تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-03-2015

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

بھارتی سیکرٹری خارجہ اردو خوب سمجھتے ہیں۔ مذاکرات کی میز جب آراستہ ہو چکے تو کوئی انہیں غالبؔ کا شعر سنائے ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
پنڈت جواہر لعل نہرو کے پرنسپل سیکرٹری ایم او متھائی نے لکھا ہے: ہندوستان کو متحد رہنا تھا مگر ایک شخص تاریخ کے راستے میں کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام محمد علی جناح تھا۔ قائد اعظم کی خیرہ کن کامیابی کو کئی طرح سے بیان کیا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ جذباتی توازن نے ان کی استعداد کو کئی گنا بڑھا دیا تھا۔ بھارت کے باب میں ہمارا روّیہ بے حد جذباتی ہے۔ کچھ اتنے کڑوے کہ تھوک ہی دیے جائیں، کچھ اتنے میٹھے کہ ہڑپ کر لیے جائیں۔
دوست بدلے جا سکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں۔ سانجھی سرحدوں کے سوا، یہ دو ایٹمی ملکوں کا معاملہ ہے۔ دنیا بہت چھوٹی ہو گئی۔ باہم بے نیاز ہو کر قومیں پھل پھول نہیں سکتیں۔ اس خطہء ارض میں اہم اقوام کے غیر معمولی مفادات ہیں۔ سوا ارب سے زیادہ کی مارکیٹ اور کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری۔
جے کرشنا کا دورہ خواہ بہت نتیجہ خیز نہ ہو، پاکستان کی کامیابی ہے۔ وزیرِ اعظم مودی پر دو طرفہ دبائو تھا۔ صدر اوباما نے انہیں تلقین کی اور بھارت کے بڑے تاجر کا مفاد اسی میں ہے۔ وہ ایک انتہا پسند ہیں مگر با رسوخ کاروباری طبقات کو نظر انداز نہیں کر سکتے‘ ان کی سیاسی فتح میں جس کا مرکزی کردار تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے نئے وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید کا وہ بیان نقطۂ عروج تھا، جس نے بھارتی پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ اپنی تقریبِ حلف برداری میں انہوں نے کہا کہ کشمیر میں پُرامن الیکشن کے لیے وہ پاکستان اور حریت کانفرنس کے شکر گزار ہیں۔
پاکستان کی بھارت پالیسی میں اب ایک توازن کارفرما ہے، وگرنہ ابتدا میں تو وزیرِ اعظم نے سر ہی جھکا دیا تھا۔ مشورہ انہوں نے بعد میں کیا اور فیصلہ پہلے کر لیا کہ نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہوں گے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے الیکشن میں گڑبڑ سے گریز کیا، جس کی وہ پوری صلاحیت رکھتا تھا، دوسری طرف سرحدوں پر آتش و آہن کی برسات میں حوصلہ برقرار رکھا؛ چنانچہ بھارتی وزیرِ اعظم کواپنی راہ تبدیل کرنا پڑی۔
نریندر مودی کوئی بڑے لیڈر نہیں۔ کیا تاریخ نے اس سے پہلے کسی کامیاب لیڈر کو دیکھا ہے، جو اپنے لباس پر اپنا نام لکھوا کر شاد ہو اور دس لاکھ اس پر صرف کر دے؟ ٹراٹسکی مارا گیا مگر وہ لینن سے کم ذہین آدمی نہ تھا۔ اس نے کہا: سیاست پرولتاری ہونی چاہئے مگر ثقافت بورژوائی ہوتی ہے۔ ان کی کامیابیاں اپنی جگہ مگر مودی ایک تعلیم یافتہ آدمی نہیں۔ وہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے کارکن تھے اور پلیٹ فارم پر چائے بیچا کرتے۔ قومی جذبات بھڑکانا اور ان سے فائدہ اٹھانا ایک چیز ہے اور ان کا اسیر ہو جانا ایک بالکل دوسری بات۔ انتہا پسندانہ بیانات کا بالآخر انہیں کیا فائدہ پہنچا؟ کجری وال نے انہیں چاروں شانے چت کر دیا۔ کشمیر کا الیکشن جیتنے میں وہ ناکام رہے اور مفتی سعید نے ان سے وعدہ لیا کہ پاکستان کے ساتھ وہ بات چیت کا آغاز کریں گے۔ عظیم رہنما سلطان ٹیپو ایسے ہوتے ہیں، جن کی ہندو رعایا ان پر
جان دیتی تھی۔ رکن الدین بیبرس کی مانند، حالتِ جنگ میں جس نے تاتاریوں میں دوست ڈھونڈ نکالے۔ رومیوں سے خوشگوار مراسم برقرار رکھے۔ ابرہام لنکن، اڑھائی صدیوں سے جو کالوں کا ہیرو ہے۔ امریکی معاشرے کو جوڑنے والا ایک عنصر۔ آخری تجزیے میں کامیاب رہنما وہ ہوتا ہے، جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا ہو، جس سے خیر خواہی کی امید کی جا سکے۔
کارگل کے باوجود 2007ء میں پاکستان بھارت تعلقات اس نہج پہ آپہنچے تھے کہ سرکریک اور سیاچن گلیشیر پر دو عدد معاہدے ممکن تھے۔ دونوں مقامات کے نقشوں کا تبادلہ ہو چکا تھا اور تقریباً پوری طرح اتفاقِ رائے ہو گیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف عوامی تحریک اگر برپا نہ ہوتی تو دستخط ہو گئے ہوتے۔ سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دے کر دونوں کی افواج 22 ہزار فٹ اونچے برف زار کو خالی کر چکی ہوتیں، جہاں گھاس کی پتی بھی اگ نہیں سکتی۔ سرکریک میں سرحدوں کے تعین پر سرکاری مہر لگ گئی ہوتی۔
جے کرشنا کے دورے سے غیر معمولی توقعات وابستہ نہیں۔ دونوں طرف سے معقولیت کا اگر مظاہرہ ہو تو یہ ممکن ہے کہ سرکریک اور سیاچن پر بات کچھ آگے بڑھے۔ پاکستان میں تو کسی کو اعتراض نہ ہو گا۔ مسئلہ بھارت کا ہے، جہاں عسکری قیادت اور انتہا پسند سبوتاژ کر سکتے ہیں۔ پاکستانی مزاج میں بہتری آئی ہے۔ نریندر مودی اور ان کے ساتھی بھی سیکھ رہے ہیں۔ نہ سیکھ سکے تو عبرتناک شکست ان کا مقدر ہو گی۔ دنیا دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کی متحمل نہیں۔ پاک بھارت تعلقات بالی وڈ کی کوئی فلمی کہانی بہرحال نہیں، جس میں ہیرو پاکستان کو پست کر کے فتح کا علم لہراتا ہے۔
بھارتیوں نے کشمیر کی جنگِ آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ ضربِ عضب کی کامیابی اور صدر اشرف غنی کے ظہور نے صورتِ حال کو بدل ڈالا ہے۔ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا اب سہل نہیں۔ اس کے برعکس اسلام آباد دہلی پر دبائو ڈالنے میں کامیاب رہا کہ قبائلی دہشت گردوں اور بلوچستان میں باغیوں کی مدد کا مرتکب ہوا۔ بیچ میں بھارتیوں نے ہاتھ کھینچ لیا تھا مگر مودی کی فتح کے بعد شرارت پسند غالب آ گئے۔ جنرل راحیل شریف امریکیوں کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ بھارت مولوی فضل اللہ ایسے جنونیوں کا مددگار ہے۔ افغان سرزمین پر اس کی سرمایہ کاری ناکام رہی ہے۔ صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان قوم کے اجتماعی ضمیر نے فیصلہ صادر کر دیا کہ دونوں قوموں کا مستقبل باہم وابستہ اور دونوں میں دہشت گردی کا خاتمہ ایک ساتھ ہی ممکن ہے‘ پورے خطے پر جس کے خوشگوار اثرات مرتّب ہوں گے۔ وسطی ایشیا اور چین پر بھی۔
حالیہ تاریخ سے آشکار ہوا کہ کشمیر میں عسکریت کے لیے فضا سازگار نہیں مگر عوامی تحریکیںکبھی مرا نہیں کرتیں۔ پاکستان ایک المناک کوتاہی کا مرتکب ہے۔ اہلِ کشمیر کا مقدمہ مضبوط ہے مگر سفارت کاری اور عالمی پریس کے میدان میں یہ مقدمہ ہم لڑتے ہی نہیں‘ چند برسوں میں ورنہ فضا تبدیل ہونے لگے۔ پاکستان کا وزیرِ اطلاعات ایک ایسا شخص ہونا چاہیے، جو غیر ملکی صحافیوں کے سامنے اس پر استدلال کر سکے۔ وزراتِ خارجہ میں یہ ایک ترجیح ہونی چاہیے۔ طویل المیعاد منصوبہ، جس کاجائزہ لیا جاتا رہے۔
تجارت کے فروغ کا امکان اب واضح ہے۔ بھارت کے کاروباری بے تاب ہیں۔ ہمارا مفاد بھی یہی ہے۔ سستے داموں جو چیز بھارت سے مل سکتی ہے، مہنگی کیوں خریدی جائے؟ زرِ مبادلہ کی بچت کیوں نہ ہو؟ چین اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے پاکستان بھارت کی مدد کر سکتا ہے۔ توانائی کی اہمیت بڑھ گئی۔ بھارت کی آدھی آبادی بجلی سے محروم ہے۔ ایران اور وسطی ایشیا سے گیس کی فراہمی کے لیے بھارت کو پاکستان کی ضرورت ہو گی۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ جذباتیت کی بجائے دونوں ملک ہوش مندی اور حکمت سے کام لیں؟ مخالفت بجا، دشمنی بھی قابلِ فہم مگر اس کا مطلب پاگل پن کیوں ہو؟
بھارتی سیکرٹری خارجہ اردو خوب سمجھتے ہیں۔ مذاکرات کی میز جب آراستہ ہو چکے تو کوئی انہیں غالبؔ کا شعر سنائے ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں، جنہیں تقدیر بنا آتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved