خوشبیر سنگھ شادؔ بھارت سے آئے ہوئے تھے‘ میری چوٹ کا پتا چلا تو ملنے چلے آئے۔ ان کے ہمراہ رحمان فارس‘ حسن عباسی اور ایک غیرمعروف اور بے حد معمولی بھارتی شاعر بھی تھاان سب نے اپنے کلام سے بھی مستفید کیا۔ ''ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے‘‘ اور ''بات اندر کے موسم کی‘‘ نام کے اپنے دو شعری مجموعے تبصرے کے لیے عنایت کیے۔ میں نے ان سے کہا کہ جب میں کسی شاعر یا کتاب کے بارے میں لکھتا ہوں تو دوست ہوتا ہوں نہ دشمن۔ جواب دیا کہ یہ بات میں اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ اول الذکر کتاب 10 سال پہلے کی چھپی ہوئی ہے جبکہ دوسری کتاب اسی سال۔ پہلی کتاب کا دیباچہ محمود شام کا تحریر کردہ ہے۔
محمود شام شعر بھی کہتے ہیں اور چند مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں؛ تاہم ان کی اصل شناخت اور شہرت ایک صحافی اور وقائع نگار کی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ تیس پینتیس برس پہلے نیشنل سنٹر لاہور میں ان کی کتاب کی رسم پذیرائی منعقد ہوئی جس کی صدارت حنیف رامے نے کی تھی۔ رامے صاحب کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں منیر نیازی‘ ناصر کاظمی اور ظفر اقبال تو موجود ہیں لیکن محمود شام کہیں نظر نہیں آتا۔ پچھلے برس ان سے کراچی میں ملاقات ہوئی جہاں وہ فاطمہ حسن کے ہاں اپنی بیگم کے ہمراہ تشریف لائے تھے اور ایک رسالے کے سلسلے میں مشاورت کرنا چاہتے تھے جو وہ نکالنے والے تھے۔
''بات اندر کے موسم کی‘‘ چونکہ ان کا تازہ ترین مجموعہ تھا اس لیے پہلے اس کی ورق گردانی شروع کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ موصوف کوشش تو کرتے ہیں لیکن ان کا شعر Click نہیں کرتا۔ بیشک یہ روایتی اور گئی گزری شاعری نہیں ہے اور مضامین کو نیا کرنے کی ایک کوشش بھی نظر آتی ہے لیکن مشکل یہی ہے کہ ان سے شعر بنتا نہیں ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ گزارے موافق شاعری ہے۔ آپ بھارت میں مشاعروں کے خاصے مقبول شاعر ہیں لیکن وہاں‘ بلکہ ہمارے ہاں بھی‘ مشاعروں میں جس طرح کی شاعری بالعموم پیش کی جاتی ہے‘ اس سے کون واقف نہیں۔ ان سے پرانی یاد اللہ ہے کہ شاید امارات کے ایک مشاعرے میں ان سے ملاقات ہو چکی تھی۔
خود کو میرا زبردست فین بتاتے تھے اور بھارت کے شاعر فرحت احساسؔ کی شاعری کی بھی تعریف کر رہے تھے جو بالکل بجا تھی لیکن انہوں نے اتنی زحمت کبھی نہیں اٹھائی کہ خود کو بھی فرحت احساسؔ کے مقابلے میں رکھ کر دیکھیں کہ دونوں کی شاعری میں فرق کیا ہے یا وہ کس لحاظ سے ان سے مختلف اور کتنا مختلف ہے‘ حق تو یہ ہے کہ کتاب اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے اور قاری کو ساتھ لے کر چلتی ہے‘ لیکن میں اس کے پچاس صفحوں سے زیادہ آگے نہیں جا سکا۔ یہ بات خاصی حد تک درست ہے کہ ہر شاعر اسی طرح کی شاعری پسند کرتا ہے جس طرح کی شاعری وہ خود کرتا ہے؛ تاہم شاعری کا ایک بنا بنایا‘ طے شدہ اور مسلمہ معیار بھی ہے جس کے مطابق اسے پرکھا جاتا ہے؛ چنانچہ شاعری کو مشقت کے طور پر نہیں پڑھا جا سکتا اور مجھ سے اس طرح کی مشقت ہوتی بھی نہیں۔
حق تو یہ ہے کہ شعر بنا بنایا دستیاب نہیں ہوتا بلکہ اسے شعر بنانا پڑتا ہے ورنہ وہ ایک طرح کی موزوں گوئی اور قافیہ پیمائی ہو کر ہی رہ جاتا ہے۔ شادؔ صاحب ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور شاعری کے اسرار و رموز کو بھی سمجھتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کیمیا سازی کی طرح بنتے بنتے شعر میں کوئی کسر رہ جاتی ہے۔ میں اس بات کی زیادہ وضاحت نہیں کر سکتا لیکن اتنا ضرور سمجھتا ہوں کہ شعر قاری کے ساتھ کچھ تو کرے‘ اس کے منہ سے واہ وا بے شک نہ نکلوائے لیکن اسے اپنی تاثیر اور تازگی سے تھوڑا بہت لطف سے ہمکنار تو کرے ۔گھسے پٹے بڑے مضامین باندھنا شاعری کے لیے ضروری اور کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنے گردوپیش بکھرے ہوئے چھوٹے موضوعات اور معاملات پر توجہ دینا ضروری ہے۔ چھوٹے بڑے اور اچھے یا بُرے شاعر کی بحث فضول ہے جبکہ اس ضمن میں محبوب خزاں کیا پتے کی بات کہہ گئے ہیں کہ ؎
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
چنانچہ کسی شاعر کی ایک غزل پڑھ کر ہی انداز ہ ہوجاتا ہے کہ وہ شاعر ہے یا نہیں ۔چنانچہ اس کے باوجود کہ یہ بے عیب اور نک سُک سے پاک شاعری ہے اور شاعر نے زمینیں بھی نئی نئی نکالی ہیں لیکن پیرایۂ اظہار ایسا نہیں ہے کہ شعر اپنا کوئی جواز پیش کر سکے؛ تاہم دوسرا مجموعہ پہلے سے کافی بہتر ہے۔ یہ دونوں کتابیں یعنی پہلی سمن پرکاش بھددریا کامپلیکس‘ رام نگر‘ عالم باغ لکھنؤ اور دوسری عرشیہ پبلی کیشنز دہلی نے شائع کی ہیں اور دونوں کی قیمت دو دو سو روپے ہے۔ آپ یہاں ڈاکٹر صغریٰ صدف کی دعوت پر پلاک کے ایک پنجابی مشاعرے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اٹھتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد بھی جانا ہے جہاں کشور ناہید نے بلا رکھا ہے۔ کشور ناہید وہ ہستی ہے جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی اور کسی اور کی شاعری اسے مشکل ہی سے پسند آتی ہے بلکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ ظفر اقبال یونہی ایسے ویسے شاعروں کی مشہوری کرتا رہتا ہے۔ اب وہ خود خوشبیر سنگھ شادؔ کی مشہوری کرنے والی تھیں! شعر و ادب میں رعایتی نمبر نہیں ہوتے اور جو لوگ یہ نمبر دیتے ہیں وہ خود بھی رعایتی نمبروں کے محتاج ہوتے ہیں۔سیدھی سی بات ہے کہ اگر یہاں سے بھارتی خوشبیر سنگھ شادوں کو دعوت نامے نہیں جائیں گے تو وہاں سے ہمارے خوشبیر سنگھ شادوں کے لیے دعوت نامے کیسے آسکتے ہیں۔ یعنی‘ ع
کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
دونوں کتابوں کا گیٹ اپ عمدہ ہے اور حسبِ معمول دونوں کے پسِ سرورق شاعر کی تصویر بھی موجود ہے۔ ان کے تازہ ترین مجموعے میں سے ایک غزل پیش ہے جو مجھے کافی بہتر لگی:
یہ تم ہر بات لفظوں کی زبانی کیوں سمجھتے ہو
سکوتِ لب کو آخر بے معانی کیوں سمجھتے ہو
یہ ممکن ہے یہیں تک ہو تمہاری تابِ بینائی
نظر کی حد کو آخر بے کرانی کیوں سمجھتے ہو
اگر سچ ہے تمہاری موت کا اک دن معیّن ہے
تو پھر اس طے شدہ کو ناگہانی کیوں سمجھتے ہو
یقیں رکھو‘ سمندر کی سخاوت پر یقیں رکھو
ہمیشہ خالی ہاتھ آئے گا پانی کیوں سمجھتے ہو
یہ ممکن ہے تمہارا عکس ہی برہم ہو چہرے سے
اسے تم آئینے کی سرگرانی کیوں سمجھتے ہو
مرے اشعار میں جو درد کی شدت ہے‘ میری ہے
مرے احساس کو اپنی کہانی کیوں سمجھتے ہو
یہاں ظاہر کا چہرہ مختلف ہوتا ہے باطن سے
کھلی رنگت کو دل کی شادمانی کیوں سمجھتے ہو
آج کا مقطع
راہ میں راکھ ہو گئیں دھوپ کی پتیاں‘ ظفر
آنکھ بکھر بکھر گئی‘ اپنی ہی آب و تاب سے