مغربی دریائوں کو قابو میں کرنے کیلئے بھارت سب سے بڑی رکاوٹ انڈس واٹر ٹریٹی کو سمجھتا ہے جس کے تحت اسے تین مشرقی دریائوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ اب اپنے ماہرین اور سکالرز کے ذریعے مختلف ایشوز اٹھا کر مغربی دریائوں کا پانی حاصل کرنے کی شرمناک کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارتی ماہرین اور ان کے سرپرستوں کی کوشش ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960ء کو تبدیل کرکے انڈس واٹر ٹریٹی II (IWT II) کے لئے راہ ہموار کی جائے جس کے لئے وہ مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل پروپیگنڈا کر رہا ہے:
-1ورلڈ بینک کے نیوٹرل ایکسپرٹ نے بگلیہار ڈیم کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں انڈس واٹر ٹریٹی کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیا ہے جس کے تحت بڑے ڈیموں کے لئے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
2۔مقبوضہ جموں وکشمیرکی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے 2002ء میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں قرارداد منظور کروائی گئی کہ انڈس واٹر ٹریٹی جموں و کشمیر کے عوام کے حق میں نہیں، اسے تبدیل کیا جائے۔
3۔ بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے لوگ اس ٹریٹی کے خلاف ہیںاور وہ اپنے علاقوںمیں ڈیم نہیں چاہتے۔
4۔منگلا ڈیم کو نشانہ بناتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ چنانچہ وہ پاکستان میں ڈیم بننے کے خلاف ہیں۔
5۔پاکستان کے چاروں صوبے انڈس واٹر کی تقسیم سے متفق نہیں۔
6۔اس طرح پاکستان میں پانی ضائع ہو جاتا ہے جبکہ سارک ممالک میں پانی کی شدید کمی ہے۔ اس فاضل پانی کو استعمال کرنے کیلئے انڈس واٹر ٹریٹی میں ردوبدل کرکےIWT II طے کیا جائے۔
ان نکات سے خود اندازہ لگا لیں کہ اگربھارتی کوششیں پوری ہوجاتی ہیں توپاکستان کا کیا حشر ہوگا۔ سرسبز میدانوں کی جگہ خاک اڑے گی۔ غلہ کی بھرپور پیداوار دینے والے کھیت اس وقت پانی کی کمی کا شکار ہیں پھر ویران ہو جائیں گے۔ پاکستانی حکمرانوں، اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے جذبہ حب الوطنی کو مہمیز کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کے معاہدوں کو سبوتاژ کرنے والے بھارتی اقدامات کے خلاف سخت رویہ اپنانا انتہائی ضروری ہے۔ بھارت کے نمک خوار گھسے پٹے انداز سے انڈس واٹر ٹریٹی 1960ء کے خلاف واویلا کررہے ہیں۔ اگر ان کے مطالبہ کے مطابق ٹریٹی کو منسوخ یا موخر کر دیا جائے تو کیا ہوگا؟ بھارت اس وقت جو کام چوری چوری کر رہا ہے پھر دیدہ دلیری سے اسی طرح کرے گا جس طرح 1948 ء سے 1960ء تک اس نے خوب ڈیم بنائے تھے۔ اب اگر بھارت ہمارے دریائوں پر ڈیم بنا رہا ہے تو اسے سختی سے روکا جا سکتا ہے یا بین الاقوامی اداروں کے ذریعے Warn کیا جا سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ٹریٹی باقی نہ رہی تو ٹریٹی II کتنے عرصہ میں منظور ہوگی۔ اس دوران بھارت کیا کچھ کر گزرے گا؟ کیا انڈس واٹرٹریٹی 1960ء کی خواہ مخواہ مخالفت کرنے والوں کو اس کا اندازہ ہے؟
ایک لمحہ کیلئے یہ تصور کر لیا جائے کہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960ء میں ہم سے جو زیادتی ہوئی ہے‘ اس ٹریٹی کو ختم یا موخر کر دینے سے ہمارے حق میں کوئی فیصلہ ہو سکے گا تو اس کیلئے ہمیںبارسلونا کنونشن کے اصولوں کاتھوڑا سا جائزہ لینا ہوگا۔
انڈس واٹر ٹریٹی 1960ء میں پاکستان کے حق کی مکمل تشریح کر دی گئی ہے۔ یہ ہماری غفلت ہے کہ ہم ڈیم نہ بنا سکے۔ ہماری کروڑوں ایکڑ اراضی آج تک کاشت نہیں ہو سکی۔ صوبہ خیبر پی کے میں پانچ جنوبی اضلاع کرک‘ بنوں‘ لکی مروت‘ ٹانک اورڈیرہ اسماعیل خان کی آباد کاری صرف کالا باغ ڈیم کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر خیبر پختونخوا کے کچھ لوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر کمربستہ ہیں تو یقینا وہ اپنے پانچ جنوبی اضلاع کو سرسبز دیکھنا نہیں چاہتے۔ آج سرائیکی صوبہ کیلئے نعرے بازی ہو رہی ہے۔ اگر
پنجاب کے نقشہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم بنا تو اس سے صرف سرائیکی علاقہ کو ہی فائدہ ہوگا۔ اس طرح کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے حقیقتاً سرائیکی علاقہ کے خلاف مصروفِ عمل ہیں۔ پھر اگر کالا باغ ڈیم بن چکا ہوتا تو اب تک سندھ کے کشمور، جیکب آباد، شکارپور، شہداد کوٹ، دادو، سیہون شریف، گھوٹکی، سکھر، خیرپور، نوابشاہ، سانگھڑ، میر پور خاص ، تھرپارکراورعمر کوٹ کے اضلاع کا نقشہ ہی بدل چکا ہوتا !! اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے سندھ کے بھی مخالف ہیں۔ کالا باغ ڈیم بنا تو بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال کی توسیع ہوگی جس سے نصیرآباد سے سبی تک کی بہترین چکنی مٹی کا علاقہ سیراب ہوگااور کوہلو، ڈیرہ بگٹی، نصیرآباد ، جعفرآباد اور خضدار تک کے علاقے مستفید ہوں گے۔ اس طرح گویا کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے بلوچستان کے بھی مخالف ہیں۔
میں ایک بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر کالا باغ ڈیم بنا اور ایک آدھ دوسرا بڑا ڈیم بھی بن گیا تو علاقائی سیاست کرکے نفرت پھیلانے والے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ کیونکہ یہ منصوبے پاکستان کے کسی ایک مخصوص صوبے کے لئے نہیں بلکہ تمام صوبوں کو خوشحالی بخش سکتے ہیں۔ ان کے تپتے ہوئے صحرا ہی آباد نہیں ہوں گے بلکہ دریائی علاقہ کو اپ لفٹ اریگیشن کے ذریعے مستقل طور پر سیراب کیا جا سکے گا۔ یہی نہیں سندھ میں سمندر کے نزدیک دھانداری کے مقام پر جھیل بنا کر نہ صرف جھینگے کی افزائش میں اضافہ ہوگا بلکہ سمندری پٹی پر کڑوے پانی کا دبائو بھی کم ہوگا جس سے ان ساحلی علاقوں میں زندگی کی لہر دوڑ جائے گی۔
اس سلسلہ میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی معاہدوں کی پاسداری کو یقینی بنائیں۔ آج دنیا میں ہر طرف آگ بھڑک رہی ہے۔ کشمیر،فلسطین ، شام ، عراق ، لیبیا، یوکرائن، افغانستان اور کتنے ہی ایشوز ایسے ہیں جن میں یونائیٹڈ نیشنز کی کارکردگی لیگ آف نیشنز سے ذرا مختلف نہیں۔ کیا یہ حالات دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ کی طرف نہیں لے جا رہے؟ کیا بھارت کے واٹر بینک اور واٹر بم کی باز گشت مغرب کے ایوانوں تک نہیں پہنچ رہی؟۔ دنیا چلاّ رہی ہے کہ آئندہ جنگیں پانی پر ہوںگی۔ بھارت پاکستانی پانیوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے پاکستان اسے کب تک برداشت کرے گا؟ کب تک؟ آخر یہ لاوہ پھٹے گا۔ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان ایسی جنگ ہوگی جس کی لپیٹ میں ساری دنیا آ جائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیاں تو معمولی بات ہیں پوری دنیا اس جنگ کا عبرت ناک مزا چکھے گی۔ اس ہولناک جنگ سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ۔ پانی کے معاہدہ پرانصاف کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے من و عن عمل درآمد کروایا جائے۔ Justice is only the way for Peace. ......(ختم)