مشکلات سے نجات پانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اُن پر قابو پانے کی کوشش کیجیے۔ دنیا بھر میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے مگر یہ طریقہ ہے بہت مشکل۔ جو طریقہ کوشش اور جدوجہد پر مشتمل ہو وہ تو مشکل ہی ہوگا۔ دوسرا (اور پاکستانی قوم کا آزمایا ہوا) طریقہ یہ ہے کہ ہر مشکل کو آنے دیجیے۔ جب آپ اُسے مُنہ نہیں لگائیں گے یعنی اُس کے تدارک کی کوشش ہی نہیں کریں گے تو کچھ ہی دنوں میں وہ بے توقیری کا زہر پی کر دم توڑ دے گی یعنی شرم سے ڈوب مرے گی! مشکلات سے نجات پانے کا یہ طریقہ ہم نے اِتنی بار آزمایا ہے کہ اب ہم دوسری اقوام کے لیے بھی عملی نمونہ بن گئے ہیں۔
ایران میں ایک انوکھا بھکاری سامنے آیا ہے جو (خالص پاکستانی ذہنیت پر عمل کرتے ہوئے) مشکلات دُگنی کرکے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص شہر کے مصروف چوراہے پر تختی لگائے بیٹھا ہے۔ بھیک مانگنے والوں کی تو ایران میں بھی کمی نہیں۔ عالمی اقتصادی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو بھی ایسا غیر مستحکم کیا ہے کہ اب لوگ اپنے اور اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے میں بھی شدید دِقّت محسوس کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں یہ انوکھا بھکاری محض پیٹ بھرنے کی بات نہیں کر رہا بلکہ ''انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘ کی عملی تعبیر بنا ہوا ہے۔ ایک طرف ایرانیوں کا یہ حال ہے کہ بڑی مشکل سے گزارا کر پارہے ہیں‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی مشکلات بھی بڑھتی جارہی ہیں‘ لوگ ایک بیوی اور دو تین بچوں کے ساتھ زندہ رہنے کو بھی اپنے وجود کا درجۂ کمال سمجھ کر خوش ہیں اور دوسری طرف یہ حضرت ہیں کہ ایک نہیں، دو بیویاں رکھنا چاہتے ہیں اور اِس سلسلے میں قوم سے مدد چاہتے ہیں! بھیک مانگنے کے لیے بنوائی جانے والی تختی پر لکھا ہے : ''میری خواہش ہے کہ میری دو بیویاں ہوں۔ اِس سلسلے میں آپ کا تعاون درکار ہے۔ میری یہ خواہش پوری کرنے میں میری مدد کیجیے۔ اُمید ہے کہ آپ اِس خواہش کی تکمیل میں معاونت فرمائیں گے۔‘‘
اب کیجیے بات! جہاں لوگ ایک گھرانہ نہیں چلا پارہے‘ وہاں یہ بھکاری دو گھرانوں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھانا چاہتا ہے‘ اور وہ بھی اہلِ وطن کی مدد سے!
فی زمانہ ایک بیوی کو رکھ پانا کئی اعتبار سے کارنامہ سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی چاہے تو حکومت سے تمغۂ شجاعت کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے! سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی اب ایک منکوحہ کے ساتھ زندگی بحسن و خوبی گزار دے تو اُسے بروزِ جزا زیادہ حساب کتاب کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ بقول شعریؔ بھوپالی ؎
تصدّق تیری رحمت کے جزا دے ہم کو محشر میں
سزا کا جو زمانہ تھا وہ دنیا میں گزار آئے!
ایسے میں اگر کوئی دو بیویوں کا قصد کرے تو لوگوں کے ذہن میں فوراً یہ خیال کوندتا ہے کہ شاید دماغ کی کوئی چُول ڈھیلی ہوگئی ہے‘ یعنی یہ کہ جو دماغ چلتا ہی نہیں تھا‘ وہ چِل گیا ہے! معاشرے میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ جب کسی کو اپنا شُکر گزار بنانا چاہتی ہے تو اُسے کسی ایسے آدمی کے نزدیک کردیتی ہے جس کی دو بیویاں ہوں۔ اُس کا حشر نشر دیکھ کر سَر خود بخود سَجدۂ شکر بجا لاتا ہے‘ اور یوں اپنی ساری مشکلات قدرے کم تکلیف دہ محسوس ہونے لگتی ہیں!
ایسے میں دو بیویاں رکھنے کی خواہش! یہ خواہش اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اِنسان دو عالم سے بیگانہ ہوکر اپنا بھلا نہ چاہنے کی روش پر گامزن رہنا چاہتا ہو۔ آنکھوں دیکھی مَکّھی (بلکہ مَکّھیاں!) کون نگلتا ہے؟ آپ سوچیں گے کہ جب فی زمانہ ایک بیوی رکھنا شُجاعت کا مظاہرہ ہے تو دو بیویاں رکھنا دُگنی شُجاعت کا مظاہرہ یا پھر شُجاعت کا دُگنا مظاہرہ ہوا۔ منطقی اعتبار سے آپ کا خیال درست ہے مگر عمل کی کسوٹی پر پرکھیے تو نتیجہ آپ کو پسند نہ آئے گا۔
کھانا اچھا ہو تو پیٹ بھر کھایا جاتا ہے۔ مگر پیٹ بھر جانے کے بعد بھی کھایا جائے تو؟ ظاہر ہے، بدہضمی ہوجاتی ہے اور پچھلا کھایا پیا بھی باہر آجاتا ہے! یہی حال شادی کا بھی ہے۔ بہت سے لوگ محض اِس لیے دوسری شادی کر بیٹھتے ہیں کہ دِل یہی چاہ رہا تھا۔ دِل کا کیا ہے، وہ تو چاند کو چُھونے کی بھی فرمائش کرے گا تو کیا آپ کیبل والوں سے سیڑھی لے کر چاند کو ہاتھ لگانے کی کوشش کریں گے؟ یقینا آپ ایسا نہیں کریں گے۔ تو پھر شادی کے معاملے میں دُگنا جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
دو بیویاں رکھنے کے لیے ہاتھ پھیلانے والے نے پولیس کو بھی عجیب اُلجھن سے دوچار کر رکھا ہے۔ بھیک مانگنے پر ایران میں بھی قانوناً پابندی ہے اور پولیس بھکاریوں کے خلاف کارروائی بھی کرتی ہے۔ مگر دو بیویاں ''افورڈ‘‘ کرنے کی خاطر بھیک مانگنے والے کے خلاف کارروائی سے پولیس گریز کر رہی ہے۔ کیوں؟
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا فرمان راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے‘ دو بیویاں رکھنے کی خواہش اور اِس حوالے سے بھیک مانگنے کا ایرانی سپریم لیڈر کے فرمان سے کیا تعلق؟
بات یہ ہے جناب کہ ایک طرف ایران کی اقتصادی مشکلات ہیں اور دوسری طرف معاشرتی اُلجھنیں۔ پابندیوں سے معیشت ڈانوا ڈول ہوئی ہے تو لوگوں کے لیے گزارا مشکل ہوگیا ہے۔ جب اپنی ذات کا بوجھ اُٹھانا ہی ''مشن‘‘ بن جائے تو گھر بسانے کا کون سوچے؟ ایسے میں نئی نسل، ظاہر ہے منطقی طور پر، دیر سے شادی کو ترجیح دے رہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آبادی میں اِضافے کی شرح تیزی سے گِر رہی ہے۔ خامنہ ای چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم شرحِ پیدائش برقرار رکھے۔ اُنہوں نے قوم پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرے۔
پولیس حیران و پریشان ہے کہ دو بیویاں رکھنے کی خاطر بھیک مانگنے والے کے خلاف کارروائی کرے یا اُس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے! اُصولی اور منطقی طور پر دیکھا جائے تو دو بیویاں رکھنے کے لیے بھیک مانگنے والا اپنے سپریم لیڈر کے فرمان پر عمل کر رہا ہے! وہ آبادی میں اضافے کے ''مشن‘‘ پہ نکلا ہے۔ ایسے میں اگر پولیس اُس کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو اُس پر (یعنی پولیس پر) سپریم لیڈر کے فرمان پر عمل کرنے والے کے خلاف کارروائی کا الزام بھی عائد کیا جاسکتا ہے! ایرانی پولیس شش و پنج میں پھنس گئی ہے۔ دوسری طرف دو بیویوں کی خواہش رکھنے والا بھی ''شش و پنج‘‘ میں دکھائی دیتا ہے یعنی چھ اور پانچ ... گیارہ بچے پیدا کرنے کا خواہش مند ہے! اُس کی خواہش نے لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔ بھیک کی تختی پڑھنے کے بعد لوگ سوچتے ہیں کہ بھائی، تجھے جو کچھ کرنا ہے شوق سے کر مگر خرچہ ہمارے مَتّھے کیوں مارنا چاہتا ہے؟ یہ تو خالص پاکستانی مزاج ہے یعنی جو کرنا ہے کر گزریے، جنہیں بھگتنا ہے وہ بھگتتے رہیں گے!
ویسے ایرانی بھکاری مزے میں رہا کہ سپریم لیڈر کے فرمان کی تعمیل کے نام پر دو شادیاں کرنے چلا ہے اور وہ بھی اہلِ وطن کی معاونت سے۔ ہمارے ہاں تو بیشتر شادی شدہ افراد کا معاملہ یہ ہے کہ شادی کے بعد (پہلی) بیوی ہی کو سپریم لیڈر مان کر اُس کے ہر فرمان پر عمل کرتے رہتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ گھریلو سپریم لیڈر دوسری شادی کا فرمان کبھی بھول کر بھی جاری نہیں کرسکتی اِس لیے دوسری شادی اور اُس کے لیے بھیک مانگنے کی نوبت بھی نہیں آتی! یعنی ایک ہی شادی ہزار پریشانیوں سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ بھیک مانگنے کی ذِلّت سے بھی بچاتی ہے! چلیے، بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی۔