تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     07-03-2015

ڈرٹی پالیٹکس

پیارے وطن میں ہارس ٹریڈنگ اور ہارس اینڈ کیٹل شو کا شور رہا۔ سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا شور چاروں صوبوں میں سنائی دیا جبکہ پنجاب کے دل لاہور میں صدر ممنون حسین کے ہاتھوں ہارس اینڈ کیٹل شو کا افتتاح بھی بخیر و خوبی انجام پایا۔ہارس اینڈ کیٹل شو میں اعلیٰ نسل کے گھوڑوں، بھینسوں، بیلوں ، مینڈھوں، اونٹوں، بھیڑوں، دنبوں اور بکروں سمیت ددسرے صحت مند جانوروں کی نمائش ہوئی ۔ لاہور میں ہونے والے میلہ مویشیاں میں ناچتی بکریاں اور ٹھمکے لگاتے اونٹوں نے شائقین میلہ کے دلوں کو لبھایا‘ جبکہ دوسرے ''شو‘‘ کی سٹار کاسٹ میں شامل سپرسٹارز، ہیروز ، سائیڈہیروز اور ایکسٹراز کی پرفارمنس سے قومی سیاست کے میدان میں صرف موج میلے کاسما ں ہی پیدا ہوسکا۔ فراز نے کہاتھا:
باغبانوں کو عجب رنج سے تکتے ہیں گلاب
گل فروش آج بہت جمع ہیں گلزار کے بیچ
شیخ رشید نے کہاہے کہ سینیٹ کے الیکشن نے جمہوریت کو اور بھی داغدار کیاہے۔چوہدری شجاعت حسین کے مطابق سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ نہیں کھوتا (گدھا ) ٹریڈنگ ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان نے فرمایاکہ جو لوگ ہمیں چور کہہ رہے تھے وہ خود چور نکلے۔ ان کے فرمان کا مطلب یہ تھاکہ پی ٹی آئی کے بعض اسمبلی ممبران پر الزام عائد کیاگیاہے کہ انہوں نے اپنا ووٹ بیلٹ باکس میں ڈالنے کی بجائے باہر اپنے لیڈر کو ''نقد‘‘ ڈالا۔ماضی قریب ہویا ماضی بعیدمذکورہ تمام قائدین سیاست،اقتدار اور عوامی خدمت کے تاحیات منصوبے میں ایک دوسرے کے شراکت دار رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت مع چوہدری پرویز الٰہی، شیخ رشید اورمیاں برادران کبھی ایک ہوا کرتے تھے ۔ مذکورہ سبھی سیاسی قائدین کی پرورش وپرداخت جنرل محمد ضیا الحق کے غیر سیاسی ڈیری فارموں میں ہوئی۔ جنرل ضیا الحق کا گیارہ سالہ دور ہمارے سیاسی نظام کا ایک ایسا Matrix(رحم مادر) تھا جس سے دہشت گرد،دہشت گردی اور کرپشن کی افزائش نسل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر دور میں ہمارے ہاں یہی ہوتا رہاکہ آرڈر پر مال تیار کرنے کے مصداق جمہوری لیڈر شپ تیار کی جاتی رہی ۔ اس نوع کی کاری گری کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ سومنات انڈسٹری سے مومن پیدا کرلئے گئے۔ ایڈوانس، بیعانہ اور سائی کے طور پر معمولی رقم لے کر شادی بیاہ ،عقیقہ ، گیٹ ٹو گیدر، سالگرہ اور خوشی کے دوسرے مواقع پر رونق میلہ لگانے والے ''کلاکاروں ‘‘ سے کسی انقلابی تحریک کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ ایک جتنے سیاسی قد کاٹھ اور نظریاتی‘ شخصی رتبے کے لوگوں کی کہانیاں اورفسانے ملتے جلتے ہی ہوتے ہیں۔شکیب جلالی نے کہاتھا:
ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں یہ میرا ہی افسانہ تھا
مولانا فضل الرحمان ہمارے ایسے سرسبز سیاستدان ہیں جن کی سیاست محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف ، جنرل پرویز مشرف اور سابق صدر زرداری کے چارمختلف ادوار میں ہری بھری رہی۔ عمران خان کے بارے میں عام تصور پایاجاتاہے کہ وہ پاکستان کی روایتی اور کرپشن سے لدی پھندی سیاست کے باغی ہیں لیکن زرداری صاحب سے ان کی ٹیلی فونک ٹاک کے بعد کہاجارہا ہے کہ ''اور لائن مل گئی‘‘۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔پاکستان کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو اچھرہ کے ذیلدار پارک میں اپنے بدترین سیاسی مخالف مولانا مودودی کے ہاں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔بھٹو صاحب کا مولانا مودودی کے ہاں جانا اس دور کا بہت بڑا سیاسی واقعہ تھا۔انہی دنوں بابا چشتی نے اپنا لکھا اور کمپوز کیاگیت ملکہ ترنم نورجہاں سے گوایا‘ جو فلم کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میںبھی دلچسپی سے سناگیاتھا
ساڈا کلیاں نئیں لگ دا دل وے
مینوں اچھرے موڑتے مل وے
(ہمارااکیلے دن نہیں لگتا،مجھے اچھرے موڑ پر ملو)
سیاست اگر قومی خدمت ہے تو پھر اس میں چٹان کی طرح ڈٹ جانے اور ریت کی طرح بچھ جانے کی دونوں صورتوں میں عوام کا مفاد مقدم ہونا چاہیے‘ لیکن دیکھاگیاہے کہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے والے مفادات کی سیاست کرتے ہوئے وقت آنے پر ایک دوسرے کو متقی اور پرہیز گار تسلیم کرلیتے ہیں۔ فاٹا کے سوا تمام صوبوں کے نتائج سامنے آچکے ہیں جس کے مطابق پی پی پی کی اب سینیٹ میں کل نشستیں 27اور نون لیگ کی کل 26نشستیں ہیں‘ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ فاٹا کے اراکین ہمیشہ حکومت کی جھولی میں گرتے ہیں۔یہ امکان بھی ظاہر کیاجارہاہے کہ آصف زرداری اپنی سیاسی گگلی سے کھیل کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔نون لیگ اگرچہ جوڑ توڑ کے موجودہ سیاسی نظام کے بانیوں میں شامل ہے لیکن میا ں برادران کے حوالے سے کہاجاتاہے کہ ان میں Elasticity Political (سیاسی لچک) کی کمی کے باعث معاملات بگڑ جاتے ہیں۔تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف وفاقی ''فنڈز‘‘ ہیں تو دوسری طرف صوبائی ''فنڈز‘‘ کے ساتھ افہام وتفہیم کا شہد اورمکھن بھی ہے۔
اپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ نے کہاہے کہ وزیر اعظم میاں نوازشریف کا سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ نہ ڈالنا پارلیمانی نظام کی توہین ہے۔ فاٹا کے اراکین اور الیکشن کے حوالے سے راتوں رات صدارتی آرڈی نینس لاکر کھلم کھلا ہارس ٹریڈنگ کی گئی۔ وزیراعظم نوازشریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب سینیٹ کے الیکشن کے دن سعودی عرب تشریف لے گئے ۔وزیر اعظم تو سعودی عرب اور پاکستان کے پرانے رشتے کو مضبوطی کا نیاجوڑ لگانے میں مصروف رہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچے جہاں انہوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ میاں برادران ملک کے و زیراعظم اور سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن دونوں ایوانوں میں کم ہی جلوہ گر ہوتے ہیں۔ایسے اداروں، ایوانوں اور درباروں میں عوام کی بھلائی کیلئے کیاکارنامہ سرانجام دیاجاسکتاہے جس کے سربراہ ابنِ بطوطہ یا سندباد کا ریکارڈ توڑنے میں مصروف ہوں۔
سینیٹ کے الیکشن میں ہمارے محبان اپنا قیمتی ووٹ اپنی بیش قیمت گاڑیوں میں ڈالنے آئے۔جن مہنگی گاڑیوں پر وہ تشریف لائے ان پر ایکسائز کے محکمے کی جانب سے جاری کردہ نمبر پلیٹ بھی نہیں تھی۔ایک اندازے کے مطابق ان گاڑیوں کو مجموعی قیمت سے کئی شہر آباد کئے جاسکتے ہیں۔ کہانی یہ ہے کہ جب تک عوام کی نمائندگی جاگیر دار اور سرمایہ دار کرتارہے گااس وقت تک عوام کو اس نظام سے خیر کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔عمران خان کرپشن کی سیاست کے باغی ہیں لیکن سینیٹ کے الیکشن میںان کا کردار بھی غیر روایتی دکھائی نہیں دیا۔کپتان کو اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں پر شک رہا کہ وہ فکس میچ کھیل رہے ہیں اس لیے صندوقچی میں سادہ کاغذ اور ووٹ نقد وصول کرنے کا الزام سامنے آیا۔ کپتان کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ ان کے ساتھی مولانا حسرت موہانی جیسے سیاستدان نہیں جو متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں سائیکل پر جایاکرتے تھے۔یہ سیاست ہے جسے فلم سکرین پر ''ڈرٹی پالیٹکس‘‘ کانام بھی دیاگیاہے۔
''ڈرٹی پالیٹکس ‘‘ کے نام سے ہی حال ہی میں ایک بھارتی فلم ریلیز ہوئی ہے جس میں ہمارے دوست اور بھارتی اداکار اوم پوری نے مرکزی کردار ادا کیاہے۔ فلم میں اوم پوری نے ایک کرپٹ سیاستدان کاکردار نبھایا ہے جو اپنی سیاست کیلئے ہر جائز اورناجائزطریقہ کار اپناتے ہوئے اپنے دامن میں کامیابیاں سمیٹتا ہے۔ملیکاشراوت فلم میں ایک سوسائٹی گرل کا روپ دھارے ہوئے ہے جو ایک منصوبہ بندی کے تحت بھارتی صوبے کے وزیراعلیٰ سے قریبی مراسم قائم کرتی ہے۔ سوسائٹی گرل تنہائی میں وزیراعلیٰ کے ساتھ ایسے ویڈیو کلپس بنواتی ہے جس کی بنا پر وہ اسے بلیک میل کرتی ہے۔بھارتی فلم 'ڈرٹی پالیٹکس ‘کے آخر پرکال گرل اور وزیر اعلیٰ کے مابین ناجائز رشتے کی کہانی تو جنتا کے سامنے آجاتی ہے لیکن اپنی ''ڈرٹی پالیٹکس ‘‘ کی اصل کہانیاں ہمیشہ چھپی رہتی ہیں۔ہمارے ''میڈیائی جیمز بھانڈ‘‘ جو انکشافات کرپاتے ہیں وہ سکرپٹ انہیں کہانی، سکرین پلے مع ڈائیلاگ کہاں سے مہیا ہوتے ہیں‘ اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔
پیارے وطن میں ہارس ٹریڈنگ اور ہارس اینڈ کیٹل شو کا شور رہا۔ سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا شور چاروں صوبوں میں سنائی دیا جبکہ پنجاب کے دل لاہور میں صدر ممنون حسین کے ہاتھوں ہارس اینڈ کیٹل شو کا افتتاح بھی بخیر و خوبی انجام پایا۔ہارس اینڈ کیٹل شو میں اعلیٰ نسل کے گھوڑوں، بھینسوں، بیلوں ، مینڈھوں، اونٹوں، بھیڑوں، دنبوں اور بکروں سمیت ددسرے صحت مند جانوروں کی نمائش ہوئی ۔ لاہور میں ہونے والے میلہ مویشیاں میں ناچتی بکریاں اور ٹھمکے لگاتے اونٹوں نے شائقین میلہ کے دلوں کو لبھایا‘ جبکہ دوسرے ''شو‘‘ کی سٹار کاسٹ میں شامل سپرسٹارز، ہیروز ، سائیڈہیروز اور ایکسٹراز کی پرفارمنس سے قومی سیاست کے میدان میں صرف موج میلے کاسما ں ہی پیدا ہوسکا۔ فراز نے کہاتھا:
باغبانوں کو عجب رنج سے تکتے ہیں گلاب
گل فروش آج بہت جمع ہیں گلزار کے بیچ
شیخ رشید نے کہاہے کہ سینیٹ کے الیکشن نے جمہوریت کو اور بھی داغدار کیاہے۔چوہدری شجاعت حسین کے مطابق سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ نہیں کھوتا (گدھا ) ٹریڈنگ ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان نے فرمایاکہ جو لوگ ہمیں چور کہہ رہے تھے وہ خود چور نکلے۔ ان کے فرمان کا مطلب یہ تھاکہ پی ٹی آئی کے بعض اسمبلی ممبران پر الزام عائد کیاگیاہے کہ انہوں نے اپنا ووٹ بیلٹ باکس میں ڈالنے کی بجائے باہر اپنے لیڈر کو ''نقد‘‘ ڈالا۔ماضی قریب ہویا ماضی بعیدمذکورہ تمام قائدین سیاست،اقتدار اور عوامی خدمت کے تاحیات منصوبے میں ایک دوسرے کے شراکت دار رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت مع چوہدری پرویز الٰہی، شیخ رشید اورمیاں برادران کبھی ایک ہوا کرتے تھے ۔ مذکورہ سبھی سیاسی قائدین کی پرورش وپرداخت جنرل محمد ضیا الحق کے غیر سیاسی ڈیری فارموں میں ہوئی۔ جنرل ضیا الحق کا گیارہ سالہ دور ہمارے سیاسی نظام کا ایک ایسا Matrix(رحم مادر) تھا جس سے دہشت گرد،دہشت گردی اور کرپشن کی افزائش نسل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر دور میں ہمارے ہاں یہی ہوتا رہاکہ آرڈر پر مال تیار کرنے کے مصداق جمہوری لیڈر شپ تیار کی جاتی رہی ۔ اس نوع کی کاری گری کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ سومنات انڈسٹری سے مومن پیدا کرلئے گئے۔ ایڈوانس، بیعانہ اور سائی کے طور پر معمولی رقم لے کر شادی بیاہ ،عقیقہ ، گیٹ ٹو گیدر، سالگرہ اور خوشی کے دوسرے مواقع پر رونق میلہ لگانے والے ''کلاکاروں ‘‘ سے کسی انقلابی تحریک کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ ایک جتنے سیاسی قد کاٹھ اور نظریاتی‘ شخصی رتبے کے لوگوں کی کہانیاں اورفسانے ملتے جلتے ہی ہوتے ہیں۔شکیب جلالی نے کہاتھا:
ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں یہ میرا ہی افسانہ تھا
مولانا فضل الرحمان ہمارے ایسے سرسبز سیاستدان ہیں جن کی سیاست محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف ، جنرل پرویز مشرف اور سابق صدر زرداری کے چارمختلف ادوار میں ہری بھری رہی۔ عمران خان کے بارے میں عام تصور پایاجاتاہے کہ وہ پاکستان کی روایتی اور کرپشن سے لدی پھندی سیاست کے باغی ہیں لیکن زرداری صاحب سے ان کی ٹیلی فونک ٹاک کے بعد کہاجارہا ہے کہ ''اور لائن مل گئی‘‘۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔پاکستان کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو اچھرہ کے ذیلدار پارک میں اپنے بدترین سیاسی مخالف مولانا مودودی کے ہاں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔بھٹو صاحب کا مولانا مودودی کے ہاں جانا اس دور کا بہت بڑا سیاسی واقعہ تھا۔انہی دنوں بابا چشتی نے اپنا لکھا اور کمپوز کیاگیت ملکہ ترنم نورجہاں سے گوایا‘ جو فلم کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میںبھی دلچسپی سے سناگیاتھا
ساڈا کلیاں نئیں لگ دا دل وے
مینوں اچھرے موڑتے مل وے
(ہمارااکیلے دن نہیں لگتا،مجھے اچھرے موڑ پر ملو)
سیاست اگر قومی خدمت ہے تو پھر اس میں چٹان کی طرح ڈٹ جانے اور ریت کی طرح بچھ جانے کی دونوں صورتوں میں عوام کا مفاد مقدم ہونا چاہیے‘ لیکن دیکھاگیاہے کہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے والے مفادات کی سیاست کرتے ہوئے وقت آنے پر ایک دوسرے کو متقی اور پرہیز گار تسلیم کرلیتے ہیں۔ فاٹا کے سوا تمام صوبوں کے نتائج سامنے آچکے ہیں جس کے مطابق پی پی پی کی اب سینیٹ میں کل نشستیں 27اور نون لیگ کی کل 26نشستیں ہیں‘ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ فاٹا کے اراکین ہمیشہ حکومت کی جھولی میں گرتے ہیں۔یہ امکان بھی ظاہر کیاجارہاہے کہ آصف زرداری اپنی سیاسی گگلی سے کھیل کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔نون لیگ اگرچہ جوڑ توڑ کے موجودہ سیاسی نظام کے بانیوں میں شامل ہے لیکن میا ں برادران کے حوالے سے کہاجاتاہے کہ ان میں Elasticity Political (سیاسی لچک) کی کمی کے باعث معاملات بگڑ جاتے ہیں۔تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف وفاقی ''فنڈز‘‘ ہیں تو دوسری طرف صوبائی ''فنڈز‘‘ کے ساتھ افہام وتفہیم کا شہد اورمکھن بھی ہے۔
اپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ نے کہاہے کہ وزیر اعظم میاں نوازشریف کا سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ نہ ڈالنا پارلیمانی نظام کی توہین ہے۔ فاٹا کے اراکین اور الیکشن کے حوالے سے راتوں رات صدارتی آرڈی نینس لاکر کھلم کھلا ہارس ٹریڈنگ کی گئی۔ وزیراعظم نوازشریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب سینیٹ کے الیکشن کے دن سعودی عرب تشریف لے گئے ۔وزیر اعظم تو سعودی عرب اور پاکستان کے پرانے رشتے کو مضبوطی کا نیاجوڑ لگانے میں مصروف رہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچے جہاں انہوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ میاں برادران ملک کے و زیراعظم اور سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن دونوں ایوانوں میں کم ہی جلوہ گر ہوتے ہیں۔ایسے اداروں، ایوانوں اور درباروں میں عوام کی بھلائی کیلئے کیاکارنامہ سرانجام دیاجاسکتاہے جس کے سربراہ ابنِ بطوطہ یا سندباد کا ریکارڈ توڑنے میں مصروف ہوں۔
سینیٹ کے الیکشن میں ہمارے محبان اپنا قیمتی ووٹ اپنی بیش قیمت گاڑیوں میں ڈالنے آئے۔جن مہنگی گاڑیوں پر وہ تشریف لائے ان پر ایکسائز کے محکمے کی جانب سے جاری کردہ نمبر پلیٹ بھی نہیں تھی۔ایک اندازے کے مطابق ان گاڑیوں کو مجموعی قیمت سے کئی شہر آباد کئے جاسکتے ہیں۔ کہانی یہ ہے کہ جب تک عوام کی نمائندگی جاگیر دار اور سرمایہ دار کرتارہے گااس وقت تک عوام کو اس نظام سے خیر کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔عمران خان کرپشن کی سیاست کے باغی ہیں لیکن سینیٹ کے الیکشن میںان کا کردار بھی غیر روایتی دکھائی نہیں دیا۔کپتان کو اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں پر شک رہا کہ وہ فکس میچ کھیل رہے ہیں اس لیے صندوقچی میں سادہ کاغذ اور ووٹ نقد وصول کرنے کا الزام سامنے آیا۔ کپتان کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ ان کے ساتھی مولانا حسرت موہانی جیسے سیاستدان نہیں جو متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں سائیکل پر جایاکرتے تھے۔یہ سیاست ہے جسے فلم سکرین پر ''ڈرٹی پالیٹکس‘‘ کانام بھی دیاگیاہے۔
''ڈرٹی پالیٹکس ‘‘ کے نام سے ہی حال ہی میں ایک بھارتی فلم ریلیز ہوئی ہے جس میں ہمارے دوست اور بھارتی اداکار اوم پوری نے مرکزی کردار ادا کیاہے۔ فلم میں اوم پوری نے ایک کرپٹ سیاستدان کاکردار نبھایا ہے جو اپنی سیاست کیلئے ہر جائز اورناجائزطریقہ کار اپناتے ہوئے اپنے دامن میں کامیابیاں سمیٹتا ہے۔ملیکاشراوت فلم میں ایک سوسائٹی گرل کا روپ دھارے ہوئے ہے جو ایک منصوبہ بندی کے تحت بھارتی صوبے کے وزیراعلیٰ سے قریبی مراسم قائم کرتی ہے۔ سوسائٹی گرل تنہائی میں وزیراعلیٰ کے ساتھ ایسے ویڈیو کلپس بنواتی ہے جس کی بنا پر وہ اسے بلیک میل کرتی ہے۔بھارتی فلم 'ڈرٹی پالیٹکس ‘کے آخر پرکال گرل اور وزیر اعلیٰ کے مابین ناجائز رشتے کی کہانی تو جنتا کے سامنے آجاتی ہے لیکن اپنی ''ڈرٹی پالیٹکس ‘‘ کی اصل کہانیاں ہمیشہ چھپی رہتی ہیں۔ہمارے ''میڈیائی جیمز بھانڈ‘‘ جو انکشافات کرپاتے ہیں وہ سکرپٹ انہیں کہانی، سکرین پلے مع ڈائیلاگ کہاں سے مہیا ہوتے ہیں‘ اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved