تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-03-2015

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو

خدا کے بندو ، کچھ تو خدا کا خوف کرو ۔ کم از کم جنرل راحیل شریف ہی پیش قدمی کریں اور چھائونیوں میں الیکشن کرادیں۔ کہیں توآغازِ کار ہو ۔
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
نعمت اللہ خاں سے ملنے کا اشتیاق بہت تھا۔ وہ آدمی ، جس نے کراچی میں امید اور امکان کی ایک لہر اٹھا دی تھی۔ کوئی نیا ٹیکس عائد کیے بغیر ایک ڈیڑھ ارب کے ترقیاتی بجٹ کو تیس ارب تک پہنچا دیا تھا۔ اسلام آباد سے گاڑی چلی تو بمشکل دس پندرہ منٹ ہی ان سے بات ہو سکی ۔ بلند ہمّت بوڑھے کو نیند نے آلیا ۔ معلوم ہوا کہ صبح سویرے جاگ اٹھنے والا آدمی رات گئے تک مصروفِ عمل رہتاہے ۔ انکشافات حیران کن تھے ۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی سمیت کئی سرکاری اداروں کو انہوں نے ترقیاتی عمل میں شریک کر لیا تھا۔
شہر کی صورت بدلنے لگی ۔ اس کے چہرے پر نکھار آنے لگا۔ 2007ء کے موسمِ خزاں میں کراچی جانا ہوا تو عام شہریوں کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی ۔ ایک رکشہ ڈرائیور کا تبصرہ اب تک یاد ہے ''قائداعظمؒ کے بعد پاکستان کو پہلا مخلص لیڈر ملا ہے‘‘۔
ان سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو مطلع پر مصطفی کمال نمودار ہوئے ۔ اسی برق رفتاری سے ،مرکزی حکومت اور شہر پر غلبہ رکھنے والی ایم کیو ایم کی تائید سے انہوں نے ایک مہم اٹھا دی۔ زیادہ جواں سال ، زیادہ بلند ہمّت اور زیادہ سرگرم آدمی نے شہر کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ اب وہ کہاں ہے ؟
بلدیاتی الیکشن میں مجرمانہ تاخیر سپریم کورٹ میں زیرِ بحث ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اوّل یہ کہا : اگر دستور پر عمل درآمدنہ کرنے کا تہیہ ہے تو اسے کوڑے دان میں ڈال دیا جائے ۔کل انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر چھائونیوں میں الیکشن نہ کرائے گئے تو وزیرِ اعظم کو توہینِ عدالت کا نوٹس دیا جا سکتاہے ۔ عمران خاں اپنے صوبے میں شہری اداروں کی تعمیر پر آماد ہ ہیں ۔ قائم علی شاہ اورمیاں محمد شہباز شریف ٹال مٹول کا عزم رکھتے ہیں ۔ جی چاہا کہ جسٹس صاحب سے عرض کروں کہ آئین تو پہلے ہی کوڑے کے ڈھیر پر پڑا ہے ۔جمہوریت نہیں ، یہ چند افراد اور چند خاندانوں کی حکومت ہے ، Oligarchy۔
مریضانہ ذہنیت کی ایک عجیب اشرافیہ ہماری گردنوں پر سوار ہے ۔ اپنے لیے اسے جمہوریت درکار ہے کہ رسوخ برقرار رہے ۔ قانون کو پامال کرتی وہ بے کسوں کا لہوپیتی رہے ۔ کوئی نعمت اللہ خاں، کوئی مصطفیٰ کمال اسے گوارا نہیں ۔ ایسا عدم تحفظ ہماری اشرافیہ میں پایا جاتاہے کہ کوئی کونپل پھوٹتی ہے توڈر جاتی ہے ۔ جاگیردار ، مرکزی او رصوبائی حکومتیں اور افسر شاہی کیا، عسکری قیادت بھی۔ خدا کی پناہ ، 1998ء سے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات نہیں ہوئے ۔ جنرل پرویز مشرف گئے ، جنرل کیانی کا عہد تمام ہوا او رجنرل راحیل شریف کو زمام سنبھالے سولہ ماہ بیت گئے۔ فوجی افسر نچلے درمیانے طبقے سے آتے ہیں ۔ انہیں تو احساس ہونا چاہیے کہ ایک صحت مند جمہوری معاشرہ وہی ہوتاہے، عام آدمی جہاں کاروبارِ حکومت میں شریک ہو ۔
دس بارہ ہزار کا ایک حلقہ ہوتاہے ، بلدیاتی الیکشن کا۔عامیوں کو ابھرنے کا موقع مل جاتاہے۔ قومی اور صوبائی الیکشن تو اب کروڑوں کا کھیل ہو گیا۔ گذشتہ ایک صدی کا تجربہ یہ ہے کہ ابتدائی قیادت بلدیاتی اداروں سے پھوٹتی ہے ۔ ذمہ داریوں کابوجھ ڈالا جائے تو مزاجوں میں پختگی آتی ہے ۔ احتیاط ، توازن او رسلیقہ مندی۔
