تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-03-2015

اسد کا شہ بالا… (2)

ابا جی نے گریجوایشن ایمرسن کالج ملتان سے کی۔ یہ غالباً 1948ء کی بات ہے‘ یعنی پاکستان بننے کے ایک سال بعد۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی ایمرسن کالج کا ہندو سٹاف اور پروفیسرز ہندوستان چلے گئے۔ جانے والوں میں کالج کا ہندو لائبریرین بھی شامل تھا۔ ابا جی نے بطور رضاکار طالبعلم لائبریرین کے فرائض بھی ادا کرنے شروع کردیے۔ اسی دوران انہوں نے بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔ کالج کے پرنسپل محمد ابراہیم خان نے کتاب اور لائبریری سے محبت اور شوق کو دیکھتے ہوئے بی اے پاس کرنے پر لائبریرین لگانے کی آفر کی جو ابا جی نے قبول کر لی۔ دو تین سال بعد چھٹی لے کر لاہور چلے گئے اور پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ حاصل کر کے واپس ایمرسن کالج آ گئے۔ اب وہ ٹرینڈ لائبریرین تھے۔ تب یہ لائبریری سائنس میں سب سے بڑی ڈگری تھی۔ بعدازاں جب 1975ء میں پنجاب یونیورسٹی میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کلاس کا آغاز ہوا تو پچاس سال کی عمر میں دوبارہ پنجاب یونیورسٹی جا کر ماسٹرز کی اولین کلاس میں داخلہ لے لیا۔ ابا جی کی زندگی کا بیشتر حصہ ایمرسن کالج میں گزر گیا۔ وہ 1948ء میں میٹرک پاس کر کے ایمرسن کالج میں داخل ہوئے اور 1985ء میں وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ پھر دو دو سال کی دوبار ملازمت میں توسیع ملی اور بالآخر اکتالیس سال تک مسلسل ایمرسن کالج میں لائبریرین کے فرائض سرانجام دینے کے بعد 1989ء میں ریٹائر ہو گئے۔
وہ ایمرسن کالج سے تو ریٹائر ضرور ہوئے مگر کام سے ریٹائر نہ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بارہ پندرہ سال بعد تک وہ ملتان کے مختلف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لائبریریز کو ترتیب اور لائبریرینز کو تربیت دیتے رہے۔ دوران ملازمت پنجاب کالج لائبریرینز ایسوسی ایشن کے طویل ترین عرصہ تک صدر رہے تاوقتیکہ آئینی طور پر مزید صدر رہنے کی ممانعت کی زد میں آگئے؛ تاہم لائبریری اور لائبرینز کی محبت ان کے دل میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ وہ میری چھوٹی سی لائبریری کو آ کر دیکھتے اور کتابوں کی ترتیب کے بارے مجھے ہدایات دیتے رہتے۔ لائبریرینز کے سروس سٹرکچر کی بہتری کے لیے لائبریرینز کے وفد کی قیادت تو وہ ریٹائرمنٹ کے پچیس سال بعد بھی کرتے رہے۔ آخری بار وہ اس وفد کے ساتھ پچاسی سال کی عمر میں لاہور گئے۔ بعدازاں صرف ہدایات دینے اور کیس کی کاغذی تیاریوں میں مدد کرتے رہے۔
اسد نے دوبارہ کہا کہ میں اسے اپنی اور دادا کی کوئی بات سنائوں۔ میں نے اسے بتایا ''یہ قریب چار عشرے پرانی بات ہے...‘‘ انگلش میڈیم والا بچہ پریشان ہو کر پوچھنے لگا ''یہ چار عشرے کتنے ہوتے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا ''چالیس سال۔ ایک عشرہ دس سال کا ہوتا ہے۔ میں تب چودہ پندرہ سال کا تھا۔ ہم سب گھر والے لاہور میں تھے۔ چھٹیاں تھیں اور ہم اس روز اپنی خالہ کے ہاں نیو مسلم ٹائون میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ میرا خالہ زاد عامر تقریباً میرا ہم عمر تھا مگر تھا بڑا تلنگا۔ مجھے بہلا پھسلا کر فلم پر لے گیا۔ ہم بس پر چڑھ کر گلیکسی سینما جا پہنچے اور چھ سے نو بجے کا شو دیکھا۔ واپسی پر ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ عامر کہنے لگا بغیر ٹکٹ بس پر چڑھ جاتے ہیں۔ میں نے انکار کردیا۔ ہم نے جو فلم دیکھی اس کا نام تھا ''ایماندار‘‘۔ یہ منورظریف کی فلم تھی۔ مجھ پر ایمانداری کا مکمل غلبہ تھا۔ سو ہم پیدل چل پڑے۔ گھر پہنچتے پہنچتے گھنٹہ اور لگ گیا۔ ہم قریب دس بجے گھر پہنچے۔ بھائی جان طارق کی‘ میری اور عامر کی چارپائیاں باہر والے صحن میں بچھی ہوئی تھیں۔ میں جب گھر پہنچا تو گیٹ بند تھا۔ عامر نے ہاتھ اندر ڈال کر خفیہ طریقہ کار سے دروازہ کھولا اور ہم اندر آ گئے۔ بھائی جان طارق ڈرے ہوئے تھے۔ کہنے لگے: ابا جی تمہارا اور عامر کا کئی دفعہ پوچھ
چکے ہیں‘ تم فٹا فٹ لیٹ جائو اور سونے کی ایکٹنگ کرو۔ بھائی جان کو پتہ تھا کہ ہم فلم دیکھ کر آ رہے ہیں۔ اسد پوچھنے لگا: بھلا اس میں اتنا ڈرنے کی کیا بات تھی؟ میں نے کہا: اوئے الو! جس گھر میں غزل ریڈیو پر سننا جرم ہو وہاں فلم دیکھنے کی سزا کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ پیچیدہ سوال نہیں ہے‘‘۔ اسد کہنے لگا ''اچھا آگے بتائیں‘‘۔
''میں ابھی لیٹا ہی تھا کہ ابا جی برآمدے میں آ گئے۔ سونے کا ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے ہی ہم پکڑے گئے۔ ابا جی خاصے غصے میں تھے۔ پوچھنے لگے کہ ہم کہاں تھے۔ مخاطب صرف میں تھا۔ میں نے تمہیں بتایا ہے ناں کہ مجھ پر فلم کا اثر تھا اور میں مکمل ایمانداری اور سچائی پر تُلا ہوا تھا۔ ابا جی کے پیچھے پیچھے امی بھی باہر آ گئیں۔ بھائی جان نے شاید امی کو بتا دیا تھا کہ خالد فلم دیکھنے چلا گیا ہے۔ امی ڈری ہوئی تھیں اور انہیں اندازہ تھا کہ کیا ہو سکتا ہے۔ ابا جی نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں تھا؟ میں نے انجام کو پس پشت ڈالتے ہوئے نہایت اطمینان سے کہا کہ ہم فلم دیکھنے گئے تھے۔ یہ ایک ناقابل یقین جرأت تھی۔ ابا جی بذات خود اس جواب کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میں کوئی بہانہ کروں گا۔ وہ تھوڑی سی ڈانٹ ڈپٹ کریں گے اور معاملہ ختم ہو جائے گا مگر یہاں تو سب کچھ الٹا پلٹا ہو گیا تھا۔ برآمدے میں کھڑی امی جان کی تو سمجھو جان ہی نکل گئی۔ بھائی طارق اٹھ کر بیٹھ گیا کہ متوقع پٹائی کے مرحلے پر امدادی کارروائی کر سکے اور مجھے حتی الامکان بچا سکے۔ لیکن ہوا یہ کہ میرے غیر متوقع جواب پر ابا جی بھی گڑبڑا گئے۔ ان کا اپنا سارا پلان ایک دم چوپٹ ہو گیا تھا۔ انہیں میرے اس محیر العقول جواب پر اس قدر حیرانی ہوئی کہ انہوں نے آگے سے ایک ایسا سوال کر دیا جس کی نہ تو امید کی جا سکتی تھی اور نہ ہی کوئی تُک تھی۔ پوچھنے لگے کون سی فلم دیکھی ہے؟ میں نے کہا ''ایماندار‘‘۔ انہوں نے ناقابل یقین ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ ایکدم ٹھنڈے پڑ گئے اور کہنے لگے اب سو جائو‘ رات بہت ہو گئی ہے‘ صبح بات کریں گے۔ صبح کیا بات کرتے۔ انہوں نے اس موضوع پر دوبارہ کبھی بھی بات نہ کی۔ صبح امی نے بتایا کہ جب تمہارے ابا واپس اندر آئے تو ایک دو لمحے کے توقف کے بعد مجھ سے کہنے لگے۔ اس خبیث کی حرکت دیکھی؟ امی جان خاموش رہیں۔ پھر کہنے لگے‘ میں نے اس کی سچائی کی وجہ سے اسے کچھ نہیں کہا۔ اگر میں اسے اب ڈانٹتا یا غصہ کرتا تو آئندہ یہ کبھی سچ نہ بولتا۔ جھوٹ گھڑتا‘ بہانے بناتا اور غلط بیانی کرتا۔ اب یہ آئندہ سچ بولتے ہوئے یہ ضرور سوچے گا کہ سچ عافیت ہے۔ ان کی سوچ اور اندازہ درست تھا۔ میں نے یہ بات پلے باندھ لی کہ سچ اور سچائی ہی اصل عافیت ہے۔ تب سے بعد میں نے فتنہ پروری والے سچ کے علاوہ ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کی‘‘۔
اسد نے پوچھا ''بابا جان! کبھی آپ کو دادا سے مار پڑی؟‘‘ میں نے کہا ''صرف ایک بار۔ وہ بھی یوں ہوا کہ ابا جی نے مجھے صرف دو چار ہلکے ہلکے تھپڑ لگائے اور وہ بھی کمر پر۔ مگر میں نے اتنا رولا ڈالا کہ اماں ددّو (میری مرحومہ بیوہ پھوپھی جو ہمارے ساتھ رہتی تھیں) نے آ کر ابا جی کو پیٹ دیا۔ بعد میں ابا جی نے اماں ددّو کو بتایا کہ میں بھی مارنے کا صرف ڈرامہ کر رہا تھا مگر اس خبیث نے مجھ سے بھی زیادہ ڈرامہ کیا تھا۔ میں نے اسد کو بتایا کہ ابا جی سے فرینک ہونے کی کسی میں نہ تو ہمت تھی اور نہ ہی جرأت۔ میں زبردستی ابا جی سے فرینک ہو گیا۔ پہلے پہل تو مجھے اس جرأت پر کئی بار ڈانٹ بھی پڑی مگر پھر آہستہ آہستہ پتھر میں جونک لگ گئی‘‘۔ اسد پوچھنے لگا ''پتھر میں جونک لگنا کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے کہا ''یہ محاورہ کسی مشکل شخص کو رام کرنے‘ سخت طبیعت کو نرم کرنے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ یہ کام تاریخی واقعات پر گفتگو سے شروع ہوا اور سالانہ شطرنج چیمپئن شپ تک جا پہنچا جو ہم سارے بہن بھائی مل کر اپنے چچا زاد بھائیوں اور بہنوں سے گرمیوں کی چھٹیوں میں کھیلتے تھے۔ ایک دو سال بعد ابا جی بھی اس چیمپئن شپ میں شامل ہو گئے‘‘۔ ''دادا کبھی جیتے بھی تھے؟‘‘ اسد نے پوچھا۔ ''وہ سیمی فائنل میں مجھ سے یا طارق بھائی جان سے ہار جاتے تھے۔ ہم پول اس طرح بناتے تھے کہ سیمی فائنل میں طارق بھائی جان اور میرا آمنا سامنا ہو۔ فائنل ہم دونوں کھیلتے تھے‘‘۔
اسد پوچھنے لگا ''بابا جان! دادا سب سے زیادہ پیار کسے کرتے تھے؟‘‘ میں نے کہا ''تمہارے ساتھ‘‘۔ اسد کہنے لگا ''میرا مطلب ہے آپ بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ کس کے ساتھ کرتے تھے؟‘‘ میں نے کہا ''یہ صرف میرا ہی خیال نہیں سارے خاندان کا یہی کہنا ہے کہ وہ سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے تھے۔ میری اور ان کی بچپن سے بڑی کمپنی تھی۔ ڈرتے بھی تھے اور اکٹھے بھی رہتے تھے‘‘۔ اسد پوچھنے لگا ''دادا آپ سے کتنا پیار کرتے تھے؟‘‘ میں نے تھوڑی دیر سوچا مگر میرے پاس اسے سمجھانے کا کوئی مناسب پیمانہ ہی نہیں تھا۔ تھوڑا سوچ کر میں نے اسے کہا وہ مجھ سے اتنا پیار کرتے تھے جتنا‘ میں تم سے کرتا ہوں‘ ممکن ہے اس سے بھی تھوڑا زیادہ۔ تب پیار کرنے کا رواج نہیں تھا۔ مگر ابا جی کرتے تھے‘‘۔ اسد کہنے لگا ''پھر تو دادا آپ سے بہت ہی زیادہ پیار کرتے تھے‘‘۔ وہ ایک لمحے میں ہی ہم باپ بیٹے کے پیار کی گہرائی تک پہنچ گیا۔
بعض اوقات مشکل باتیں بڑی آسانی سے سمجھ آ جاتی ہیں اور آسان باتیں مشکل سے بھی سمجھ نہیں آتیں۔ (جاری)
ابا جی نے گریجوایشن ایمرسن کالج ملتان سے کی۔ یہ غالباً 1948ء کی بات ہے‘ یعنی پاکستان بننے کے ایک سال بعد۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی ایمرسن کالج کا ہندو سٹاف اور پروفیسرز ہندوستان چلے گئے۔ جانے والوں میں کالج کا ہندو لائبریرین بھی شامل تھا۔ ابا جی نے بطور رضاکار طالبعلم لائبریرین کے فرائض بھی ادا کرنے شروع کردیے۔ اسی دوران انہوں نے بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔ کالج کے پرنسپل محمد ابراہیم خان نے کتاب اور لائبریری سے محبت اور شوق کو دیکھتے ہوئے بی اے پاس کرنے پر لائبریرین لگانے کی آفر کی جو ابا جی نے قبول کر لی۔ دو تین سال بعد چھٹی لے کر لاہور چلے گئے اور پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ حاصل کر کے واپس ایمرسن کالج آ گئے۔ اب وہ ٹرینڈ لائبریرین تھے۔ تب یہ لائبریری سائنس میں سب سے بڑی ڈگری تھی۔ بعدازاں جب 1975ء میں پنجاب یونیورسٹی میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کلاس کا آغاز ہوا تو پچاس سال کی عمر میں دوبارہ پنجاب یونیورسٹی جا کر ماسٹرز کی اولین کلاس میں داخلہ لے لیا۔ ابا جی کی زندگی کا بیشتر حصہ ایمرسن کالج میں گزر گیا۔ وہ 1948ء میں میٹرک پاس کر کے ایمرسن کالج میں داخل ہوئے اور 1985ء میں وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ پھر دو دو سال کی دوبار ملازمت میں توسیع ملی اور بالآخر اکتالیس سال تک مسلسل ایمرسن کالج میں لائبریرین کے فرائض سرانجام دینے کے بعد 1989ء میں ریٹائر ہو گئے۔
وہ ایمرسن کالج سے تو ریٹائر ضرور ہوئے مگر کام سے ریٹائر نہ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بارہ پندرہ سال بعد تک وہ ملتان کے مختلف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لائبریریز کو ترتیب اور لائبریرینز کو تربیت دیتے رہے۔ دوران ملازمت پنجاب کالج لائبریرینز ایسوسی ایشن کے طویل ترین عرصہ تک صدر رہے تاوقتیکہ آئینی طور پر مزید صدر رہنے کی ممانعت کی زد میں آگئے؛ تاہم لائبریری اور لائبرینز کی محبت ان کے دل میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ وہ میری چھوٹی سی لائبریری کو آ کر دیکھتے اور کتابوں کی ترتیب کے بارے مجھے ہدایات دیتے رہتے۔ لائبریرینز کے سروس سٹرکچر کی بہتری کے لیے لائبریرینز کے وفد کی قیادت تو وہ ریٹائرمنٹ کے پچیس سال بعد بھی کرتے رہے۔ آخری بار وہ اس وفد کے ساتھ پچاسی سال کی عمر میں لاہور گئے۔ بعدازاں صرف ہدایات دینے اور کیس کی کاغذی تیاریوں میں مدد کرتے رہے۔
اسد نے دوبارہ کہا کہ میں اسے اپنی اور دادا کی کوئی بات سنائوں۔ میں نے اسے بتایا ''یہ قریب چار عشرے پرانی بات ہے...‘‘ انگلش میڈیم والا بچہ پریشان ہو کر پوچھنے لگا ''یہ چار عشرے کتنے ہوتے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا ''چالیس سال۔ ایک عشرہ دس سال کا ہوتا ہے۔ میں تب چودہ پندرہ سال کا تھا۔ ہم سب گھر والے لاہور میں تھے۔ چھٹیاں تھیں اور ہم اس روز اپنی خالہ کے ہاں نیو مسلم ٹائون میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ میرا خالہ زاد عامر تقریباً میرا ہم عمر تھا مگر تھا بڑا تلنگا۔ مجھے بہلا پھسلا کر فلم پر لے گیا۔ ہم بس پر چڑھ کر گلیکسی سینما جا پہنچے اور چھ سے نو بجے کا شو دیکھا۔ واپسی پر ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ عامر کہنے لگا بغیر ٹکٹ بس پر چڑھ جاتے ہیں۔ میں نے انکار کردیا۔ ہم نے جو فلم دیکھی اس کا نام تھا ''ایماندار‘‘۔ یہ منورظریف کی فلم تھی۔ مجھ پر ایمانداری کا مکمل غلبہ تھا۔ سو ہم پیدل چل پڑے۔ گھر پہنچتے پہنچتے گھنٹہ اور لگ گیا۔ ہم قریب دس بجے گھر پہنچے۔ بھائی جان طارق کی‘ میری اور عامر کی چارپائیاں باہر والے صحن میں بچھی ہوئی تھیں۔ میں جب گھر پہنچا تو گیٹ بند تھا۔ عامر نے ہاتھ اندر ڈال کر خفیہ طریقہ کار سے دروازہ کھولا اور ہم اندر آ گئے۔ بھائی جان طارق ڈرے ہوئے تھے۔ کہنے لگے: ابا جی تمہارا اور عامر کا کئی دفعہ پوچھ
چکے ہیں‘ تم فٹا فٹ لیٹ جائو اور سونے کی ایکٹنگ کرو۔ بھائی جان کو پتہ تھا کہ ہم فلم دیکھ کر آ رہے ہیں۔ اسد پوچھنے لگا: بھلا اس میں اتنا ڈرنے کی کیا بات تھی؟ میں نے کہا: اوئے الو! جس گھر میں غزل ریڈیو پر سننا جرم ہو وہاں فلم دیکھنے کی سزا کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ پیچیدہ سوال نہیں ہے‘‘۔ اسد کہنے لگا ''اچھا آگے بتائیں‘‘۔
''میں ابھی لیٹا ہی تھا کہ ابا جی برآمدے میں آ گئے۔ سونے کا ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے ہی ہم پکڑے گئے۔ ابا جی خاصے غصے میں تھے۔ پوچھنے لگے کہ ہم کہاں تھے۔ مخاطب صرف میں تھا۔ میں نے تمہیں بتایا ہے ناں کہ مجھ پر فلم کا اثر تھا اور میں مکمل ایمانداری اور سچائی پر تُلا ہوا تھا۔ ابا جی کے پیچھے پیچھے امی بھی باہر آ گئیں۔ بھائی جان نے شاید امی کو بتا دیا تھا کہ خالد فلم دیکھنے چلا گیا ہے۔ امی ڈری ہوئی تھیں اور انہیں اندازہ تھا کہ کیا ہو سکتا ہے۔ ابا جی نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں تھا؟ میں نے انجام کو پس پشت ڈالتے ہوئے نہایت اطمینان سے کہا کہ ہم فلم دیکھنے گئے تھے۔ یہ ایک ناقابل یقین جرأت تھی۔ ابا جی بذات خود اس جواب کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میں کوئی بہانہ کروں گا۔ وہ تھوڑی سی ڈانٹ ڈپٹ کریں گے اور معاملہ ختم ہو جائے گا مگر یہاں تو سب کچھ الٹا پلٹا ہو گیا تھا۔ برآمدے میں کھڑی امی جان کی تو سمجھو جان ہی نکل گئی۔ بھائی طارق اٹھ کر بیٹھ گیا کہ متوقع پٹائی کے مرحلے پر امدادی کارروائی کر سکے اور مجھے حتی الامکان بچا سکے۔ لیکن ہوا یہ کہ میرے غیر متوقع جواب پر ابا جی بھی گڑبڑا گئے۔ ان کا اپنا سارا پلان ایک دم چوپٹ ہو گیا تھا۔ انہیں میرے اس محیر العقول جواب پر اس قدر حیرانی ہوئی کہ انہوں نے آگے سے ایک ایسا سوال کر دیا جس کی نہ تو امید کی جا سکتی تھی اور نہ ہی کوئی تُک تھی۔ پوچھنے لگے کون سی فلم دیکھی ہے؟ میں نے کہا ''ایماندار‘‘۔ انہوں نے ناقابل یقین ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ ایکدم ٹھنڈے پڑ گئے اور کہنے لگے اب سو جائو‘ رات بہت ہو گئی ہے‘ صبح بات کریں گے۔ صبح کیا بات کرتے۔ انہوں نے اس موضوع پر دوبارہ کبھی بھی بات نہ کی۔ صبح امی نے بتایا کہ جب تمہارے ابا واپس اندر آئے تو ایک دو لمحے کے توقف کے بعد مجھ سے کہنے لگے۔ اس خبیث کی حرکت دیکھی؟ امی جان خاموش رہیں۔ پھر کہنے لگے‘ میں نے اس کی سچائی کی وجہ سے اسے کچھ نہیں کہا۔ اگر میں اسے اب ڈانٹتا یا غصہ کرتا تو آئندہ یہ کبھی سچ نہ بولتا۔ جھوٹ گھڑتا‘ بہانے بناتا اور غلط بیانی کرتا۔ اب یہ آئندہ سچ بولتے ہوئے یہ ضرور سوچے گا کہ سچ عافیت ہے۔ ان کی سوچ اور اندازہ درست تھا۔ میں نے یہ بات پلے باندھ لی کہ سچ اور سچائی ہی اصل عافیت ہے۔ تب سے بعد میں نے فتنہ پروری والے سچ کے علاوہ ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کی‘‘۔
اسد نے پوچھا ''بابا جان! کبھی آپ کو دادا سے مار پڑی؟‘‘ میں نے کہا ''صرف ایک بار۔ وہ بھی یوں ہوا کہ ابا جی نے مجھے صرف دو چار ہلکے ہلکے تھپڑ لگائے اور وہ بھی کمر پر۔ مگر میں نے اتنا رولا ڈالا کہ اماں ددّو (میری مرحومہ بیوہ پھوپھی جو ہمارے ساتھ رہتی تھیں) نے آ کر ابا جی کو پیٹ دیا۔ بعد میں ابا جی نے اماں ددّو کو بتایا کہ میں بھی مارنے کا صرف ڈرامہ کر رہا تھا مگر اس خبیث نے مجھ سے بھی زیادہ ڈرامہ کیا تھا۔ میں نے اسد کو بتایا کہ ابا جی سے فرینک ہونے کی کسی میں نہ تو ہمت تھی اور نہ ہی جرأت۔ میں زبردستی ابا جی سے فرینک ہو گیا۔ پہلے پہل تو مجھے اس جرأت پر کئی بار ڈانٹ بھی پڑی مگر پھر آہستہ آہستہ پتھر میں جونک لگ گئی‘‘۔ اسد پوچھنے لگا ''پتھر میں جونک لگنا کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے کہا ''یہ محاورہ کسی مشکل شخص کو رام کرنے‘ سخت طبیعت کو نرم کرنے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ یہ کام تاریخی واقعات پر گفتگو سے شروع ہوا اور سالانہ شطرنج چیمپئن شپ تک جا پہنچا جو ہم سارے بہن بھائی مل کر اپنے چچا زاد بھائیوں اور بہنوں سے گرمیوں کی چھٹیوں میں کھیلتے تھے۔ ایک دو سال بعد ابا جی بھی اس چیمپئن شپ میں شامل ہو گئے‘‘۔ ''دادا کبھی جیتے بھی تھے؟‘‘ اسد نے پوچھا۔ ''وہ سیمی فائنل میں مجھ سے یا طارق بھائی جان سے ہار جاتے تھے۔ ہم پول اس طرح بناتے تھے کہ سیمی فائنل میں طارق بھائی جان اور میرا آمنا سامنا ہو۔ فائنل ہم دونوں کھیلتے تھے‘‘۔
اسد پوچھنے لگا ''بابا جان! دادا سب سے زیادہ پیار کسے کرتے تھے؟‘‘ میں نے کہا ''تمہارے ساتھ‘‘۔ اسد کہنے لگا ''میرا مطلب ہے آپ بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ کس کے ساتھ کرتے تھے؟‘‘ میں نے کہا ''یہ صرف میرا ہی خیال نہیں سارے خاندان کا یہی کہنا ہے کہ وہ سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے تھے۔ میری اور ان کی بچپن سے بڑی کمپنی تھی۔ ڈرتے بھی تھے اور اکٹھے بھی رہتے تھے‘‘۔ اسد پوچھنے لگا ''دادا آپ سے کتنا پیار کرتے تھے؟‘‘ میں نے تھوڑی دیر سوچا مگر میرے پاس اسے سمجھانے کا کوئی مناسب پیمانہ ہی نہیں تھا۔ تھوڑا سوچ کر میں نے اسے کہا وہ مجھ سے اتنا پیار کرتے تھے جتنا‘ میں تم سے کرتا ہوں‘ ممکن ہے اس سے بھی تھوڑا زیادہ۔ تب پیار کرنے کا رواج نہیں تھا۔ مگر ابا جی کرتے تھے‘‘۔ اسد کہنے لگا ''پھر تو دادا آپ سے بہت ہی زیادہ پیار کرتے تھے‘‘۔ وہ ایک لمحے میں ہی ہم باپ بیٹے کے پیار کی گہرائی تک پہنچ گیا۔
بعض اوقات مشکل باتیں بڑی آسانی سے سمجھ آ جاتی ہیں اور آسان باتیں مشکل سے بھی سمجھ نہیں آتیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved