تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     04-03-2015

ادبی میلہ اور امن کی آشا

ایک ناخواندہ معاشرے میں، جہاں لوگوں میں پڑھنے یا لکھنے کا حقیقی ذوق نہ ہو‘ جہاں بُک سٹور غائب ہو کر تیزی سے ویڈیو شاپس اور برگر سٹینڈز میں تبدیل ہو رہے ہوں‘ جہاں آرٹ گیلریاں اور سینما ہائوس شاپنگ مال بنتے جا رہے ہوں اور جہاں خود کلچر اپنی حقیقی روح سے محروم ہو کر کاروبار بنتا جا رہا ہو‘ وہاں 2012ء سے لاہور ادبی میلے کا سالانہ انعقاد‘ اُس عظیم شہر میں بلاشبہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہا ہے‘ جو اپنے تاریخی حوالے سے اور بھرپور ثقافتی سرگرمیو ں کے اعتبار سے نمایاں پہچان رکھتا ہے۔ یہاں صحت مند تبادلہ خیال کے لیے قدآور دانشوروں کا جمع ہونا باعث مسرت ہے۔ یہ اجتماع لاہور شہر کی متنوع تہذیبی روایت کے احیا کی ایک کوشش ہے۔
اس میں سرحد پار سے نمایاں افراد کی شرکت سے بھارت اور پاکستان کے لوگوں کے باہمی رابطے کو بھی فروغ ملتا ہے جو بذات خود ایک احسن مقصد ہے‘ لیکن اس ضمن میں احتیاط لازم ہے، کیونکہ اس طرح کے مواقع ہر قسم کے نظریاتی پروپیگنڈے کے لیے بھی آسان فورم فراہم کرتے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے بے سمت معاشرے میں‘ بیرونی اور اندرونی عناصر‘ کس طرح پیسے اور نظریات سے آراستہ ہو کر اپنے خفیہ مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس میلے کے سرپرستوں کو جانتے ہوئے‘ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ لاہور ادبی میلے کو کبھی اس طرح کے اثرات پھیلانے کا ذریعہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ ہر سال اس اجتماع کے شرکاء آرٹ‘ کلچر‘ تاریخ اور ادب پر، موضوع کی مناسبت سے تعمیری اظہار خیال کرتے ہیں‘ لیکن بھارت پاکستان تعلقات کے تناظر میں، ہم مختلف آوازیں تقریباً یکساں سُر اور تال میں سنتے آ رہے ہیں، جن میں پاک بھارت حقائق کے بارے میں سادگی پر مبنی سوچ عیاں ہوتی ہے اور سب امن کی دہائی تو دیتے ہیں مگر ان غیر حل شدہ تنازعات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا جنہوں نے دو ہمسایوںکو آمادہ تصادم بنا رکھا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی تقریبات پر ہمیشہ ''لبرل‘‘ اشرافیہ کے ایک ایسے گروپ کی اجارہ داری رہتی ہے‘ جس کا خیال یہ ہے کہ پاک بھارت سرحد‘ کاغذ پر کھینچی گئی ایک مصنوعی باریک سی لکیر ہے، ورنہ ہم ایک ہی قوم ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں ہے کہ کلچر یا ادب میں یکسانیت، قومی سرحدوں یا تاریخی حقائق کو مٹا نہیں سکتی۔ میلے ٹھیلے لوگوں کو قریب ضرور کرتے ہیں لیکن یہ دو مختلف اقوام کو باہم ضم نہیں کر سکتے۔
بلا شبہ‘ سرحد کی دونوں جانب دیرپا امن کی خواہش موجود ہے اور ہمیں اس میلے کے شرکا سے اس مقصدکے لیے امیدیں اور آرزوئیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ مثلاً ''میں اپنے والد کی جنم بھومی‘ ہڈالی جانا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی مہمان نواز حکومت میری یہ شدید خواہش ضرور پوری کرے گی‘‘۔ اس خواہش کا اظہار عالمی شہرت یافتہ مصنف اور کالم نگار آنجہانی خوشونت سنگھ کے بیٹے راہول سنگھ نے کیا‘ جو ضلع خوشاب میں ہڈالی جانا چاہتے تھے۔ میرے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ راہول سنگھ کی خواہش کیوں پوری نہ ہو سکی۔ شاید انہوں نے ویزہ حاصل کرتے وقت حکومت پاکستان سے ہڈالی جانے کی درخواست نہیں کی ہو گی۔ آئندہ انہیں اس کا ذکر کرنا چاہیے۔
اگر آنجہانی خوشونت سنگھ کی راکھ ہڈالی سے بارہ کلومیٹر دُور ان کے سکول کی دیوارکے طاقچے میں رکھی جا سکتی ہے‘ تو ان کا بیٹا اپنے آبائی گائوں کیوں نہیں جا سکتا؟ مجھے یقین ہے کہ اگلی بار جب وہ ہڈالی جانے کی درخواست دیں گے تو انہیں وہاں جانے کی اجازت مل جائے گی۔ دونوں حکومتوں کو ویزے کے اجراء میں نرمی پر سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ وہ ماضی میں اعتماد سازی کے متعدد اقدامات پر اتفاق کرتی رہی ہیں‘ جن میں حصول ویزہ کے قواعد و ضوابط کو آسان بنانا بھی شامل تھا، لیکن بداعتمادی کی فضا کے باعث وہ اپنے فیصلوں پر بھی عملدرآمد نہیں کر پاتیں۔ حالیہ برسوں میں تو انہوں نے باہمی گفت و شنید بھی بند کر رکھی ہے۔
پاک بھارت مذاکراتی عمل رُکنے کی بڑی وجہ بھارت کی یہ کُھلی پالیسی ہے کہ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کو مسلسل دبائو میں رکھا جائے۔ لاہور ادبی میلے میں شریک بھارت کے شیکھر گپتا نے‘ جو پاک بھارت اُمور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں‘ اس حقیقت کی تصدیق کی ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ''صرف وزیر اعظم نواز شریف حکومت کا دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا حقیقی عزم اور پاکستان میں ہر طرح کی دہشت گردی کے بلاامتیاز خاتمے سے ہی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے‘‘۔ اپنے تمام تر صحافتی تجربے کے باوجود شیکھر گپتا جیسے نمایاں شخص کا بھارت پاکستان حقائق سے لاعلم ہونا باعث حیرت ہے۔
انہوں نے بڑی بے باکی سے دعویٰ کر ڈالا کہ نواز، مودی ملاقات صرف اس صورت میں ہی ممکن ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات کرے۔ اگر گپتا‘ نواز مودی ملاقات کو ایک مقصد سمجھتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کسی بھی سطح کے مذاکرات ایک مقصد کی جانب بڑھنے کا ذریعہ تو ہوتے ہیں‘ بذاتِ خود مقصد نہیں ہوا کرتے۔ حتمی مقصد بھارت اور پاکستان کے مابین قیام امن ہے‘ لیکن جب تک پاک بھارت مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی‘ خطے میں امن ایک خواب ہی رہے گا۔ ان مسائل کی نوعیت حقیقی ہے‘ یہ نہ منظر سے غائب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی سرحد کے دونوں طرف 'امن کی آشا‘ کے سراب کا تعاقب کرنے والے چند افراد کی خام خیالی کے تحت ازخود حل ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات اور تعمیری تبادلہ خیال ہی ان مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے مگر بھارت دانستہ طور پر ایک مختلف گیم پلان پر چل رہا ہے۔ وہ مذاکرات چاہتا ہے مگر اپنی شرائط پر۔
نائن الیون کے وقت سے بھارت‘ پاکستان کے حوالے سے اسی جانی پہچانی اور سوچی سمجھی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہ اپنی اسی شر انگیز پالیسی کے تحت اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے ہر واقعے میں پاکستان کو ملوث کرتا آ رہا ہے اور دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان کو مسلسل دبائو میں رکھ کر امن مذاکرات کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اس نے جولائی 2006ء میں ممبئی ٹرین پر حملے‘ فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس‘ جولائی 2008ء میں کابل میں بھارتی سفارت خانے اور نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کیا۔
بھارت اپنی اس گمراہ کن مہم کے تحت تنازعات کو دہشت گردی کے معاملات کے ساتھ خلط ملط کر کے اور لائن آف کنٹرول پر وقتاً فوقتاً جھڑپوں میں تیزی پیدا کر کے پاک بھارت ایشوز کو نئی شکل دینا چاہتا ہے۔ اس کے نقطہ نظر سے‘ پاکستان پر دبائو ڈال کر اُسے مسئلہ کشمیر پر سپر اندازکرنے کا مناسب وقت ہے۔ بہرکیف‘ مودی کے بھارتی منظر پر نمودار ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے یکطرفہ طور پر خیر سگالی کا جو مظاہرہ کیا، اس سے یہ تاثر پیدا ہُوا کہ پاکستان مذاکرات کی بحالی کے لیے بے تاب ہے۔ دہلی میں ان کے خلوص کا غلط مطلب لیا گیا اور مودی نے اس کا جواب رعونت سے دیا۔
اس خطے میں جوہری صلاحیت پیدا ہونے کے بعد، شاید انہیں یہ احساس نہیں رہا کہ جنوبی ایشیا کے مسائل صرف اس خطے کا مسئلہ نہیں رہے؛ بلکہ اب عالمی سطح پر بھی ان کی پریشان کن جہت آشکار ہو چکی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بار بار جھڑپوں نے دُنیا کے کان کھڑے کر دیے ہیں۔ صدر اوباما نے اپنے حالیہ دورہ دلی میں مودی کے ذہن میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنے دیا کہ ان کی انتظامیہ کے نزدیک خطے کے امن و استحکام میں پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے مسائل حل کرنے کے لیے پاک بھارت مذاکرات کی بحالی پر زور دیا۔ بظاہر‘ اوباما کی جادو کی چھڑی کام کر گئی۔ مودی نے 13 فروری کو خود نواز شریف کو ٹیلی فون کر کے بتایا کہ وہ اپنے سیکرٹری خارجہ کو پاکستان بھیج رہے ہیں۔
ان کے سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر گزشتہ روز پاکستان پہنچ چکے ہیں‘ لیکن ان کا دورہ دو طرفہ تعلقات کے ضمن میں نہیں ہے؛ وہ بنیادی طور پر سارک یاترا کے طور پر یہاں آئے ہیں۔ ہر نیا بھارتی سیکرٹری خارجہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد بالعموم خطے کا دورہ کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی، پاک بھارت بامقصد مذاکرات میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ وہ اس دورے کے ذریعے پاکستان کو صرف یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خطے کا ایک ایسا حصہ تصور کرے جو بھارتی بالادستی کے دائرہِ اثر میں آتا ہے۔ ان کی یہ سوچ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ بہرحال، دونوں ملکوں کے مابین براہ راست رابطہ ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ اس سے کم از کم برف تو پگھلے گی۔ چونکہ ہم ''باوقار امن‘‘ کے متلاشی ہیں اس لیے ہمارے لیے اس دورے کے حوالے سے پُرامید ہونے یا خوش فہمی کا کوئی جواز نہیں ہے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved