سکے ۔اب یہ دیکھتے ہیں کہ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس کے مڈل ایسٹ پر کیا اثرات ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ بغداد اور دمشق میں اس معاہدے پر خوشی منائی جائے گی ۔ ایران اگلے پانچ دس سال میں معاشی طور پر مستحکم ہو جائے گا۔ پورے خطے میں اس کا اثرو رسوخ پھیلے گا۔ ایرا ن نے پہلے ہی عراق میں اپنے پائوں جما لیے ہیں اور اب داعش کے خطرے کی وجہ سے مغربی ممالک کو ایرانی تعاون کی ضرورت ہے ۔پچھلے ایک سال میں خلیجی ممالک میں بھی ایران دشمن رویہ قدرے کم ہوا ہے۔ معاہدہ ہونے کی صورت میں ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو محدود کر دیا جائے گا اور خلیجی ممالک کو قدرے سکون ہو گا۔
دراصل عالمی صورت حال امریکہ کے حوالے سے کچھ یوں ہے کہ سپر پاور کے اس وقت تین محاذ ہیں۔ایک مڈل ایسٹ میں جہاں داعش مسلسل درد سر بنی ہوئی ہے ،دوسرا یوکرائن میں جہاں روس سرگرم عمل ہے اور تیسرا محاذ جو سب سے اہم ہے وہ بحرالکاہل کا محاذ ہے اس کا مقصد چین کے علاقائی کردارکو محدود رکھنا ہے۔ اس محاذ کے لیے امریکہ انڈیا، جاپان ،آسٹریلیا ،تھائی لینڈ اور فلپائن کو تیارکر رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ مڈل ایسٹ کے کمبل سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے مگر کمبل سپر پاور کو نہیں چھوڑ رہا۔ امریکہ اپنی تمام تر توجہ بحرالکاہل کے محاذ پر مبذول کرنا چاہتا ہے لیکن اب لگتا ہے کہ داعش کی وجہ سے امریکہ مزید چند سال مڈل ایسٹ کونہیں چھوڑ سکے گا۔
دو ہفتے گزرے ہیں۔اسلام آباد کی ایک مؤقر یونیورسٹی میں انٹرنیشنل کانفرنس تھی۔ ایک پورا سیشن مڈل ایسٹ کے لیے وقف تھا۔ اردن سے ایک سکالر آئے ہوئے تھے انہوں نے داعش کے بارے میں دلچسپ باتیں کیں۔ کہنے لگے کہ یہ عجیب و غریب اسلامک سٹیٹ ہے جسے ایک بھی اسلامی ملک نے تسلیم نہیں کیا،جو پوری دنیا میں کسی سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی اور پھر ایک ایسا نقطہ اٹھایا جسے سُن کر حاضرین ششدر رہ گئے اور وہ نقطہ یہ تھا کہ داعش نے اب تک نہ ہی اسرائیل کے خلاف کوئی بات کی ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کے حق میں۔ استدلال یہ لگتا ہے کہ داعش کو اسلام دشمن قوتوں کی حمایت حاصل ہے ۔میں خود نظریہ سازش پر یقین نہیں رکھتا لیکن داعش کی حرکات کو غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عالم اسلام کو زیادہ نقصان اپنوں ہی سے پہنچا ہے۔
اگر جنیوا میں ایران کے ساتھ کوئی معاہد طے نہیں پاتا تو خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کے لیے دوڑ شروع ہو جائے گی۔ خلیجی ممالک غیر محفوظ محسوس کریں گے۔ امریکی افواج خلیجی ممالک میں موجود رہیں گی۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ بالآخر دائمی معاہدہ طے پا جائے گا۔ ایران میں حکومت زیادہ پاپولر نہیں لگتا ہے کہ ایرانی عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ عوام کو خوش کرنے کے لئے تیز معاشی ترقی ضروری ہے اور وہ اس صورت میں ممکن ہے کہ اقتصادی پابندیاں ختم ہو جائیں۔ طاقت ور ایران کا سامنا کرنے کے لیے خلیجی ملکوں میں تعاون پھر فروغ پائے گا۔ اس وقت عرب لیگ کا فرض ہے کہ باہمی تعاون کو ترقی دے کر لیبیا اور یمن کو نارمل کرے۔ گڈ گورنس کو فروغ دے اور عرب دنیا کا وقار بحال کرے تاکہ پوری توجہ مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف مبذول کی جا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved