تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-03-2015

سعودی عرب کے خلاف؟

قوموں کے تصادم میں زندگی رزم اور محاذ آرائی میں ہوتی ہے۔ تاریکیوں میں سازشوں کے جال بھی بنے جاتے ہیں۔ سرفراز وہی ہوتا ہے جو بیدار اور چوکس رہے۔ ہمیں کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ ہم برہمن کے پڑوسی ہیں۔ 
سعودی عرب کے خلاف جو مہم برپا ہے، کیا وہ ایک بے ساختہ قومی ردّعمل ہے یا دال میں کچھ کالا بھی؟
سعودیوں نے وضاحت کی کہ وزارتِ خارجہ کو مدرسوں کی فہرست مہیا کی جاتی ہے۔ اب گیند حکومتِ پاکستان کے کورٹ میں ہے۔ بدقسمتی سے قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت کم ہی محسوس کی جاتی ہے۔ ایک مثال گوادر کاشغر شاہراہ ہے۔ چین کی طرف سے واضح اعلان کے باوجود واویلا جاری ہے اور حکمران خاموش! 
چینی سفیر صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین سے ملنے گئے۔ انہوں نے پوچھا تو سفیر نے بتایا کہ منصوبے کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اوّل موجود سڑکوں سے بھی مدد لی جائے گی۔ پھر بڑے شہروں کو شاہراہ سے ملا دیا جائے گا۔ تیسرے مرحلے میں تیر کی طرح سیدھی اس تاریخ ساز راہگزر کی تکمیل ہو گی، جس پر لاگت کا تخمینہ گیارہ ارب ڈالر ہے۔ الزام ہے کہ پنجاب کو فیض یاب کرنے اور پختون خوا کو محروم کرنے کے لیے تغیر و تبدّل ہے۔ یہ بات کچھ قابلِ فہم نہیں۔ چینی اپنی جز رسی کے لیے مشہور ہیں۔ وہ شاہراہ کو طویل کرنا کیوں چاہیں گے؟ اپنے مغربی علاقوں کے لیے توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے وہ آرزومند ہیں۔ نئی شاہراہ سے چھ ہزار کلومیٹر فاصلے کی بچت ہو گی۔ ٹریفک کا ایک غیر معمولی سیلاب گامزن رہا کرے گا۔ سڑک اگر طویل ہو تو ہر گاڑی کو سینکڑوں کلومیٹر فاصلہ زیادہ طے کرنا پڑے گا۔ جنوب سے شمال تک زمین کے سینے پر کھدی ہوئی شہادت، پکار پکار کر اعلان کرتی رہے گی۔ شریف خاندان کیا یہ پسند کرے گا کہ اس کی سیاست ایک سڑک پہ دم توڑ دے؟
پریشان کن بات یہ ہے کہ سرکار منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ احسن اقبال نے بار بار تردید کی مگر ان کی سنتا کوئی نہیں۔ حد یہ ہے کہ چینی سفارت خانے کے اعلان کو مسترد کر دیا گیا۔ چینی حکومت اس قدر پریشان تھی کہ سفیرِ محترم عمران خان سے ملے اور شکایت کی۔ کپتان نے کہا کہ ان کا اندیشہ توانائی منصوبوں سے متعلق ہے۔ چین سے انہیں کوئی شکایت نہیں۔ سفیر نے کہا: یہ سرکاری چینی کمپنیاں ہیں، بیجنگ ان کا ضامن ہے۔ پاکستانی شراکت داروں کے بارے میں البتہ انہوں نے کچھ نہ کہا۔ کیا یہ موزوں نہ ہو گا کہ وزیرِ اعظم نہ صرف ایک مفصل بیان جاری کریں بلکہ جن اخبار نویسوں سے وہ ملنا پسند کرتے ہیں، ان سے ملیں اور منصوبے کا اور چھور بیان کر دیں۔ چینی حکومت کے لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے مگر پاکستان کے لیے بھی اس کے فوائد غیر معمولی ہیں۔ ایک اقتصادی انقلاب کی بنیاد وہ بن سکتی ہے۔ گاہے اندیشہ ہوتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کے مخالفین کی طرح، اس شاندار منصوبے سے جنہیں خدا واسطے کا بیر ہے، بعض لوگ پاک چین مراسم کو سبوتاژ کرنے میں سرگرم ہیں۔ 
اندیشے پالنے والے بعض معصوم لوگ بھی ان کے ہمنوا ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کو فقط وسطی پنجاب سے غرض ہے۔ اسے جنوبی پنجاب کی پرواہ ہے، پوٹھوہار اور نہ چھوٹے صوبوں کی۔ لاہور میں ایک اور موٹروے کی تعمیر کے لیے تو 27 ارب روپے مہیا ہیں‘ مگر راولپنڈی اسلام آباد کی رنگ روڈ کے لیے دو چار ارب بھی نہیں۔ تین برس ہوتے ہیں، جب جناب شہباز شریف بیجنگ گئے اور ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا، کسی کو معلوم نہیں۔ پٹرول کی زائد کھپت، گاڑیوں کی فرسودگی اور وقت کے زیاں سے کم از کم دس ملین ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔ شیخ رشید کبھی مدارالمہام تھے مگر اپنی ذاتِ گرامی کے سوا کسی چیز کی انہیں کبھی پرواہ ہی نہیں ہوتی۔ ذاتی مفاد جب درپیش ہو تو ان کا ضمیر آسمانی بجلی کی طرح تڑپتا ہے۔ رہے جڑواں شہروں میں نون لیگ کے لیڈر تو الا ماشاء اللہ بالشتیے ہیں۔ معلوم نہیں، چوہدری نثار کیوں فکرمند نہیں ہوتے؟ پنجاب حکومت کا مزاج بھی ایسا ہے کہ جب تک ایجی ٹیشن برپا نہ ہو، کسی معاملے کی سنگینی اسے محسوس نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس منصوبے کے وہ قائل ہیں، اس طرف نظر اٹھا کر بھی شہباز شریف نہیں دیکھتے۔ جی ایچ کیو بھی نہیں؛ حالانکہ راولپنڈی، اسلام آباد کے فروغ سے خود ان کا فروغ وابستہ ہے۔ 
میرا خیال ہے کہ سعودی عرب کے بارے میں ریاض پیرزادہ کے بیان کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ وہ اچھے آدمی ہیں، بعض اوقات مگر جذبات کے طوفان میں بہہ جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مراسم کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ کسی سیلاب اور کسی زلزلے پر سب سے پہلے سعودی حکمران متوجہ ہوتے ہیں۔ ایران بھی ایک دوست ملک ہے۔ اپنی ترجیحات طے کرنے کا اسے حق ہے۔ اس طرح کے قریبی مراسم اس کے ساتھ بہرحال نہیں۔ یوں بھی ایرانی شکوہ سنج بہت ہوتے ہیں۔ پاکستان کے برعکس، جہاں ایران کے حق میں آواز اٹھتی رہتی ہے اور اٹھنی چاہیے، ایرانی میڈیا پاکستان کے حق میں کبھی کوئی کلمۂ خیر نہیں کہتا۔ سعودی عرب ہمارے درد میں شریک رہتا ہے۔ 37 لاکھ پاکستانی وہاں برسرِ کار ہیں اور پانچ ارب ڈالر سالانہ وہ بھیجتے ہیں۔ سعودی شرکت اور اعانت کے بغیر پاکستانی معیشت نڈھال ہو سکتی ہے۔ یہی پہلو فکرمندی پیدا کرتا ہے۔ نام لینا مناسب نہیں، ایک آدھ حکمران ایسا آیا کہ جس نے سعودی پاک تعلقات کو گدلا کرنے کی کوشش کی۔ یہ صاحب وہاں گئے تو ملاقات کے ہنگام شاہ عبداللہ نے وفود کے لیے کرسیاں سوئمنگ پول کے دونوں اطراف بچھوائیں۔ پانچ منٹ کے بعد وہ خود اٹھ کر چلے گئے۔ تاریخ کا یہ عہد تمام ہوا اور انشاء اللہ کبھی لوٹ کر نہ آئے گا۔ عربوں کے ساتھ پاکستان کے مراسم ایک مقدس جہت بھی رکھتے ہیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو گالی بہت دی جاتی ہے مگر ان تعلقات میں زیادہ گہرائی انہی کے د ور میں آئی اور نواز شریف نے اس سے فیض پایا۔ سب جانتے ہیں کہ خدانخواستہ اگر حجازِ مقدس کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستانی فوج ہی ہو گی جو اس کا دفاع کرے گی اور دل و جان سے۔ اس سے زیادہ والہانہ جذبے کے ساتھ، جس سے پاکستان کی وہ حفاظت کرتی ہے۔ حرم پاک اور روضہء رسولؐ سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور زندگی ایمان سے زیادہ قیمت نہیں رکھتی۔ 
سعودی سفارت خانے کی اس وضاحت کے بعد کہ حکومتِ پاکستان کی مرضی اور اجازت سے وہ مدارس کی امداد کرتی ہے، ذمہ داری اب اسلام آباد کی ہے۔ اگر کچھ ادارے مشکوک ہیں اور عربوں کو فریب دینے میں وہ کامیاب رہے تو ان کی نشاندہی کرنا ہمارا فرض ہے۔ جو مدارس دہشت گردوں کے مددگار ہیں، وہ دو گنا بڑے مجرم ہیں۔ عام مجرموں سے زیادہ سخت سلوک کے مستحق مگر یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ان کی دشمنی میں اندھے ہیں۔ این جی اوز، جنہیں مغرب نے پالا ہے اور گاہے جو بھارت کے نقطۂ نظر سے پاکستان کو دیکھتی ہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈے میں کہیں دشمن ممالک تو ملوّث نہیں؟ ایک اہتمام سے یہ مہم چلائی جا رہی ہے؛ چنانچہ شکوک پیدا کرتی ہے۔ 
قوموں کے تصادم میں زندگی رزم اور محاذ آرائی میں ہوتی ہے۔ تاریکیوں میں سازشوں کے جال بھی بنے جاتے ہیں۔ سرفراز وہی ہوتا ہے، جو بیدار اور چوکس رہے۔ ہمیں کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ ہم برہمن کے پڑوسی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved