پشاور جب بھی جانا ہوتا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے ایک دروازہ ہے جو مغرب کی طرف کھلا ہوا ہے اور شمال کی طرف۔ کیسی ہوائیں در آتی ہیں اور کیا منظر ہیں جو اس دروازے سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
پشاور بکھری ہوئی تاریخ کو ایک نقطے پر مرتکز کرتا ہے۔ پھیلی ہوئی صدیوں کو ایک لمحے میں سمیٹتا ہے۔ برصغیر کو... پورے برصغیر کو شیشے کے ایک ٹکڑے میں منعکس کر کے دیکھتا ہے اور دکھاتا ہے۔ دکھاتا ہے بشرطیکہ دیکھنے والوں کو شعور ہو کہ پشاور فقط ایک شہر نہیں! طویل تاریخ کا نقطۂ ارتکاز ہے۔ زمانوں کا سکڑتا ہوا لمحہ ہے۔ پشاور شہر ہے لیکن شہروں میں ممتاز شہر!
ہم جہاں سے بھی آئے‘ پشاور سے گزر کر آئے۔ ہم شہرِ سبز سے آئے‘ خوارزم اوررے سے آئے‘ ترمذ اور سمرقند سے آئے‘ بلخ اور ہرات سے آئے‘ نیشاپور اور اصفہان سے آئے‘ تبریز اور شیراز سے آئے‘ ہم جہاں سے بھی آئے‘ پشاور ہی وہ دروازہ تھا جس سے ہم گزرے۔ پشاور ہم پر کھلا اور ہم اندر داخل ہوئے۔ پشاور کھلا رہا‘ بند نہ ہوا‘ یہ اور بات ہم واپس نہ جا سکے۔
ہم پھیل گئے۔ دو آبے میں‘ گنگا اور جمنا کے میدانوں میں۔ چتوڑ اور مالوہ میں بس گئے۔ بختیار خلجی نے اٹھارہ شہسواروں کے ہمراہ بنگال کو فتح کر لیا۔ خلجیوں کی فوج جنوبی ہند کے جزیرہ نما میں تامل بولنے والوں کے ہاں جا پہنچی۔ شیرشاہ سوری سہسرام میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان واپس نہ گیا۔ فیروز تغلق نے جونپوربسایا اور ترکستان نہ گیا۔ بیدل نے عظیم آباد کو مسکن بنا لیا۔ بابر آگرہ میں کابل سے آیا ہوا خربوزہ کاٹتے ہوئے رو پڑا مگر واپس چار کندھوں پر سوار فقط تدفین کے لیے گیا۔ سلجوقی ترکوں کا چشم و چراغ اسد اللہ خان غالب پیشۂ آباء پر فخر کرتا دہلی میں دفن ہو گیا۔ آج بنگال سے لے کر کراچی تک اور میسور سے لے کر ہمالیہ کی ترائیوں تک پھیلے ہوئے مسلمانوں کا اگر کوئی ایک سمبل ہے تو وہ پشاور ہے ،اس لیے کہ وہ سب پشاور ہی سے ہو کر گئے اور آج بھی پشاور ہی صرف وہ استعارہ ہے جو وسط ایشیا کے جہان ہم پر کھولتا ہے۔ پشاور ہی وہ کنایہ ہے جو افغانستان کے کوہساروں اور ایران کے مرغزاروں کی یاد دلاتا ہے۔ صرف پشاور میں ان ہوائوں کی لہر محسوس ہوتی ہے جس کے دوش پر بدخشاں اور ہرات کی خوشبو عطر بیز ہوتی ہے۔ قصہ خوانی بازار سے مسجد مہابت خان تک‘ چند قدموں کا فاصلہ ہے مگر قدموں سے صدیاں لپٹ لپٹ جاتی ہیں!
آج پشاور کے دریچوں سے ہم اپنے چھوڑے ہوئے جہان دیکھتے ہیں۔ اب پشاور ہی ہمارا بدخشان ہے‘ پشاور ہی ہمارا رے ہے اور پشاور ہی ہمارا سمرقند ہے اور پشاور ہی ہمارا اصفہان نصف جہان ہے۔ پھر پشاور یہ سب کچھ ہوتے ہوئے پشاور بھی ہے۔ اس کی اپنی فضا ہے۔ اس کی اپنی خوشبوئیں ہیں۔ بازاروں اور کوچوں میں اس کی اپنی انفرادیت ہے۔ اس کے رہنے والوں میں مہمان نوازی ہے‘ دلبری ہے‘ اس کے باشندے محبت کے پیکر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مہمان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ان کی پیشانیاں کشادہ اور دل وسیع ہیں۔ یہ اوپر سے سخت بھی دکھائی دیں تو اندر سے نرم ہیں۔ ان کی دشمنیاں کھلی اور ان کی دوستیاں موت سے بے نیاز ہیں۔ وہ انسان ہیں۔ انسان خامیوں سے خالی نہیں ہوتا مگر ایک خامی ایسی ہے جس سے وہ پاک ہیں اور وہ خا می نفاق ہے۔
عزیز اعجاز کے نئے شعری مجموعے کی تقریبِ عروسی تھی جس کے لیے پشاور کے احباّ نے آواز دی اور حاضری کا شرف ملا۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎
کوئی رومی کوئی غالب کوئی اقبال پیدا کر
کہ شہروں کی بڑائی ان کے میناروں میں ہوتی ہے
ایک وقت تھا کہ فارغ بخاری‘ رضا ہمدانی‘ خاطر غزنوی‘ محسن احسان‘ غلام محمد قاصر اور احمد فراز اس شہر کے مینار تھے۔ کیا وضعداری اور نجابت تھی ان بڑے لوگوں میں! نیپا (NIPA) پشاور میں تربیتی کورس کے لیے قیام تھا۔ محسن احسان کو‘ کہ عمر‘ علم اور شاعری‘ ہر شے میں سینئر تھے ،فون کیا کہ ان کے ہاں حاضر ہونا تھا۔ شام کو اقامت گاہ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو محسن احسان کھڑے تھے۔ کتنی ہی سرمئی شامیں ان کے ہاں گزاریں اور ضیافتوں سے تمتع اٹھایا۔ خاطر غزنوی ملتے تھے تو سراپا محبت کے ساتھ۔ 2004ء کی بات ہے۔ ماہ وش کی شادی پر فراز صاحب کو بلایا۔ دوستوں نے متنبہ کیا کہ افتخار عارف آئے تو فراز صاحب نہیں آئیں گے۔ پوچھا تو کہنے لگے تمہاری بیٹی کی شادی ہے‘ کیسے ممکن ہے نہ آئوں۔ وہ بھی آئے اور افتخار عا رف بھی!
پشاور پر پشاور کے پروردگار کا آج بھی کرم ہے۔ آج سجاد بابر‘ ڈاکٹر نذیر تبسم‘ عزیز اعجاز‘ ناصر علی سید‘ بشریٰ فرخ اور حسام حُر اس شہر کے مینار ہیں۔ یہاں کی دانش و حکمت کے نشان ہیں! عزیز اعجاز کا یہ شعر تو اب ضرب المثل بن چکا ہے ؎
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
معاملہ بندی کرتا ہے تو مومن یاد آ جاتے ہیں۔
خانہ فرہنگِ ایران کا امام خمینی ہال پشاور کی ادبی تقاریب کے لیے ہمیشہ دامنِ دل پھیلا دیتا ہے۔ یارِ دیرینہ ناصر علی سید کی نرماہٹ سے بھری دلکش نظامت تھی۔ آقائی علی یوسفی نے ایرانی لہجے میں عزیز اعجاز کے اشعار تحت اللفظ پڑھے، پھر بھی کیا غنائیت تھی اور کھنک تھی جو مترشح ہو رہی تھی! فارسی میں ان سے گفتگو کی تو معافی کا خواستگار ہوا کہ لہجہ دری ہے اور گرفت کمزور لیکن خوش ہوئے اور وعدہ کیا کہ اسلام آباد آئیں گے تو رابطہ کریں گے۔ کیا ہم اور کیا ہماری فارسی! یہ تو بس چند ریزے تھے جو والدِ گرامی کے دسترخوان کے اردگرد سے چُنے! اب کفِ افسوس رہ گئی ہے! کاش! اوک سے چند گھونٹ پینے کے بجائے اُس ٹھاٹھیں مارتے دریا سے بہت سا آبِ شیریں ذخیرہ کر لیتے!
تاریخ بھی عجیب ستم ظریف ہے۔ جس بابِ خیبر سے شہسوار فاتح آتے تھے‘ زمانے نے کروٹ بدلی تو گرے پڑے‘ زخموں سے چور مہاجرین اُس سے آئے۔ پشاور نے اپنی بے کنار وسعتوں میں انہیں سمیٹ لیا۔ وہ ہزاروں میں نہیں‘ لاکھوں میں تھے۔ ان میں شمالی افغانستان کے ‘کہ ترکستانِ صغیر کہلاتا ہے‘ ازبک بھی تھے‘ تاجک بھی تھے، ہزارہ بھی اور جنوبی اور مشرقی افغانستان کے پختون بھی! جلوزئی سے لے کر ریگی للما تک پناہ گاہیں کھل گئیں۔ پشاور نے بازاروں کے دروازے وا کردیے۔ کاروبار میں شرکت کے مواقع بہم پہنچائے۔ آج مہاجرین کی تیسری نسل ہے جو پشاور کے گلی کوچوں میں چل پھر رہی ہے۔ 1980ء میں جو بچہ پیدا ہوا تھا آج وہ پینتیس برس کا ہے اور اس کا بیٹا اس کی انگلی پکڑے ساتھ چل رہا ہے۔
انگریز سرکار نے پشاور میں ایڈورڈ کالج بنایا تھا۔ انہوں نے مہمند اور باجوڑ میں‘ میرن شاہ اور جنوبی وزیرستان میں کوئی سکول‘ کوئی کالج‘ کوئی یونیورسٹی نہ بنائی اس لیے کہ ان کا مقصد فلاح و بہبود نہ تھا‘ روسیوں کے راستے میں بند باندھنا تھا۔ وہ قبائلیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ مگر افسوس! قبائلی علاقوں کو ان کے نئے وطن نے بھی‘ جو ستر سال پرانا ہو چکا ہے‘ کوئی یونیورسٹی‘ کوئی کارخانہ نہ دیا۔ کروڑوں اربوں روپوں کی رقوم پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے مخصوص گماشتوں کو دی جاتی رہیں۔ قبائلی عوام تک کچھ نہ پہنچا۔ جن کے اپنے بچے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ کے بزنس میں کروڑوں سے کھیل رہے ہیں‘ وہ قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں اور بندوقیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر یہی بہادری ہے تو وہ اپنے بچوں کو یہ بہادری کیوں نہیں سکھاتے؟
پشاور کے ہم مقروض ہیں۔ صدیوں کا قرض ہے! تب اترے گا جب پشاور کے نواح میں امن ہوگا‘ یونیورسٹیاں ہوں گی۔ کارخانے اور فیکٹریاں ہوں گی۔ شاپنگ مال ہوں گے۔ خوشحالی ہو گی اور قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں بارود نہیں‘ کتاب اور لیپ ٹاپ ہوگا۔