2014ء کے انتخابات کے نتیجے میں اس وقت افغانستان میں اشرف غنی کی قیا دت میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جسے ایک طرف دنیا بھر میں خوش دلی سے تسلیم کیا گیا ہے تو دوسری طرف اس میں افغانستان کے تمام نسلی طبقوں کو بھی نمائندگی حاصل ہے۔ شاید وقت کو اسی ماحول کا انتظار تھا جب افغانستان کو اپنے مہاجرین کو واپس اپنے قومی دھارے میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ امریکہ اور نیٹو افواج اپنا تیرہ سالہ آپریشن مکمل کر تے ہوئے جزوی طور پر واپسی کاسفر شروع کر چکی ہیں لیکن افغانستان کے ساتھ ان کا دو طرفہ سکیورٹی معاہدہ ہو چکا ہے اور اس سٹریٹجک معاہدے کے تحت امریکہ اور نیٹو ممالک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے بھر پور مدد کریں جو پاکستان کی سکیورٹی اور معیشت کیلئے بہت بڑا بوجھ اور خطرہ بن چکے ہیں۔اس کیلئے اقوام متحدہ اور اس کے ادارے یو این ایچ سی آر کو آگے بڑھتے ہوئے یورپی یونین کے رکن ممالک سمیت امریکہ اور نیٹو کو باور کرانا ہو گا کہ اب وقت آ پہنچا ہے کہ سب افغان مہاجرین کو اپنے ملک واپس چلے جانا چاہئے۔ اب ان تمام ممالک جنہوں نے نائن الیون کے بعد امریکہ کے افغانستان آپریشن میں بھر پور مدد کی‘ کو بھی اس سلسلے میں آگے آنا ہو گا اور اس کیلئے پاک افغان سرحد پر مشکوک افراد کی آمدو رفت روکنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لانا ہو گا۔ کلنٹن اوربش سے لے کر اوباما تک سبھی پاکستان پر فاٹا سے دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کیلئے دبائو بڑھاتے رہے۔ اس سلسلے میں جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا لب و لہجہ تو اکثر اس قدر احمقانہ اور سخت ہو تا تھاکہ پاکستان کی فوجی قیادت کو بھی مجبوراً اسی لہجے میں پوچھنا پڑا کہ ''جناب والا! چترال سے افغانستان کی ملحقہ سرحد سے وہ مسلح جتھے‘ جو آئے دن پاکستان کے شہریوں اور سکیورٹی اداروں پر حملہ کرنے کیلئے بھیجے جا رہے ہیں‘ کہاں سے آتے ہیں اور پھر واپس کہاں جا کر غائب ہو جاتے ہیں‘‘۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ امریکہ، نیٹو اور ایساف کی فوجیں‘ جو افغانستان کے ایک ایک چپے کی حفاظت کر رہی تھیں‘ انہوں نے چترال کے افغانستان سے ملحق پچاس کلومیٹر کا علاقہ ''نو مین لینڈ‘‘ قرار دے رکھا تھا؟
پاکستان دنیا کی ہر اس طاقت سے‘ جو دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے‘ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ بلوچستان میں اسلحہ کے انبار کہاں سے آ رہے ہیں اور کن لوگوں کو سپلائی کئے جا رہے ہیں؟ ان لوگوں کو جو پاکستان کی املاک، شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر آئے روز حملے کر رہے ہیں؟ افغانستان کا سرکاری ریکارڈ اس امر پر گواہ ہے کہ جب افغانستان میں کرزئی حکومت قائم تھی تو اس میں عبداﷲ عبداﷲ اور دوستم جیسے انتہائی بااثر لوگوں نے افغان پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی تربیت کیلئے بھارت کی خدمات حاصل کیں اور لاتعداد بھارتی عملہ‘ جس میں بری، فضائی فوج اور را سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے‘ افغانستان میں اہم عہدوں پر فائز کیے گئے اور انہوں نے گذشتہ چار برسوں میں چن چن کر کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو فوج اور خفیہ اداروں میں بھرتی کیا۔ امریکی اور مغربی میڈیا اس بات سے
کس طرح بے خبر ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں روسی جارحیت کی مدد کرنے والوں میں بھارتی ''را‘‘ پیش پیش تھی۔ بھارتی ایجنسیوں کے ذریعے بھرتی کردہ یہی وہ کمیونسٹ تھے جنہوں نے خود اور ان کی اگلی نسل نے افغان جنگ اور پھر طالبان دور میں پاکستان اور ایران کے مہاجر کیمپوں میں پناہ لی۔ ان میں سے لاکھوں افراد نے پاکستان میں اپنے کاروبار چمکا لیے لیکن ان کی پاکستان دشمنی اسی طرح قائم رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کابل میں ربانی کی حکومت تھی تو گلبدین حکمت یار کے ساتھ لڑائی میں ان کمیونسٹوں نے ربانی کا ساتھ دیا تھا کیونکہ اس وقت پاکستان حکمت یار کی مدد کر رہا تھا۔ قطع نظر اس کے کہ اس وقت حکمت یار کی مدد درست فیصلہ تھا یا غلط‘ ان کمیونسٹوں کا نشانہ پاکستان تھا اور انہی لوگوں نے اس وقت بھارت کی مدد سے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کو آگ لگائی تھی۔
نائن الیون سے لے کر آج تک افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کی آمد روکنے کیلئے امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ کوئی مشترکہ حل کیوں نہیں نکل سکا؟ پاکستان کے عسکری حکام کے بار بار مطالبات کے باوجود پاک افغان سرحد پر سات یا آٹھ مقامات پر 38 کلومیٹر لمبی باڑ کیوں نہیں لگائی گئی؟ اس کے بعد پاکستان کی جانب سے بلوچستان کی افغانستان سے لگنے والی 350 کلومیٹرکے لگ بھگ سرحد پر باڑ لگانے کیلئے امریکہ اور نیٹو کے اعلیٰ حکام سمیت واشنگٹن انتظامیہ سے ہر ملاقات میں مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر الیکٹرک باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ بائیو میٹرک سسٹم نصب کر دے لیکن سنی ان سنی کی جاتی رہی۔ افغانستان میں اپنی ٹھونسی ہوئی جنگ پر امریکہ اب تک کھربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے‘ اس کے اور اتحادی فوجوں کے سینکڑوں کی تعداد میں اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ کیا وہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کیلئے پاک افغان سرحد پر باڑ نہیں لگوا سکتا تھا؟ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے اور سوال اس وقت یہ نہیں کہ باڑ لگانے کی اجازت کسی طرف سے ملتی ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی بے تحاشا آمد کو کیسے روکے؟ بھارت کی مثال سب کے سامنے ہے کہ پورے پنجاب میں آہنی باڑ لگانے کے بعد اب وہ لائن آف کنٹرول پر بھی باڑ لگا چکا ہے۔ سوات مالا کنڈ، باجوڑ اور وزیرستان میں پاکستان حالت جنگ میں ہے اور اس کی فورسز اور پر امن شہریوں پر آئے روز کے خود کش حملے نا قابل برداشت ہیں۔ بات اس وقت پاکستان کی سالمیت کی ہے اور اس میں ذرا سا بھی شک نہیں رہ گیا کہ بلوچستان ہو یا وزیرستان‘ سوات ہو یا خیبر پختون خوا وہاں کے عوام پر کئے جانے والے سب حملوں کے پیچھے پاکستان دشمن بیرونی طاقتیں مصروف کار ہیں‘ جنہیں امریکہ کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل رہی ہے۔
اگر میکسیکو اور امریکہ کے درمیان باڑ لگ سکتی ہے تو وزیرستان اور بلوچستان کی افغانستان کے ساتھ لگنے والی سرحد پر کیوں نہیں؟ اگر بھارت آج سے 30 سال پہلے سکھوں کی طرف سے شروع کی گئی خالصتان تحریک کے دوران پنجاب کی سینکڑوں کلومیٹر طویل سرحد پر آہنی باڑ لگا سکتا ہے‘ شام پانچ بجے کے بعد اس باڑ میں بر قی روچھوڑ سکتا ہے تو امریکہ اور نیٹو بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت روکنے کیلئے باڑ کیوں نہ لگا سکے؟ دسمبر 2006ء اور جنوری 2007ء میں جب جنرل مشرف نے یہاں باڑ لگانے کی بات کی تو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے کچھ رہنمائوں نے شور مچا دیا تھا کہ دونوں طرف ہم پشتونوں کی رشتہ داریاں ہیں ہم یہ باڑ برداشت نہیں کریں گے۔ اب چونکہ خیبر پختونخوا میں وہ پانچ سال تک حکومت کر چکے ہیںاس لئے اچھی طرح جان گئے ہوں گے کہ انہوں نے حالات اور معاملات کا کس قدر غلط اندازہ لگایا تھا۔ جس وقت جنرل مشرف یہ باڑ لگانے کی بات کر رہے تھے تو اس وقت اپوزیشن کی سیاست کی جا رہی تھی۔ افسوس کہ انہوں نے ملکی سلامتی پر اپنے مفادات کو ترجیح دی جس کا خمیازہ آج معصوم عوام اپنی جانوں اور املاک کی تباہی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ ملک کی سلامتی تمام رشتوں سے زیا دہ عزیز ہوتی ہے۔ اس کی واضح مثال ہم سب کے سامنے ہے کہ بھارتی حکومت پنجاب کے بعد نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کو کئی مقامات پر آہنی باڑ لگا کر بند کر چکی ہے!