تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-03-2015

اسد کا شہ بالا… (1)

میری اپنے والد صاحب سے دوستی کب ہوئی؟ یہ کچھ یاد نہیں۔ یہ دوستی ایکدم تو ہوئی نہیں تھی کہ تاریخ‘ دن اور سن یاد رکھا جاتا۔ ایسی اچانک دوستیوں میں ایسا ہوتا ہے اور یادوں کا دریچہ وا کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ فلاں سے میری پہلی ملاقات فلاں جگہ پر فلاں تاریخ کو ہوئی۔ پہلی ملاقات ہی دوستی میں بدل گئی یا پہلی بار ہمارے درمیان بڑا زوردار جھگڑا ہوا اور پھر ہم دوست بن گئے۔ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ 
والد صاحب جنہیں ہم بہن بھائی ابا جی کہتے تھے بالکل اسی قسم کے والد صاحب تھے جیسے کہ گزشتہ جنریشن والے والد ہوتے تھے۔ ڈکٹیٹر‘ سخت طبیعت‘ ہمہ وقت ناراض اور خوف کی علامت۔ ہمیں ان سے بے پناہ ڈر لگتا تھا۔ اس ڈر میں والدہ مرحومہ کا بڑا ہاتھ تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی یہ جملہ سنا کہ ''میں تمہارے ابا جی کو بتا دوں گی‘‘۔ انہوں نے بتانا کیا تھا؟ الٹا ہماری غلطیوں‘ شرارتوں اور کوتاہیوں کو والد صاحب سے پوشیدہ رکھنے کی کوششوں میں بے شمار مرتبہ والد صاحب کی خفگی کا سامنا کیا۔ مگر اس ایک جملے نے دل میں ایسا خوف بٹھایا جو عشروں تک‘ بلکہ اب تک دل کے کسی کونے میں چھپا بیٹھا رہا۔ 
ریڈیو سننا تب بہت بڑی عیاشی تھی۔ ہمارے پاس ''پائی‘‘ کا ریڈیو ہوتا تھا۔ یہ ریڈیو گھر کے بڑے کمرے میں‘ جسے ہم ہال کمرہ کہتے تھے‘ کے سوئچ بورڈ کے نیچے رکھے ہوئے فولڈنگ گول میز پر پڑا ہوتا تھا۔ یہ ریڈیو صرف خبریں سننے کے لیے تھا۔ بھائی جان طارق مرحوم اس پر ریڈیو سیلون اور میں محفل غزل چھپ کر سنتا تھا۔ تب یہ دونوں علی الترتیب بڑا اور چھوٹا جرم تھا۔ سہ پہر سوا چار بجے ریڈیو پاکستان ملتان سے محفل غزل نشر ہوتی۔ غلام علی‘ استاد امانت علی خان‘ مہدی حسن اور ملتان کے مرحوم فنکار سلیم گردیزی کی غزلیں نہایت ہلکی آواز میں لگائی جاتیں۔ بس اتنی آواز کہ ساتھ بیٹھے ہوئے سامع کو ہی سنائی دے۔ بیٹھتے ہوئے پوزیشن کا خاص خیال رکھا جاتا۔ اپنا رخ صحن میں کھلنے والی جالی لگی کھڑکی کی طرف رکھتے۔ جونہی والد صاحب آتے نظر آتے ہم ریڈیو کو فٹافٹ بند کرتے اور یا تو کتاب کھول لیتے یا پھر ساتھ والے دروازے سے کھسک جاتے۔ آج سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ بچے گاڑی میں ساتھ بیٹھتے ہیں تو AUX کیبل سے اپنے موبائل فون کو گاڑی کے آڈیو سسٹم سے منسلک کر لیتے ہیں۔ اپنی مرضی کے گانے سنتے ہیں۔ سفر لمبا ہو تو یو ایس بی میں گانے لوڈ کر کے یا اپنی مرضی کی سی ڈی لگا کر سارا راستہ اپنی مرضی کرتے ہیں۔ انہیں ایک بار بتایا کہ ہم غزل اپنے والد صاحب سے چھپ کر اور بچ کر سنا کرتے تھے۔ اسد نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ کیوں؟ دادا کو غزل اچھی نہیں لگتی تھی؟ 
اسد گھر میں سب سے چھوٹا بچہ تھا اور اس بنا پر خصوصی شفقت کا حقدار ٹھہرا تھا۔ دادا اور پوتے میں ہلکا پھلکا مذاق بھی چلتا تھا۔ ابا جی اسد سے ہنس کر کہتے تھے کہ اگر اللہ نے میری زندگی رکھی تو میں تمہاری شادی پر تمہارا شہ بالا بنوں گا۔ میں کبھی کبھی مذاق میں اسد کو کہتا کہ آئو چل کر تمہارے شہ بالے کو مل کر آتے ہیں۔ اسد کو بھی دادا سے اسی قدر محبت تھی۔ کل رات مجھ سے پوچھنے لگا بابا جان! دادا نے آپ کو کبھی ڈانٹا بھی تھا؟ میری ہنسی نکل گئی۔ میں نے کہا برخوردار! ہمیں صرف ڈانٹ پڑا کرتی تھی۔ آپ خوش قسمت ہو کہ اس دور میں آئے ہو جب دادا اپنا سارا جلال ہم پر تقریباً ختم کر چکے ہیں اور ایک عرصے سے اپنے اندر چھپا کر رکھی گئی محبت کا اظہار کرنے کے لیے آپ لوگوں کو منتخب کر لیا ہے۔ اصل زر سے سود عزیز ہونے والی بات آپ لوگوں پر صادق آتی ہے۔ تمہاری دونوں بڑی بہنوں نے مجھے دادا سے ڈانٹ کھاتے خود دیکھا ہے۔ تمہاری والدہ نے مجھے دادا سے جوتا کھاتے دیکھا تھا۔ اسد نے بڑی بے اعتباری سے مجھے دیکھا اور پوچھنے لگا کہ آپ اتنے بڑے ہو گئے تھے تب بھی؟ میں نے ہنس کر کہا کہ آپ میرے لیے کبھی بھی بڑے نہیں ہو سکتے۔ ہمیشہ چھوٹے رہو گے۔ اسی طرح میں بھی اپنے والد کے آگے ہمیشہ چھوٹا رہوں گا۔ اسد کہنے لگا آپ وہ جوتے والا واقعہ سنائیں۔ 
اسد کو میرے بچپن‘ لڑکپن اور جوانی کی باتیں سننے سے بڑی دلچسپی ہے اور میں ان واقعات کو حسب ضرورت اوپر نیچے کر کے اسے سنا دیتا ہوں۔ اوپر نیچے سے مراد یہ ہے کہ جیسے چیچن اپنے بچوں کو جنگ کے واقعات سناتے ہوئے مصائب و آلام والا حصہ گول کر جاتے ہیں کہ بچے کے دل میں لڑائی کا خوف پیدا نہ ہو جائے‘ میں الٹ کرتا ہوں۔ اپنی جوانی میں لڑائی جھگڑے اور دنگے فساد کا (جو غالب تعداد میں تھے) ذکر گول کر جاتا ہوں کہ کہیں اس سے اس کے دل میں ایسی چیزوں کے بارے میں مثبت خیالات نہ پیدا ہو جائیں۔ ہمارے زمانے میں لڑائی جھگڑے ڈنڈے سوٹے سے چلتے تھے اور ایک آدھ درجہ آگے جا کر ختم ہو جاتے تھے۔ اب جھگڑے کی ابتدا کلاشنکوف سے ہوتی ہے۔ زمانہ اس دوران بہت تبدیل ہو گیا ہے اور اسی حساب سے ہمارے تحفظات کہیں بڑھ گئے ہیں۔ 
میں نے اسد کو بتایا کہ بات کوئی خاص نہیں تھی۔ محض مذہبی بحث ہو رہی تھی اور میں والد صاحب کے مؤقف تے متفق نہیں تھا۔ صبح کا وقت تھا۔ والد صاحب حسب معمول صحن کی دیوار کے ساتھ سائے میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ میں کمرے کے ساتھ نیچے فرش پر لکڑی کی ''چوکی‘‘ پر بیٹھا اپنا ناشتہ کر رہا تھا۔ دوسری چارپائی پر تمہاری بڑی بہن لیٹی ہوئی فیڈر پی رہی تھی۔ تمہارے تایا مرحوم اپنے بچوں سمیت آئے ہوئے تھے۔ دادی اماں باورچی خانے میں پراٹھے بنا رہی تھیں۔ تمہاری ماں اللہ بخشے باورچی خانے سے صحن میں بیٹھے ہوئے ہم لوگوں کے لیے کھانے کی سپلائی لائن چلا رہی تھی۔ بحث کے دوران اچانک دادا کو جلال آ گیا اور وہ کہنے لگے کہ ''تم (میری طرف اشارہ کر کے) آدھے خارجی ہو‘‘۔ یہ کہہ کر نوالہ پلیٹ میں رکھا چارپائی سے جھک کر اپنی چپل اٹھائی اور گھما کر میری طرف پھینکی۔ یہ کہہ کر میں خاموش ہو گیا۔ ''پھر کیا ہوا؟‘‘ اسد نے بڑے تجسس سے پوچھا۔ ''پھر کیا ہونا تھا؟ میں نے چپل کیچ کر لی اور واپس جا کر والد صاحب کی چارپائی کے ساتھ رکھی ہوئی دوسری چپل کے برابر سیٹ کر کے رکھ دی‘‘۔ ''آپ ناراض نہیں ہوئے؟‘‘ اسد نے اگلا سوال کردیا۔ ''ناراض! لو بھلا اس میں ناراض ہونے کی کیا بات تھی؟ میں نے چور آنکھوں سے تمہارے تایا کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ کیچ کیسا تھا؟ بھائی طارق مسکرانے لگ گئے اور میری ہنسی نکل گئی۔ میرے ہنسنے پر ابا جان کو شدید غصہ آ گیا۔ 
انہوں نے مجھے قریب بلایا مگر میں مزید دور ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پھر وہاں سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ ابا جان نے غصے میں میری پھوپھو موصوفہ کو مخاطب کیا اور کہنے لگے۔ آپا! اس بے حیا کی حالت دیکھو۔ میں ڈانٹ ڈپٹ کر رہا ہوں اور یہ بے حیا آگے سے ہنس رہا ہے۔ بجائے یہ کہ شرمندہ ہو کہ باپ نے جوتا مارا ہے آگے سے دانت نکال رہا ہے۔ اور ادھر دیکھو۔ یہ کہہ کر بڑے بھائی کی طرف اشارہ کیا۔ ابھی پچھلے سال مجھ سے مار کھا کر بیٹھا ہے اور آج بھائی کے ساتھ مل کر یہ بھی دانت نکال رہا ہے۔ بھائی جان ہنس کر کہنے لگے میں نے پچھلے سال کون سا برا منایا تھا؟ ابا جان کہنے لگے تب تو رونے لگ گئے تھے۔ بھائی ہنس کر کہنے لگا۔ ابا جان! وہ تو میری گود میں بیٹھی ہوئی بڑی بیٹی رونے لگ گئی تھی میں کب رویا تھا؟ ابا جان نے توجہ دوبارہ میری طرف کی اور پوچھنے لگے تمہیں ہنسی کس بات پر آ رہی ہے؟ میں نے کہا سچ بتائوں کہ جھوٹ؟ ایک دم نرم پڑ کر کہنے لگے‘ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ میں نے تمہیں اتنے سال کیا تربیت دی ہے؟ میں نے کہا۔ ابا جی! میرا یقین ہے جس طرح ہر شخص کی زندگی کے دن‘ رزق روزی اور اولاد وغیرہ اس کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے اسی طرح اس کو پڑنے والی گالیاں اور جوتے بھی لکھ دیئے گئے ہیں۔ اب بھلے وہ اپنا یہ کوٹہ گلی محلے میں‘ سڑک بازار میں پورا کرے یا گھر میں عزت سے اپنے باپ کے ہاتھوں پورا کرے۔ اس نے یہ کوٹہ پورا تو کرنا ہے۔ میں اپنی خوش بختی پر ہنس رہا ہوں کہ میں یہ طے شدہ کوٹہ آپ کے ہاتھوں پورا کر رہا ہوں کہیں گلی میں‘ کسی چوک پر‘ کسی بازار میں یا کسی مجمعے سے سن کر پورا نہیں کر رہا۔ والد صاحب مسکرائے تو نہیں مگر کہنے لگے۔ اچھا اب مجھے بھی ناشتہ کرنے دو اور اپنا ناشتہ بھی خاموشی سے کرو۔ یہ عام معافی کا اعلان تھا‘‘۔ 
اسد کہنے لگا۔ ''بابا جان! دادا کی کوئی اور بات سنائیں‘‘۔ (جاری) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved