1993ء میں مجھے امریکہ کی ریاست ایلی نوائے Illinois کے ایک قصبے لینا Leena میں دو راتیں بسر کرنے کا موقع ملا۔ یہ قصبہ شکاگو کے شمال میں ایک جھیل کے کنارے آباد ہے۔ پُرامن، پُرسکون‘ پُرکشش اور شہر و دیہات کا حسین امتزاج۔ اپنے میزبانوں کے ساتھ گھر سے باہر آتے جاتے مجھے احساس ہوا کہ وہ گھر کسی کمرے اور مین گیٹ کو تالا لگاتے ہیں نہ گاڑی کو اور نہ تین سو ایکڑ رقبے پر مشتمل اس قیمتی فارم ہائوس کے دروازے پر کوئی چوکیدار تعینات ہے۔ دو پیارے بچوں کے ماں باپ مارک اور للی نے مسافر کی خوب آئو بھگت اور خاطر مدارات کی اور اس بات کا بطور خاص خیال رکھا کہ رمضان المبارک میں ایک مسلمان مہمان کو غریب الوطنی کا احساس نہ ہو۔
میں نے مارک سے پوچھا کہ آپ گاڑی اور گھر کو لاک کیوں نہیں کرتے؟ دونوں میاں بیوی نے حیرت سے جوابی استفسار کیا ''اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ''چور نقصان بھی تو پہنچا سکتا ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔ للی نے بتایا کہ اس قصبے میں آخری چوری 1963ء میں ہوئی تھی مگر سائیکل چور تھوڑی دیر بعد پکڑا گیا تھا۔ تب سے اب تک کوئی واردات ہی نہیں ہوئی اس لیے لوگ بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں اور عموماً گھر کے ہر دروازے پر لاک لگوانے کی عیاشی نہیں کرتے، باہر کا دروازہ لاک کرنا کافی ہے‘ وہ بھی اس صورت میں کہ آپ طویل عرصہ کے لیے گھر سے باہر جا رہے ہوں۔
دونوں میاں بیوی نے یہ بھی بتایا کہ قصبہ کی اکثریت بائبلسٹ ہے۔ مسیحیت کے حقیقی عقیدہ پر کاربند اور ام الخبائث سمیت بہت سارے مکروہات سے بیزار، اس بنا پر مطمئن اور قانون پسند۔ ''ہم خدا کا قانون توڑنے کے بعد ہی ریاست کے قوانین توڑنے کی طرف مائل ہوتے ہیں جبکہ ہماری میونسپل پولیس اس قدر اہل، باصلاحیت اور مستعد ہے کہ وہ کسی کو ملکی قانون توڑنے کی اجازت دیتی ہے نہ خود اپنے فرائض میں کوتاہی برتتی ہے۔ چھوٹے بڑے‘ طاقتور اور کمزور میں تفریق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے انہیں امیر تیمور کی خود نوشت سوانح میں درج ایک واقعہ سنایا جو قصبہ بشرویہ کے بارے میں ہے۔ تیمور لکھتے ہیں ''جب میں خراسان میں داخل ہوا تو میرے سامنے تین مقاصد تھے (1) نیشاپور پر قبضہ (2) سبزوار پر حملہ اور (3) بشرویہ کی سیاحت۔ میں نے سن رکھا تھا کہ بشرویہ شہر کے تمام باشندے اہل علم ہیں اور دانشوروں کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ مجھے بشرویہ میں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں کوئی حاکم نہیں لوگ خود ہی حاکم اور اپنی اچھی روایات کے محکوم ہیں‘‘۔
تیمور مزید کہتے ہیں: ''ہم نے کپڑا سازی کی ایک کھڈی دیکھی جہاں مزدور کپڑا بننے میں مصروف تھے۔ میں نے کپڑا دیکھا، اتنا نفیس کپڑا میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چین کے ریشمی کپڑے سے زیادہ بہتر کپڑا بنتے دیکھ کر میں نے مزدوروں کو انعام دینا چاہا مگر کسی نے قبول نہ کیا اور کہا: آپ کا دیدار ہمارا انعام ہے۔ ہم جو اپنے ہاتھوں سے کماتے ہیں اسی میں گزارا کرتے ہیں۔ میں ان مزدوروں کی قناعت اور خودداری پر ششدر رہ گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں کبھی چوری نہیں ہوئی، کبھی قتل ہوا نہ بحث مباحثے میں آواز ضرورت سے زیادہ بلند ہوئی۔ میں نے ایک دکاندار کو دیکھا کہ وہ سودا تولتے وقت یہ آیت پڑھ رہا تھا ''بُرا ہو کم تولنے والوں کا یعنی ان لوگوں کا جو کوئی چیز خریدتے ہیں تو پورے وزن سے، مگر بیچتے ہیں تو چھوٹے پیمانے یا کم وزن سے بیچتے ہیں‘‘۔
بشرویہ سے رخصت ہوتے وقت تیمور نے حکم جاری کیا کہ جب تک میری سلطنت کا سلسلہ جاری ہے بشرویہ شہر سے خراج وصول نہیں کیا جائے گا۔ میرے بعد کوئی حکمران اس شہر پر حملہ نہیں کرے گا، یہ دارالامان سمجھا جائے گا۔ تیمور لکھتے ہیں کہ میں نے اس شہر کے شیخ حسین بن اسحاق کو اعلیٰ نسل کا گھوڑا پیش کیا لیکن اس قناعت پسند شخص نے معذرت کر لی اور کہا ہماری ضرورت کے لیے ہمارے اپنے مویشی کافی ہیں۔
گزشتہ روز ''جاتی امرا میں چوری‘‘ کے عنوان سے کالم چھپا تو قارئین کا ردعمل مجھے لینا اور بشرویہ لے گیا۔ کراچی سے ہمارے دوست اور سینئر صحافی نصیر سلیمی نے نواب امیر محمد خان آف کالا باغ کا واقعہ سنایا کہ وہ مغربی پاکستان کے گورنر تھے اور کرنل یوسف نامی ایک بیوروکریٹ کوئٹہ کے کمشنر۔ اخبار میں سنگل کالم خبر چھپی کہ ایک چور دیوار پھلانگ کر کمشنر ہائوس میں داخل ہوا مگر ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار کی فائرنگ سے فرار ہو گیا۔ گورنر نے کمشنر کی جواب طلبی کی۔ اسے اپنے منصب سے ہٹا دیا اور لکھا کہ آئندہ اسے فیلڈ ڈیوٹی نہ دی جائے کیونکہ اگر ایک کمشنر کی قیام گاہ یا دفتر کے اردگرد تین چار میل کے دائرے میں کوئی چور داخل ہوتا ہے‘ تو اس کا مطلب ہے اس کے دل میں قانون کا خوف ہے نہ وہ کمشنر سے مرعوب ہے۔ لہٰذا کمشنر اس منصب کے لیے نااہل، جبکہ پولیس اہلکار کو برطرف کر دیا کہ چور فائرنگ کے باوجود فرار کیسے ہو گیا۔
اب مگر کیا ہے؟ چور ہما شما تو درکنار، وزیر اعظم کے فش فارم میں گھستے ہیں، اطمینان سے بھاری ٹرانسفارمر اتار کر کسی گدھا گاڑی، کیری ڈبے وغیرہ پر ڈال کر لے جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ قانون اور پولیس کا ڈر نہ ریاست کے اعلیٰ عہدیدار کا رعب اور نہ خدا کا خوف۔ ایک قاری کا خیال ہے کہ اس چور کو تمغہ جرأت ملنا چاہیے جو دلیرانہ واردات کے بعد فرار ہو گیا۔ حالانکہ گزشتہ سال دہشت گردوں کی موجودگی اور آپریشن میں ہلاکت کے بعد اس حساس ترین علاقہ کی سکیورٹی سخت ہے اور گشت کے فول پروف نظام کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امن و امان، تعلیم اور صحت ہمارے حکمرانوں کی بنیادی ترجیح ہے نہ دیانتداری‘ خودداری‘ قناعت اور قانون پسندی عوام کا شیوہ۔ عوام کو یہ شعور بھی نہیں کہ جو ریاست عوام کی محنت اور غیر ملکی قرضوں سے حاصل کردہ قومی وسائل انفراسٹرکچر پہ برباد کر دے، جہازی سائز سڑکوں، عمارتوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز کی تعمیر اور لگژری گاڑیوں کی درآمد کے علاوہ نمود و نمائش اور تام جھام کو تعمیر و ترقی کا پیمانہ سمجھ لے وہ بالآخر اس صورت حال سے دوچار ہوتی ہے اور عام آدمی کی طرح حکمران اور طاقتور بھی اپنی جان بچاتے پھرتے ہیں۔ سرکاری قیام گاہیں اور دفاتر قلعوں میں تبدیل کرنے پڑتے ہیں اور قلعہ نما گھروں، بلٹ پروف گاڑیوں کے لیے بھی الگ حفاظتی دستے تعینات کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ لاہور میں 1988ء کے بعد سرکاری شعبے میں کوئی نیا ہسپتال بنا نہ سرکاری یونیورسٹی۔ تعلیم اور صحت کا شعبہ تاجروں اور سیٹھوں کے سپرد ہے مگر فلائی اوورز، انڈر پاسز اور میٹروبس پر کھربوں روپے لگ چکے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت بدامنی، لاقانونیت، بدامنی اور آپا دھاپی کی جو کیفیت نظر آتی ہے وہ ہماری اشرافیہ کی طویل بداعمالیوں، ضرب المثل نااہلی‘ مسرفانہ پالیسیوں اور ناقص طرز حکمرانی کا شاخسانہ ہے۔ غریب لٹتا رہا تو کسی نے توجہ نہیں دی‘ بلکہ چوروں، رہزنوں، ڈاکوئوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اب اشرافیہ کی باری ہے جو فی الحال تو ریاستی وسائل سے اپنا تحفظ کر رہے ہیں مگر تابہ کے؟ اگر موجودہ غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظام تبدیل نہ ہوا، ''بشرویہ‘‘ یا ''لینا‘‘ کی طرح عام آدمی کو پُرامن اور آسودہ زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم نہ کیا گیا تو کسی طاقتور، خوشحال اور بااختیار کو بھی پُرسکون اور مطمئن شب و روز گزارنے کی سہولت حاصل نہ ہو گی۔ خوف خدا؟ قاعدے قانون کا ڈر؟ اور ریاستی اداروں اور عہدوں کا رعب؟ کچھ نہ کچھ تو برقرار رہنا چاہیے تاکہ جنگل یا انسانی معاشرے میں تفریق کرنا ممکن ہو۔ یا صرف لوٹ مار، جوڑ توڑ، ظلم و زیادتی اور بے نیازی و بے شرمی کا کلچر ہی مسلسل فروغ پاتا رہے گا؟