سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے لیکن وہ قومی سیاست پر اپنے جو اثرات چھوڑ گئے ہیں، ان پر بحث جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک اہل ِ سیاست کے اونٹ کی کل سیدھی نہیں ہوجاتی۔ فاٹا کے 4 ارکان کا انتخاب ممکن نہیں ہوسکا کہ ریٹرننگ افسر کے بقول چند گھنٹے پہلے جاری ہونے والے صدارتی فرمان نے انتخابی طریقِ کار میں جو تبدیلی کردی تھی، اُس نے کنفیوژن پیدا کردیا اور نئے بیلٹ پیپر کی تیاری ممکن نہ رہی۔ اس فرمان نے جنرل پرویز مشرف کا وہ فرمان ختم کردیا تھا جس میں فاٹا کے 12 ارکان قومی اسمبلی کو سینیٹ کے 4,4 ارکان ہر تین سال بعد چننے کا اختیار اس طرح دیا گیا تھا کہ ان کی اکثریت یک جاہوکر اپنے تمام امیدوار جتوا سکتی تھی۔ اس وقت ایک نشست خالی ہے، اس لئے فاٹا کے 11 ارکان اسمبلی موجود ہیں، ان میں سے چھ گٹھ جوڑ کرکے نتائج پر حاوی ہوچکے تھے، جبکہ سینیٹ کا انتخاب صوبائی اسمبلیاں متناسب نمائندگی کے ذریعے کرتی ہیں۔ دستور سازوں نے اسے ممکن بنایا تھا کہ کسی صوبائی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر سینیٹ کی تمام نشستیں ہڑپ نہ کی جاسکیں۔ ہر جماعت کو اس کے جُثے کے مطابق حصہ مل جائے۔ تمام ارکان میں شیرینی کی منصفانہ تقسیم کے لئے صدر ممنون حسین نے اپنے پیش رو کا جاری کردہ حکم ختم کردیا، تو اس پر ہا ہا کار مچ گئی۔ فاٹا کے اکثریتی گروپ کا نقصان تو واضح تھا مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی نئے حکم نامے کے لمحہ ٔ اجرا کو موضوع بنا کر دھاندلی کا شور مچا دیا۔ یہ درست ہے کہ یہ کارِ خیر پہلے ہوجانا چاہیے تھا، لیکن پاکستانی صحافت اور سیاست نے یہ معمول بنالیا ہے کہ کیلے کے بارے میں گفتگو کرتے وقت چھلکے ہی پر توجہ مرکوز رکھی جائے اور گودے کو یکسر نظر انداز کردیا جائے۔ متعلقہ ریٹرننگ افسر بھی یہ اہتمام نہیں کرسکے کہ ہنگامی طور پر ایک بیلٹ پیپر تیار کرا کے 11 عدد ووٹروں کے ووٹ ڈلوالیں۔ صدارتی حکم نامے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، لیکن وہاں سے حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کردیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انتخابی عمل میں عدالت نے کوئی خلل ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ الیکشن کمشن جتنا بھی آزاد اور خود مختار کیوں نہ ہو، اسے کسی صدارتی فرمان کا جائزہ لینے کا کوئی اختیار حاصل ہے، نہ ہو سکتا ہے۔ اسے تو بلا چون و چرا قانون پر عمل کرنا ہوتا ہے، لیکن یہاں چون وچرا پیدا کر کے فاٹا کے انتخابات کو موخر کر دیا گیا، یوں سینیٹ کا ایوان 96 ارکان میں سمٹ گیا۔ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے دو کامیاب امیدواروں اقبال ظفر جھگڑا اور راحیلہ مگسی کا نوٹیفکیشن عدالت عالیہ کے حکم پر روک لیا گیا ہے۔نتیجتاً ایوان94پر پہنچ گیا۔ مذکورہ بالا حضرت اور محترمہ دونوں نے خیبر پختونخوا اور سندھ سے اپنا ووٹ اسلام آباد اس وقت منتقل کرایا،جب شیڈول کا اعلان ہوچکا تھا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ پابندی نیا ووٹ درج کرانے پر ہے، منتقل کرانے پر نہیں۔ انہوں نے نیا ووٹ نہیں بنوایا، بنا بنایا ووٹ ''درآمد‘‘ کیا ہے، اس لئے انہیں انتخاب لڑنے کا حق حاصل ہے۔
اقبال ظفر جھگڑا تو یہ دلیل بھی لے آئے کہ اسلام آباد پورے ملک کا دارالحکومت ہے، اس لئے کسی بھی صوبے کے شہری کو یہاں سے انتخاب لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ان کی بات سیاسی طور پر وزنی ہوسکتی ہے، لیکن معاملہ سیاست کا نہیں قانون کا ہے اور اس کے مطابق اسلام آباد وفاقی علاقہ ہے اور وہی شخص یہاں سے سینیٹ کا امیدوار ہوسکتا ہے، جس کا ووٹ یہاں درج ہو یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ وہ یہاں رہائش رکھتا ہو۔ بہر حال معاملہ اب عدالت کے سامنے ہے، اُسی کا فیصلہ جھگڑا نبٹا سکتا ہے۔
پنجاب سے بھی مسلم لیگ (ن) نے سندھ مسلم لیگ کے دو رہنمائوں سلیم ضیا اور نہال ہاشمی کو ٹکٹ دئیے، وہ دونوں منتخب ہوچکے ہیں۔ ابھی تک سندھ مسلم لیگ کی نائب صدارت اور جنرل سیکرٹری شپ ان کے پاس ہے۔ یہ درست ہے کہ آئین‘ پاکستان کے ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جس بھی صوبے میں چاہے رہائش اختیار کرے۔ وہ وہاں اپنا ووٹ درج کرا کے اس صوبے کی جملہ مراعات پر اپنا استحقاق ثابت کرسکتا ہے، لیکن اس آئینی شق کی روح یہی ہے کہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں باقاعدہ نقل مکانی کی جائے، محض ڈاک کا پتہ یعنی پوسٹل ایڈریس نہ بدلا جائے۔ ''حلالہ‘‘ ایک مولویانہ حربہ تو ہو سکتا ہے، لیکن شریعت اسلامی کی روح کے خلاف ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی ''حلالہ کاری‘‘ سے احتراز کرنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حمام میں صرف مسلم لیگ (ن) نے اپنے کپڑے نہیں اتارے، بہت سے اور ننگے بھی موجود ہیں۔ اے این پی کے شاہی سید سندھ شاخ کے عہدیدار ہیں لیکن اسفند یار ولی کے سمدھی ہونے کے ناتے خیبر پختونخوا کی نمائندگی سینیٹ میں کررہے ہیں۔ بیرسٹر سیف خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ایم کیو ایم نے انہیں سینیٹر کراچی سے بنوایا ہے۔ اس سے پہلے لاہور میں مقیم ایک مرحومہ سیاست دان، کراچی سے خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی بنوائی گئی تھیں۔ بہت پہلے پروفیسر خورشید احمد کے نام کی تختی پشاور میں لگا کر جماعت اسلامی نے انہیں سینیٹ میں پہنچا دیا تھا۔ ہم ان لوگوں میں شامل نہیں جو صوبوں کی حدود کو الہامی سمجھتے ہیں۔ یہ انتظامی وحدتیں ہیں اور پاکستان کا حصہ ہیں، ان کے درمیان آہنی دیواریں نہیں کھینچی جاسکتیں، لیکن اہل ِ سیاست سے یہ توقع رکھنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ فرقہ باز مولویوں کی طرح شریعت کی تشریح و توضیح نہ کریں۔
بہر حال... اس وقت 48 ووٹ حاصل کرنے والا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین بن جائے گا۔ اس گفتگو نے اس طرح طوالت اختیار کرلی کہ انتخابات کے دوسرے پہلو زیر بحث نہیں آسکے، حالانکہ ان میں سے بعض بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ مختصراً یہ کہ انتخاب سے پہلے ہارس ٹریڈنگ اور خرید و فروخت کے نام پرالزام تراشی کا جو ہنگامہ اٹھایا گیا تھا، یوم انتخاب نے اس پر مہر تصدیق ثبت نہیں کی۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اپنی نشستیں بچانے میں کامیاب ہوگئی، لیکن مسلم لیگ (ن) دو، پیپلزپارٹی اور اے این پی ایک ایک نشست جیت کر حیرت کا سامان کرگئیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے بزرگ رہنما سردار یعقوب ناصر کو شکست ہوئی اور ایک کنسٹرکشن کمپنی کے ذمہ دار جیت گئے۔ سپیکر جان محمد جمالی نے اپنی بیٹی ثناء جمالی کو ٹکٹ نہ دینے پر بغاوت کردی اور اپنا وزن مخالفین کے پلڑے میں ڈال دیا۔ نتیجتاً اختر مینگل کی جماعت بھی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ثناء جمالی کے مقابلے میں ایک ایسی خاتون کو امیدوار بنایا گیاجو بی این پی کی ٹکٹ پر سینیٹر تھیں، انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کئے بغیر اس کا ٹکٹ حاصل کرلیا۔ پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی کے زور دار امیدوار ندیم افضل چن نے اپنے ہاتھ دکھائے اور مسلم لیگ (ن) کے کم از کم سات ووٹ حاصل کر لئے۔
سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کا پلہ بھاری نظر آتا ہے، اگر دونوں بڑی جماعتوں (پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن) میں مفاہمت نہ ہوئی تو پھر گھمسان کا رن پڑے گا۔ عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ پیسہ چلے گا... لیکن پیسہ چلے نہ چلے، جوتا چل سکتا ہے۔ یہ بات بھی چل نکلی ہے کہ سینیٹ کے انتخاب کے موجودہ طریق کار میں تبدیلی ضروری ہے، وگرنہ وہ سب کچھ ہونے کے امکانات موجود رہیں گے، جس کا شور تو مچایا گیا تھا لیکن فی الحال وہ (سب کچھ) ہو نہیں پایا۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)