میاں محمد شہباز شریف انقلاب کا گیت بہت گاتے ہیں۔ کبھی تو حبیب جالب کے نغمے بھی الاپنے لگتے ہیں ۔ چھ برس بیت گئے ، بلدیاتی الیکشن وہ کیوں نہیں کراتے؟ پختون خوا کی حکومت سنبھالنے کے بعد کپتان نے کہا تھا کہ تین ماہ میں بلدیاتی ادارے وہ قائم کر دیں گے۔ محسوس یہ ہوتاہے کہ خان صاحب کا جنگ و جدل ہی میں دل لگتاہے ۔ کتنا بے شمار وقت ایجی ٹیشن میں ضائع کر دیا ۔ بالکل برعکس ، اپنے صوبے میں شہری ادارے استوار کر کے پنجاب پر دبائو بڑھا دیا ہوتا تو معرکہ وہ تمام کر چکے ہوتے ۔ سندھ میں بلدیاتی الیکشن کیوں نہیں ہو سکتے ؟ کراچی کو پابہ زنجیر رکھنا ہے کہ دیو قامت ہے ۔اس کی منتخب قیادت کے سامنے وزیرِ اعلیٰ دھندلا جاتاہے ۔ غوث علی شاہ‘ عبد الستار افغانی سے ہراساں ہوتے ، جو جوتوں کی ایک دکان پر سیلز مین تھے۔ نعمت اللہ خان کے مقابل ارباب رحیم بونے تھے ۔ چھٹی کا دن تھر پارکر میں گزارتے۔ ایک سو سے زیادہ کنویں انہوں نے کھدوائے ۔ مصطفیٰ کمال کی الطاف حسین تاب نہ لا سکے ؎
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟
جدید ترکی میں انقلاب کا آغاز بلدیاتی اداروں سے ہوا۔ اربکان کے حامیوں نے استنبول کو بدل ڈالا۔ شہر اجلا ہوگیا ۔ دفاتر میں ہمہ وقت موجود رہتے ۔ روزگار کے نئے مواقع انہوں نے پیدا کیے ۔ بتدریج فرسودہ سیاست کو انہوں نے دفن کر دیا۔ پاکستان کی طرح ترکی میں بھی آئے دن مارشل لا نافذ ہو اکرتا۔ اب وہ زمانہ عہدِ رفتہ کی بھولی ہوئی داستان ہے ۔ مصنوعی مغربی تہذیب کی بجائے قوم اپنی ثقافت کی طرف لوٹ رہی ہے۔ نمو کی رفتار دوسرے ملکوں کے مقابلے میں حیرت انگیز ہے ۔ اسرائیل اور امریکہ کے حامی جنرل پسپا ہو گئے اور اب سازش کی تاب نہیں رکھتے۔ ساری سیاست کا محور عوامی خدمت ہوا کرتاہے اور وہ مضبوط اخلاقی ساکھ کی محتاج ہوتی ہے ۔ خادمِ پنجاب ایک فلمی ہیرو کی طرح بروئے کار آنے کے آرزومند رہتے ہیں۔ پوری کہانی جس کے گرد گھوم رہی ہو ۔ چودھری پرویز الٰہی میں بے شمار خامیاں رہی ہوں گی لیکن ہر سال ڈیڑھ سو ارب روپے بلدیاتی اداروں کو سونپے جاتے ۔ اوّل اوّل اقتدار میں آئے توان اداروں کو شریکِ اقتدار کرنے کے تصور سے پریشان تھے ۔ ایک دن اپنے دفتر میں ، میں نے انہیں اداس پایا۔ بولے : یہ ایک الگ دردِ سر ہے ۔ مگر وہ زیادہ حقیقت پسند ثابت ہوئے ۔ ان کے عہد میں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا حال آج کے دور سے کہیں بہتر تھا۔میو ہسپتال کے سرجیکل وارڈ اور جنرل ہسپتال کے برن یونٹ کی اسّی فیصد تکمیل کے باوجود آج ان کے فنڈ روک لیے گئے ہیں کہ داد ان تک نہ پہنچ سکے۔ خدا کا نام مانو، یہ کون سا اندازِ سیاست ہے ؟
سندھ میں بلدیاتی الیکشن ہو چکے ہوتے تو کراچی زیادہ پر امن ہوتا ۔ شہری آبادی قدرے مطمئن ہوتی۔ ایم کیو ایم صوبائی حکومت کے لیے دردِ سر نہ بنی ہوتی ۔ جنوبی پنجاب میں بھی صورت حال بتدریج بہتر ہو گئی ہوتی ۔ جنوب کے ان اداروں کے ذریعے گذشتہ سات برس کے دوران کم از کم چار سو ارب ملے ہوتے کہ صوبوں کا حصہ بڑھ چکا۔ میاں شہباز شریف یہ سب کچھ اپنی جیب میں رکھنے پر کیوں مصر ہیں ؟
نون لیگ کی حکومت کو عدالت نے بہت مہلت دی ۔ وقت آپہنچا ہے کہ قانون نافذ ہو ۔ حکمران پارٹیاں ہی کیا، تمام سیاسی جماعتیں اس باب میں المناک بے حسی کی مرتکب ہیں ۔ تنخواہ دار سول سوسائٹی بھی کہ ڈالرسمندر پار سے آتے ہیں ۔ اپنے فروغ کی فکر سب کو ہے ۔ ملک کی پروا بھی کسی کو ہے یا نہیں ۔ بھار ت میں بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے ہو سکتے ہیں توپاکستان میں کیوں نہیں ؟بائیو میٹرک مشینوں پر بلدیاتی الیکشن کی مشق عام انتخابات میں دھاندلی کا خاتمہ کر سکتی ہے ۔ خدا کے بندو ، کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ کم از کم جنرل راحیل شریف ہی پیش قدمی کریں اور چھائونیوں میں الیکشن کرادیں ۔ کہیں تو آغازِ کار ہو ؎
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved