تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     08-03-2015

اسٹوپڈ؟

آج کسی اور موضوع پر لکھنا‘قوم کی خوشیوں میں شریک ہونے سے گریز ہے‘ میں یہ گریز کیوں کروں؟کبھی کبھار ہمیں اجتماعی خوشی نصیب ہوتی ہے۔اس سے دل بھر کے لطف اندوز ہونا چاہئے۔صرف ایک بدنصیب شخص ایسا ہے‘ جس کو قوم کی یہ خوشی ایک آنکھ نہیں بھائی اور اس نے انٹرنیشنل سپورٹس جرنلسٹوں کی میڈیا کانفرنس میں‘ اپنے جلے ہوئے دل کا دھواں چھوڑا اور بدتمیزی سے واک آئوٹ کر گیا۔ یہ موصوف ماضی کے نامور بائولر اور قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ‘وقار یونس تھے۔ خدا جانے نوجوان حافظ قرآن‘ وکٹ کیپر‘ سرفراز احمد کے لئے‘ ان میں خبثِ باطن کیوں ہے؟ اس نوجوان نے پاکستانی ٹیم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟ہم جو زمبابوے اور متحدہ عرب امارات کی ٹیموں سے مقابلے کر کے خوش ہوتے ۔ ورلڈکپ کے لئے فیورٹ ٹیموں میں سے ایک‘ سائوتھ افریقہ کے مقابلے میں کھیلے اور اسے چار وں شانے چت کر دیا اور اس کی واحد وجہ‘ ایک نوجوان کھلاڑی سرفرازاحمد کی ٹیم میں شمولیت تھی۔ وہ بطور اوپنر آیا‘ اورمخالف ٹیم کے بائولرز کو بے دھڑک ‘ تین چھکے لگا کر پیغام دیا کہ پاکستانی بیٹسمین‘ انہیں کیا سمجھتے ہیں؟سچی بات ہے ایسی جرأت رندانہ‘ کوئی نوجوان ہی کر سکتا ہے۔ورنہ ہمارے بیٹسمین تو جنوبی افریقہ کے بائولرز کو بڑے ادب اور خوف سے کھیلتے تھے اور سچی بات ہے‘ ہر طرف یہی چرچے تھے کہ پاکستان‘ جنوبی افریقہ کی مضبوط ٹیم کا سامنا نہیں کر پائے گا۔ آپ تمام تبصرے اور تجزئیے یاد کر لیجئے ‘ کسی ایک نے بھی یہ اندازہ نہیں کیا تھا کہ پاکستان‘ جنوبی افریقہ کو بری طرح سے شکست دے گا۔پاکستان نے ایسا کر دکھایا اور بلاشبہ اس کا سہرا‘ ہمارے نوجوان وکٹ کیپر کے سر ہے۔سرفرازاحمد نے مخالف ٹیم کے چھ بہترین بیٹسمینوں کے مشکل ترین کیچ پکڑ کر ‘ انہیںواپس پویلین بھیج دیا۔اگر ہم اسی وکٹ کیپر کے ساتھ کھیلتے‘ جس نے ورلڈکپ کے دوسرے میچ کھیلے ہیں‘ تو جنوبی افریقہ سے جیتنے کا سوال ہی نہیں تھا کیونکہ وہ تو ہاتھوں میں آئی ہوئی گیندیں‘ چھوڑتے رہے ہیں۔چیتے کی طرح لپک کر گیند کو دبوچنا ‘ کسی مکمل وکٹ کیپر کا کام ہے۔دنیا نے دیکھ لیا کہ ایک پورا وکٹ کیپر ٹیم میں موجود ہو‘ تو وہ کیا سے کیا کر سکتا ہے؟
ایسا نہیں کہ پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ کی طرح‘
سپورٹس جرنلسٹس ‘ کھیل کے ماہرین اور کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والے پاکستانی عوام‘ سرفراز کو جانتے نہیں تھے۔ ہر طرف سے ایک ہی مطالبہ آرہا تھاکہ سرفراز کو کھلایا جائے۔دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر‘ جو ماہرین تبصرے کرتے ہیں وہ بار بار تقاضا کر رہے تھے کہ سرفراز کو کھلایا جائے اور وہ اپنے موقف کو مختلف دلائل کے ساتھ پیش کرتے رہے۔حد یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین‘ شہریار خان نے میڈیا کے سامنے واضح الفاظ میں رائے دی کہ سرفرازاحمد کو ٹیم میں شامل کرنا چاہئے۔ اس کے باوجود اڑیل ہیڈ کوچ‘ اپنی ضد پر اڑا رہا اور بلاوجہ ایک نوجوان کھلاڑی کا کیرئیر تباہ کرنے کی ضد کی۔جب اس سے سرفراز کو نہ کھلانے کی وجہ پوچھی گئی تو اس کا جواب تھا کہ میں اس کا کیرئیر خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ہمیں اوپننگ بیٹسمین کی ضرورت ہے جبکہ وہ چھٹے ساتویں نمبر کا بیٹسمین ہے اوربطور وکٹ کیپر‘ بھی اس کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔جب چیئرمین اور عوام کے دبائو پر‘ سرفراز کو ٹیم میں شامل کرنا پڑا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس شخص نے‘ اپنی طرف سے یہ سوچ کر سرفراز کو ٹیم میں شامل کیا کہ وہ بری طرح سے ناکام ہو گا لیکن قدرت کا اپنا نظام ہے۔سرفراز کی قسمت میں عروج لکھا تھا اور قسمت کے لکھے کو کوئی نہیں مٹا سکتا‘ حتیٰ کہ وقار یونس بھی۔سرفراز‘ ٹیم میں آیا اور چھا گیا۔ورلڈکپ کے اپنے پہلے ہی میچ میں‘ اس نے مین آف دی میچ کا اعزاز حاصل کر کے‘ ہیڈ کوچ کی گھٹیا ضد کوٹھوکر سے اڑاتے ہوئے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ جس مقام کا حقدار تھا‘ کس بے رحمی کے ساتھ سرفراز کو اس سے محروم رکھا گیا۔ آج کے بعد ‘وہ نہ صرف ورلڈ کلاس وکٹ کیپر ہے بلکہ اوپننگ بیٹسمین بھی ہے۔غالباً امتیازاحمد کے بعد‘ یہ دونوں صلاحیتیں رکھنے والا‘ پہلا مکمل وکٹ کیپر اوپنر آیا ہے۔ اس ایک لڑکے نے بے مثال کارکردگی دکھا کر‘ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دلدردور کر دئیے۔بائولرز جو بار بار کیچ چھوٹنے پر بددل ہو جایا کرتے تھے‘ آج اپنے گیندوں پر وکٹیں گرتے دیکھ کر‘ حوصلے کی بلندیوں پر پہنچ گئے اور وہی بائولرز جنہیں تھرڈ کلاس ٹیمیں بھی آسانی سے کھیلتی رہیں ‘ آج جنوبی افریقہ کے ٹاپ کلاس بیٹسمینوں کی وکٹیں دھڑا دھڑ لیتے رہے اور چار سو سے زائد رنز بنانے والی ٹیم کو 202پر فارغ کر دیا۔ بدنصیب ہیڈ کوچ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ ایک کلیدی کھلاڑی کو ڈریسنگ روم میں بٹھا کر‘ اپنی ٹیم کو شکست سے دوچار کر کے‘ شائقین کرکٹ کے دل دکھا رہا ہے۔ عوام کی طرف سے بھی بار بار مطالبے ہوئے کہ سرفراز کو کھلا یا جائے لیکن ہیڈ کوچ ‘دیوار بن کے راہ میں کھڑا رہا اور آج پاکستان کی فتح کے بعد‘ ہونے والی پریس کانفرنس میں‘ اس کا خبث ِباطن پوری طرح کھل کر سامنے آگیا۔ایک اخبار نویس نے اس سے دریافت کیا کہ سرفراز احمد کو اب تک کیوں نہیں کھلایا گیا؟ اس سوال کا جواب دینا اس کا فرضِ منصبی تھا۔ وہ ذاتی حیثیت میں عالمی میڈیا کے سامنے نہیں آیا تھا۔ اس کی اپنی حیثیت تو اتنی ہے کہ وہاڑی کے نامہ نگار بھی اسے گھاس نہیں ڈالتے۔ اسے قومی کرکٹ ٹیم کے ایک عہدیدار کی حیثیت میں عالمی سطح کے ایونٹ پر‘ انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے بات کرنے کا موقع‘ پاکستانی ٹیم کی شاندار فتح کے نتیجے میں ملا۔ یہ فتح سرفراز احمد کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے تھی‘وہی سرفراز‘ جسے وہ ٹیم میں داخل ہونے سے روکتا رہا۔ اسی کی کارکردگی سے ملنے والی عزت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ ہمارے ہیڈ کوچ صاحب کو عالمی میڈیا سے مخاطب ہونے کا موقع ملا اور وہاں اس نے اپنی جو اوقات دکھائی‘ اس پر پاکستانیوں کو ایک بار پھر ندامت سے دوچار ہونا پڑا۔ سرفرازکی عدم شمولیت پر سوال ہونا لازم تھا کیونکہ اس معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سے لے کر‘ پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا تک مختلف تبصرے کر رہے تھے اور یہ سوال بار بار زیر بحث آتا رہا کہ سرفراز کو باہر کیوں بٹھایا جا رہا ہے؟ ہیڈ کوچ صاحب ‘جب پریس کانفرنس میں سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو ان سے دوسرا سوال کیا گیا‘ جس پر وہ انتہائی بدتمیزی سے بولے کہ'' میں آپ کے سٹوپڈ
سوالوں کا جواب نہیں دے سکتا۔میرے خیال میں پریس کانفرنس ختم کرنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ اس ریٹائرڈ کھلاڑی کی اوقات کیا ہے؟ کہ وہ عالمی میڈیاکے سوالات کو سٹوپڈ قرار دے۔کھلاڑی عام طور پر بے تکلفانہ گفتگو کے عادی ہوتے ہیں لیکن یہ آپس کی بات چیت میں ہوتا ہے۔ میڈیا کے سامنے آنے سے پہلے‘ ایک خاص طرح کی تربیت درکار ہوتی ہے جس نے تربیت کے یہ مراحل طے کئے ہوں‘ وہی اس قابل ہوتا ہے کہ میڈیا کے سامنے آسکے۔وقار یونس نے اگر طویل عرصہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے بعد بھی‘ مہذب سوسائٹی کے طور اطوار نہیں سیکھے تو بورڈ کو چاہئے کہ اسے ڈریسنگ روم تک محدود رکھے۔میڈیا کے ساتھ انٹریکٹ کرنے کی اس میں قابلیت نہیں۔ ایک بار بھارت کے سٹار کھلاڑی ویرات کوہلی نے‘ میڈیا سے ایسی ہی بدتمیزی کر دی تھی۔ اس کے بعد‘ میڈیا نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا‘ اسے دیکھ کر بھارت کے دوسرے کھلاڑیوں نے بھی سبق حاصل کر لیا ہو گا۔ کوہلی‘ کو معافی مانگ کر جان بچانا پڑی۔ اس بے وقار شخص کے پاس تو کوئی پوزیشن بھی نہیں۔ نہ یہ پریکٹسنگ کھلاڑی ہے اور اپنے عروج کے زمانے میں بھی کیااس کی حیثیت فضل محمود‘ عمران خان‘ سرفراز نواز‘ خان محمد‘ وسیم اکرم جیسی تھی کہ اس کی بدتمیزیاں برداشت کی جائیں۔ بدتمیزی تو کسی کی بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ کرکٹ بورڈ کا فرض ہے کہ اس شخص سے باقاعدہ جواب طلبی کر کے اسے سزا دی جائے اور آئندہ کے لئے‘ اس پر میڈیا سے مخاطب ہونے کی پابندی لگا دی جائے۔ اسے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ دنیا بھر کے ٹی وی چینلز کے کیمروں کے سامنے بیٹھ کر صحافیوں کے سوالوں کو سٹوپڈ کہنے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟اس شخص نے قومی کرکٹ ٹیم کی شاندار فتح کے موقعے پر بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ مزہ کرکرا کر دیا۔رہ گیا سرفراز کا معاملہ‘ تو وقار یونس اس کے راستے میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر کے بھی اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس نوجوان نے قومی ٹیم کو ایک بڑی فتح سے ہمکنار کر کے‘ ساری قوم کے دل خوش کر دئیے۔ و قار یونس کہتا رہا کہ اسے وکٹ کیپر اوپنر کے طور پر ٹیم میں شامل کیا جاتا تو اس کا کیرئیر خراب ہو سکتا تھا۔ کیرئیر کس کا خراب ہوا؟ بے وقار یونس کا۔مگر اس کا کیرئیر ہے ہی کیا؟ چند ٹکوں کی نوکری؟ اس میں شرم و حیا ہو تو یہ نوکری بھی اسے چھوڑ دینی چاہئے کیونکہ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اس نے قومی ٹیم کو کئی میچوں میں ایک شاندار کھلاڑی سے محروم رکھا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved