میرے بچے کھچے دوستوں میں ایک کلیم خاں بھی ہیں ، خدا ان کی عمر دراز کرے۔ ان کالموں میں ان کا ذکر خیر ہوتا رہتا ہے اس لیے قارئین ان سے واقف ہوچکے ہوں گے، مزید یہ کہ ان کے بارے یہ شعر ؎
ستم ظریفی قسمت تو دیکھیے کہ ظفرؔ
چُھٹی شراب تو یاری کلیم خاں سے ہوئی
تمام سرحدیں پار کرکے بھارت بھی جا پہنچا جس کا پتا اس طرح چلا کہ پچھلے سال وہاں سے مجھے ایک شعری مجموعہ موصول ہوا ،جس کے انتساب والا صفحہ شاعر نے اس شعر سے سجا رکھا تھا۔ واضح رہے کہ اوکاڑہ میں ان بھائیوں کی شراب کی دکان تھی، لاہور شفٹ کرتے وقت جو اپنے کارندے اور دوست محمد اقبال کے سپرد کر آئے تھے، اور اس طرح ان لوگوں کے ساتھ گزارے ہوئے یاد گار دن خواب ہوکر رہ گئے۔
اس لمبی تمہید کے بعد یہ انتہائی اندوہناک خبر بھی کہ کلیم خاں کے بڑے بھائی محمد فاروق خاں کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد اگلے روز اللہ میاں کو پیارے ہوگئے۔ یہ محض کلیم خاں ہی کا نہیں بلکہ میرا بھی نقصان تھا اور یہ صدمہ ہمارے لیے مشترکہ ہے، چنانچہ جاننے والوں نے میرے ساتھ بھی اس پر اظہار افسوس کیا۔ میرا اصل یارانہ تو کلیم خاں کے ساتھ تھا، تاہم فاروق خاں کے ساتھ تعلق یوں استوار ہوا کہ وہ بھی روٹری کلب اوکاڑہ کے فعال رکن بلکہ اس کے عہدیدار بھی رہے تھے ،جس کا دفتر میاں رفیع کی اوکاڑہ فلور مل میں تھا اور جس کے ماہانہ ڈنر اجلاس باری باری ہر ممبر کے ہاں منعقد ہوا کرتے تھے اور یہی غالباً روٹری کلب کی روایت بھی تھی۔
میرے پاس ایک فریم شدہ گروپ فوٹو ہے جو ستلج کاٹن ملز اوکاڑہ میں ایک اجلاس کے دوران اتارا گیا تھا، جس کے میزبان مل ہٰذا کے مالک گجا نند ڈالمیا تھے۔ اس تصویر میں فاروق خاں اپنی سدا بہار مسکراہٹ چہرے پر سجائے براجمان نظر آتے ہیں۔ ممبران میں اوکاڑہ کی تقریباً ساری ایلیٹ شامل تھی جس میں نمایاں ترین شیخ محمد ریاض تھے جو ٹینس کے کھلاڑی تھے اور جن کا دوسرا نام بڑے بھائی پڑا ہوا تھا اور جو پیپلزپارٹی کے پہلے دور میں شہر سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ پہلے پارٹی اجلاس میں شیخ ریاض کو صدر، مجھے سینئر نائب صدر اور رانا اظہر کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری چنا گیا۔ پارٹی اجلاس پہلے پہلے روٹیرین شیخ عبدالسلام کی بلڈنگ میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ یہ داستان بہت طویل ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ پارٹی جو صحیح معنوں میں ایک نظریاتی جماعت ہوا کرتی تھی، بھٹو صاحب اس میں رفتہ رفتہ
ٹوانوں ، سجادہ نشینوں ، قریشیوں اور کھوسوں کو شامل کرتے گئے اور اس کا نظریاتی رنگ پھیکا پڑتا گیا اور مجھے کہنا پڑا کہ ؎
ہم نے جدوجہد کرنا تھی‘ ظفرؔ ، جن کے خلاف
وہ سبھی آکر ہماری صف میں شامل ہو گئے
حتیٰ کہ پارٹی کو سب سے پہلے میں نے چھوڑا،جس کے بعد حنیف رامے اور معراج محمد خاں وغیرہ پارٹی کو خیرباد کہہ گئے اور بالآخر مجھے اس کے خلاف اے این پی کے ٹکٹ پر 1977ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا پڑا اور بعد میں جب جنرل ضیاء الحق نے سیاست میں کلاشنکوف، برادری ازم اور پیسہ متعارف کرایا تو عملی سیاست سے توبہ تائب ہوئے اور کانوں کو ہاتھ لگائے۔
اوکاڑہ سے آکر فاروق خاں نے قالینوں کا بزنس شروع کردیا۔ ان کا شو روم ٹی وی سنٹر لاہور کے مین گیٹ کے تقریباً سامنے غالباً امپیریل کارپٹس کے نام سے قائم تھا، جسے وہ اپنے چھوٹے بھائی جاوید خاں کے ساتھ چلاتے تھے۔جب کبھی دن کے وقت کسی مشاعرے وغیرہ کی ریکارڈنگ ہوتی تو میں فاروق خاں سے بھی لازمی طور پر مل لیتا تھا لیکن ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے بھی پرانے تعلق کو صحیح معنوں میں برقرار نہ رکھا جاسکا اور یہ کبھی کبھار کا ملنا ہی باقی رہ گیا، حتیٰ کہ کلیم خاں سے بھی کافی دیر رابطہ منقطع رہا کیونکہ انہوں نے مکان تبدیل کرلیا تھا اور ساتھ ہی ان کا فون نمبر بھی تبدیل ہوگیا تھا کہ اس زمانے میں ابھی موبائل فون متعارف نہ ہوا تھا، البتہ ایک دن اچانک ان سے ڈاکٹر محمود احمد کے جنازے پر سرسری ملاقات ہوگئی جو شیخ زاید ہسپتال کے چیئرمین اور میرے پرانے کلاس فیلو تھے جبکہ کچھ عرصے بعد ان کے بڑے بھائی میاں مقبول احمد ‘جو شاعر بھی ہیں‘ میرے سمدھی بن گئے کہ میرے چھوٹے بیٹے جنید اقبال کی شادی ان کی دختر نیک اختر کے ساتھ انجام پائی۔اگرچہ دوستی کا رشتہ ان کے ساتھ پہلے سے قائم تھا کہ چیف انجینئر تھے اور مشاعرے وغیرہ کرواتے رہتے تھے۔ تاہم اس روز چونکہ افراتفری کا عالم تھا اس لیے کلیم خاں سے کوئی بات نہ ہوسکی اور بعد میں اپنے مشترکہ دوست اوکاڑہ کے الحاج چودھری محمد سجاد سے ان کا فون نمبر لیا اور ان کے ساتھ ٹوٹا ہوا رابطہ بحال ہوا۔
اگر مردانہ وجاہت ، نفاست اور عمدگی کو یکجا اور مجسم کردیا جائے تو فاروق خاں بنتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیچھے بیوہ اور ایک بیٹی، بیٹا سوگوار چھوڑے ہیں اور ایک عرصے تک نہ انہیں مرحوم لکھا جاسکتا ہے نہ سمجھا جاسکتا ہے۔ ساڑھے تراسی برس کی عمر میں بھی توانا اور تنو مند تھے اور اتنی عمر کے لگتے ہی نہیں تھے ۔ مصطفی زیدی جب ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر ہوکر آئے تو اس فیملی کے ان کے ساتھ پہلے ہی گہرے تعلقات تھے۔ ظاہر ہے کہ شاعر ہونے کے حوالے سے میرا آنا جانا بھی موصوف کے ہاں رہا ،جن کی غیر ملکی بیگم کی ایک اپنی شخصیت تھی۔ پچھلے سال مجھے فاروق خاں نے فون پر کہا کہ اگلے ماہ مصطفی زیدی کی برسی ہے، اگر آپ اس حوالے سے کچھ لکھ سکیں لیکن میں طرح دے گیا کیونکہ موصوف کی شاعری کبھی میرے حساب کتاب میں آئی ہی نہ تھی۔ فاروق خاں اورمیرا یہ آخری رابطہ تھا ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آج کا مقطع
ظفرؔ، مرے خواب وقتِ آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جا رہا تھا