انگریزی کا مشہور فقرہ ہےIt's Not Cricket ۔ یہ محاورہ صرف کھیل ہی نہیں بلکہ عام زندگی میں بھی نامناسب رویہ اختیار کرنے والے کو کہا جاتا ہے ۔انیسویں بیسویں صدی کے انگریز کرکٹ کے ضابطوں اور اخلاقیات کو غیرمعمولی اہمیت دیتے تھے اوروہ اس کھیل کے دوران سیکھی گئی سپورٹس مین شپ کو عام زندگی میں بھی برتنے کے حامی تھے۔ اخلاقی ضابطوں پر عمل کرنا، اپنے مخالف کو بھی تکریم دینا، غیر شائستہ رویوں سے گریز، شکست کو قبول کرنا اور تعصب سے اٹھ کر کوئی رائے قائم کرنا یا اس کا اظہار کرنالازمی تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں کسی سے چوک ہوئی، وہ عامیانہ سطح پر آنے لگا، اسے یہ کہہ کر تنبیہ کی جاتی کہ یہ کرکٹ نہیں ہے۔
آج کل ورلڈ کپ کا ہنگامہ جسے ورلڈ کپ فیور یعنی بخار کہا جاتاہے، اپنے عروج پر ہے۔ ہر طرف کرکٹ کی باتیں، خبروں سے نیوز ٹاک شوز،حتیٰ کہ مارننگ شوز تک میں کرکٹ غالب ہے۔ ہر چینل اپنے وسائل اور بساط کے مطابق تجزیاتی پروگرام پیش کر رہا ہے۔سابق کرکٹرز کی تو بن آئی ہے۔ جسے دیکھو ،ماہر تبصرہ نگار بنا'' علم وفضل‘‘ کے موتی رول رہا ہے ۔ مزے کی بات ہے کہ جو تمام زندگی بائولر رہا ، اس نے پورے کیریئر میں ایک چھکا بھی نہیں مارا، وہ بیٹھا بلے بازوں کو رنز کرنے کے گر سکھا رہا ہے۔ وہ فاسٹ بائولر جواپنے دور میں بری طرح دھنائی کراتے اور ٹیم کواچھے بھلے جیتے میچ ہروا چکے ہیں، وہ آج پاکستانی بائولرز کو ڈانٹ ڈپٹ کر رہے ہیں کہ ایسے گیندیں نہیں کراتے۔ بندہ پوچھے، بھلے آدمی اتنی عقل سمجھ تھی تو جب کھیلتے تھے ، اس وقت ایسا کر دکھاتے۔ جوخود ڈسپلن کی خلاف ورزیوں پر بدنام تھے، آج کھلاڑیوں کو اخلاقیات پر درس دیتے ان کی زبان نہیں تھک رہی۔
خیر یہ سب بھی گوارا ہو جاتا ، آخر ہمارے اینکر حضرات بھی علم ودانش کی باتیں بگھارتے اور قوم کی بزعم خود تربیت فرماتے ہیں، خواہ انہوں نے خود برسوں سے کتاب کو ہاتھ ہی نہ لگایا ہو۔ ہمارے تو لیڈر بھی ایسے ہی ہیں۔ ایک بہت مشہور سیاستدان جو ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہے، ان سے کسی نے سوال پوچھا کہ آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ گھور کر انہوں نے دیکھا اور پھر اپنی مخصوص سرد مسکراہٹ کے بعد جواب دیا، میاں ہمارے اوپر کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ سوال کرنے والاہکا بکارہ گیا۔خیر بات سابق کھلاڑیوں اور سپورٹس تجزیہ کاروں کی ہورہی تھی، اپنے دور میں کچھ نہ کرنے والے جس طمطراق اور دبدبے کے ساتھ تبصرے کر رہے ہیں، اس پر ہمارے جیسے کرکٹ شائقین کو ہنسی آتی ہے۔ کرکٹ سے دلچسپی اور محبت کے باعث پچھلے بیس پچیس برسوں میں شائد ہی پاکستان کا کوئی میچ مس کیا ہو، اس لئے آج کے ان عظیم ایکسپرٹس کی ہر میچ کی کارکردگی ذہن میں تازہ ہے۔ 2003ء کے ورلڈ کپ میں ٹنڈولکر نے جس طرح شعیب اختر کی دھلائی کی تھی، وہ کون بھول سکتا ہے۔ دنیا کے تیز ترین فاسٹ بائولر بننے کے خبط میں سوار یہ ہمارا ''عظیم‘‘ بائولربھارت کے خلاف اہم ترین میچ میں بری طرح ناکام ہوا اور پاکستان کو ورلڈ کپ سے آئوٹ کرانے میں بھرپور حصہ ڈالا۔اس کے چار سال بعد ہونے والے ورلڈ کپ میں آئرلینڈ کے خلاف پاکستان کو بدترین ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ پاکستان کے اہم ترین مڈل آرڈر بلے باز محمد یوسف اس میچ میں بری طر ح ناکام ہوئے اور عام سے آئرش بائولرز کی سوئنگ ہوتی گیندوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔ وکٹ پر ٹھیرکر رنز کرنے کے بجائے انہوں نے نہایت غیرذمہ دارانہ شاٹ کھیلا اور منہ لٹکا کر واپس چلے آئے۔ ایسے بہت سی مثالیں اور واقعات ہیں، جو کرکٹ دیکھنے والے ہر ایک شخص کی یادداشت کا حصہ ہیں۔ اب جب وہی کھلاڑی مقدس سنگھاسن پر بیٹھ کر بھاشن دیتے ہیں تو ان کی باتیں جی کو نہیں لگتیں۔ محمد یوسف اپنے تعصبات، تلخی اور غصے پر قابو نہیں پاسکے۔ کرکٹ بورڈ، کوچ وقار یونس اورخاص طور پر مصباح الحق کے خلاف ان کی ناپسندیدگی نفرت کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ محمد یوسف دراصل یہ سمجھتے تھے کہ انہیں مزید کرکٹ کھلانا چاہیے تھی، وہ ابھی قومی ٹیم کا حصہ رہنا چاہتے تھے، مگر انہیں ڈراپ کر دیا گیا۔ ان کا شائد یہ خیال ہو کہ مصباح الحق بطور ٹیسٹ کپتان ان کے لئے فائیٹ کرتا تو شائد
انہیں موقعہ مل جاتا۔ محمد یوسف جدید پاکستانی کرکٹ کے چند اعلیٰ بلے بازوں میں سے ایک ہیں، مگر ان کی دو کمزوریوں نے انہیں جلد ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیا۔ وہ نہایت کمزور فیلڈر تھے ، دوسرا انہوں نے اپنی فٹنس پر کبھی توجہ نہیں دی۔ انجریز کے بعد ٹیم سے باہر ہوئے تو واپس آنے کے لئے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی زحمت ہی نہیں کی۔اپنی فارم وہ ثابت ہی نہ کرپائے، ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کے وہ اہل نہیں تھے، ون ڈے میں بھی ان کی جگہ بننا مشکل ہوگئی۔ اگر وہ عقلمندی کرتے تو صرف ٹیسٹ میچ تک محدود رہنے کا اعلان کر دیتے۔ دنیا بھر میں کرکٹرز ایسا کرتے ہیں۔محمد یوسف اپنی کمزوریوں اور کرکٹ کے بدلتے تقاضوں کا ادراک نہ کر پائے، مگر غصہ وہ مصباح الحق پر نکال رہے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ جب وہ نمبر چار اور پانچ پر کھیلتے تھے، اس وقت عمران خان اور کئی سابق کھلاڑیوں نے اعلانیہ انہیں نمبر تین پر کھیلنے کا مشورہ دیا، یوسف نے کبھی اس مشورے کو لفٹ نہیں کرائی۔ اب ان کا بس نہیں چلتا کہ مصباح الحق کو زبردستی گھسیٹ کر نمبر تین پر بھیج دیں، حالانکہ وہ جس نمبر پر کھیل رہے ہیں، وہاںوہ رنز کر رہے اور ٹیم کی بیٹنگ کو مستقل نوعیت کا سہارا دے رہے ہیں۔یوسف چلو نرم لہجے میں تو بات کرتے ہیں، شعیب اختر کا نہ صرف لہجہ غیر شائستہ ہوتا ہے بلکہ وہ انتہائی سخت لہجے میں کھلاڑیوں پر لعن طعن ہی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے سابق کھلاڑیوں اور تبصرہ نگاروں کو چاہیے کہ کچھ وقت نکال
کر بین الاقوامی چینلز پر بیٹھے تجزیہ کاروں کی گفتگو کا سٹائل ہی دیکھ لیں۔ویسے ہمارے ایک نجی سپورٹس چینل نے تو حد ہی کر دی ۔ان کے پروگرام میں ایک مرد اور خاتون اینکر کے ساتھ تبصرہ نگاروں کی فوج ظفر موج وہاں موجود رہتی ہے۔ ایک دو پروگرام دیکھے تو شدید حیرت ہوئی کہ تعصب اور مخالفت میں کوئی اس قدر پستی تک بھی جا سکتا ہے؟ان میں سے اکثر وہ تھے ،جو ماضی میں مصباح کے ناقد رہے ہیں۔ تنقید سے بالاتر کوئی نہیں، ہر ایک کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ تنقید برائے تنقید اور ذاتی مخاصمت کی بنا پر زہر اگلنے کا حق بہرحال کسی کو نہیں۔ پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ لائن آج کل مصباح ہی پر انحصار کر رہی ہے۔ ہرمیچ میں وہی ٹیم کو سہارا دیتے ہیں، ورنہ ڈیڑھ سو پر سب ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ گریم سمتھ جیسے کھلاڑی نے اپنے کالم میں جنوبی افریقہ کی ٹیم کو مشورہ دیا کہ مصباح کو ٹارگٹ بنائو، اسے آئوٹ کر لیا تو آدھی جنگ اسی وقت جیت لی ، مگر ادھر مصباح مخالف نقاد ہیں کہ ٹیم نے پہلے دو میچ ہارے تو سارا ملبہ مصباح پر ڈال دیا۔ زمبابوے کے خلاف وہ اگر نہ ٹھیرتا تو پاکستان فائٹنگ سکور ہی نہ کر پاتا، مگر اس پر بھی زہریلے تیر برسائے جار ہے ہیں۔ پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہوگا، جہاں اچھا کھیلنے والے کھلاڑی پر تنقید ہوتی اور صفر نتائج دینے والوں پر کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ آفریدی زیرو پر آئوٹ ہو تو یہ سب چپ سادھ لیتے ہیں، مصباح اگر وکٹ پر ٹھیر کر ٹیم کی عزت رکھنے کی کوشش کرے تو وہ قابل گردن زدنی قرار پائے۔اس سے زیادہ ناانصافی اور کیا ہوگی ؟کرکٹ کی اصطلاح میں ایسے مواقع ہی پر کہا جاتا ہے ، اٹ از ناٹ کرکٹ۔