کئی دہائیاں پہلے بارسلونا کنونشن کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے بھارت جب بار بار پاکستانی نہروں کو بند کرنے لگا تو اس وقت شہید ملت لیاقت علی خان نے ملکی وسائل سے ہیڈ مرالہ کی تعمیرکے علاوہ بی آر بی نہر بنا کر بھارت کی آبی جارحیت کا توڑ نکالا لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان کی شہادت کے بعد پاکستانی حکمرانوں کی فراست بھی مفقود ہوتی چلی گئی اور ان کے سامنے بھارت نے مشرقی دریائوں راوی، بیاس اور ستلج پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا توساتھ ہی اس کے ہاتھوں میں دریائے چناب اور جہلم پر پانی کے منصوبوں کا پیپر ورک بھی موجود تھاجس کی رپورٹ بارسلونا کنونشن کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس رپورٹ کے باوجود آبی ماہرین کہلانے والے پاکستانی حکام خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے ۔ شاید ہمارے حکمرانوں کے پاس ویسے بھی کوئی ویژن نہیں رہا تھا کیونکہ بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت رکھنے والے قائداعظم اور شیخ زید جیسے لیڈر تو بلا شبہ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
اس ساری تشویشناک صورتحال اور رپورٹوں کے باوجودہمارے آبی ماہرین کے پاس کوئی پلاننگ نہ تھی۔ بالآخر ورلڈ بینک کی نگرانی میں ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد 19ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کا معاہدہ عمل میں آیا۔ اس معاہدے کے منظور ہوتے ہی بھارتی آبی جارحیت کا ایک مرحلہ مکمل ہو گیا ،جس کے تحت تیزی کے ساتھ راوی ،بیاس اور ستلج کے پانی کو کنٹرول میں کیاگیا اور پھر بھارتی آبی جارحیت کی جنگ تیسرے مرحلے میں داخل ہو گئی، جس کے تحت پاکستان کے باقی ماندہ دریائوں پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دھڑادھڑ ڈیم بنانے کے منصوبوں پر عمل درآمد شروع ہو گیاجبکہ مقابلے میں پاکستان کے آبی ماہرین نے راوی اور ستلج کی زرخیز زمینوں کی کاشت کاری کے لئے محض سطحی منصوبے بنانے پر اکتفا کیا۔پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ان علاقوں کے کاشتکاروں نے ٹیوب ویل کا بے دریغ استعمال کیا ،جس سے زیر زمین پانی کی سطح گرنا شروع ہو گئی اور حالت یہ ہو چکی ہے کہ 1970ء سے لے کر یہ سطح اب تک 100فٹ نیچے گر چکی ہے ۔دوسری جانب راوی اور ستلج کی تہذیبیں اپنی معاشی بدحالی کی وجہ سے نوحہ کناں ہیں۔
یہ کیسا معاہدہ ہے جس کے تحت بھارت پاکستان کی جانب پانی کی روانیوں پر ہائیڈرل پاور ہائوس بنا سکتا ہے اور جس کے تحت ہر ہفتہ پورا پانی ریلیز کرنے کا اختیار بھی بھارت کے پاس ہے ؟اسی طرح پاکستان کے تینوں دریائوں سندھ جہلم اور چناب پر ہمارے پاس کوئی بڑا ڈیم بنانے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔اگر ایک ایک شق کو سامنے رکھیں تو اس ضمن میں انڈس واٹر ٹریٹی میں بھی کوئی ابہام نہیں۔پاکستانی دریائوں کے امین ادارے انڈس واٹر کمیشن پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ سندھ طاس معاہدے کے خلاف کسی بھی بھارتی منصوبے کو فوراً آشکار کرتا اور اگراس معاہدے کے خلاف کوئی کام کیا جاتا تو بھارت کے خلاف کارروائی کی جاتی لیکن بھارت جس طرح ایک کے بعد ایک منصوبے مکمل کرتا جارہا ہے، اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انڈس واٹر کمیشن پاکستان کے حکام کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے کیونکہ اس نے بھارتی ڈیموں کی تعمیر سے آنکھیں بند رکھ کر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔بھارت تین مغربی دریائوں سندھ ،جہلم اور چناب پر اب تک 173 ڈیم بنا چکا ہے، جن میں سے 62 ڈیم بڑے اور درمیانے سائز کے ہیں ۔ بھارت کی آبی جارحیت کے منصوبوں کو صیغۂ راز میں رکھنے کو آپ کوئی بھی نام دے لیں، بہرحال کچھ نہ کچھ ایفی شینسی تو دکھانی ہی ہوتی ہے؛ چنانچہ پہلے بھارت کو بگلیہار ڈیم مکمل کرنے کا موقع فراہم کیاگیااور جب 90فیصد ہوگیا تو پاکستانی عوام کو دکھانے کے لئے اس ڈیم کا کیس ورلڈ بینک کے نیوٹرل ایکسپرٹ کے پاس لے گئے۔ بگلیہار ڈیم انڈس واٹر ٹریٹی 1960 ء کی صریحاًخلاف وردی تھی۔دوران کیس پاکستانی مشن نے معمول کی بحث کے سوا اہم پوائنٹس پر کوئی بات نہ کی۔ یکم اپریل1948 ء سے بھارت کی جانب سے جس طرح پاکستانی نہروں کا پانی بار بار بند کیا گیا،یہ پاکستان کے بارے میں بھارتی منصوبہ بندی آشکار کرنے کے لیے کافی تھا ؛ چنانچہ سندھ طاس معاہدے کی منظوری کے وقت پاکستان نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستانی پانیوں پر واٹر سٹوریج کے لئے کوئی ڈیم بننے نہ دیا جائے گا، جس سے ان دریائوں کے پانی کا کنٹرول بھارت کے پاس چلا جائے اور پاکستان کی زراعت متاثر ہو۔
Pakistan pointed out that the flow of the Western rivers without the facility for storage of water as India had developed at Bhakra dam would fail to meet the water requirements at critical sowing periods.
پاکستان کے اس حق کو ٹریٹی کی مختلف شقوں سے واضح کیا گیا ہے لیکن ورلڈ بینک کے نیوٹرل ایکسپرٹ نے پاکستان کے مفادات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے صرف ڈیم کو کامیاب بنانے کے لحاظ سے اپنی رائے دی بلکہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960ء کو ریوائز کرنے کا اشارہ بھی دیا۔پاکستانی پانیوں پر انڈس واٹر ٹریٹی 1960 ء کے عالمی معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے بھارت کے تعمیر کردہ ڈیم عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہیں۔نیوٹرل ایکسپرٹ کے اس متنازعہ فیصلے کو International Court of Orbitration میںبھی چیلنج نہ کیا گیا۔
کشن گنگا ڈیم کے کیس میں پاکستانی مشن اپنا کیس براہ راست عالمی عدالت میں لے گیا۔ٹریٹی کے تحت بھارت پاکستانی پانیوں کو نہ تو روک سکتا ہے نہ ہی اس کا رخ تبدیل کر نے کا حق رکھتا ہے لیکن کشن گنگا ڈیم میں پانی کے رخ کو تبدیل کرنے کے لئے بنائی جانے والی سرنگ کے حوالے سے پاکستانی کمیشن نے کوئی رائے دینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور نہ ہی کشن گنگا ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لئے Stay کی ڈیمانڈ کی جس پر بھارتی مشن کی خوشی سے بانچھیں کھل گئیں۔پھر پاکستانی میڈیا کے سختی سے نوٹس لینے پر چھ ماہ کی تاخیر سے Stay حاصل کیا گیا لیکن پھر بھی پانی کی سرنگ کے حوالے سے کوئی کمنٹس نہ دیے گئے۔ واضح رہے اگر سرنگ کے ذریعے جہلم کے پانی کا رخ تبدیل کر دیا جاتا ہے تو نہ صرف نیلم جہلم پراجیکٹ اور کوہالہ ہائیڈروپراجیکٹ متاثر ہوگا بلکہ منگلا ڈیم کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔ بھارت کی انہی سرقہ بالجبر کی وارداتوں کے بارے میں پاکستانی اداروں کی خاموشی انہیں مجرم قرار دیتی ہے جس سے پاکستان کے مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سابق پاکستانی کمشنر سید جماعت علی شاہ کسی طرح بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ جماعت علی شاہ تو ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن ان کی ٹیم کے دیگر افراد ابھی تک اپنے عہدوں سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریٹائر ہونے والے ایک عہدیدار پر سارا ملبہ ڈالنے کے بجائے باقی افراد کا بھی سختی سے محاسبہ ہونا چاہیے جن کی وجہ سے پاکستانی مفادات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ اربوں نہیں کھربوں کی کرپشن ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت شدید بد حالی سے دوچار ہے۔اطلاعات کے مطابق بھارت پاکستانی دریائوں پر 400 ملین ایکڑ فٹ کے واٹر سٹوریج تعمیر کرنے کے پروگرام رکھتا ہے۔اب تک وہ 40 ملین ایکڑ فٹ پانی سے زیادہ کے سٹوریج بنا چکا ہے۔ جبکہ ان دریائوں سے سالانہ صرف 145 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوتا ہے۔ اتنی بھاری مقدار کے سٹوریج بنانے کا مقصد واٹر بینک اور واٹر بم بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیںکہ جب چاہا پاکستان کو ڈبو دیا اور جب چاہا اس کے گڑگڑانے پر تھوڑا سا پانی دے دیا۔ (جاری)