تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-03-2015

زندگی قصاص میں ہوتی ہے

قرآنِ کریم نے قرار دیا: زندگی قصاص میں ہوتی ہے۔ مجرم کی سرکوبی اور مظلوم کی داد رسی میں۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور وزیرِاعلیٰ شہباز شریف پر یہ راز کب کھلے گا؟
پاکستانی پولیس کو بہت گنوار اور بے حس کہا جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ خود پولیس کے ساتھ ہمارا روّیہ کیا ہے؟ سہالہ کالج کے قصے نے بہت ہی بدمزہ کیا۔ مکرّم ذوالفقار چیمہ نے اس پر بات کی مگر کچھ ملفوف انداز میں۔ ایک چینل نے مگر سبھی کچھ طشت از بام کر دیا۔ اسی کو ''برہنہ گفتن‘‘ کہا جاتا ہے۔ کچھ موضوعات نازک ہوتے ہیں اور غیر معمولی احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا بہت طاقتور ہو گیا۔ سینیٹ کے الیکشن میں خود فروشی اور بلدیاتی الیکشن میں مجرمانہ تساہل پر اس نے فیصلہ کن اور مثبت کردار ادا کیا۔ بسا اوقات مگر بنیادی اخلاقیات کو بے دردی سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
سہالہ کے پولیس کالج میں زیرِ تربیت خواتین افسروں اور اہلکاروں کا ذکر جس انداز میں کیا گیا، وہ بدذوقی کا مظہر ہے۔ پرلے درجے کی بدذوقی۔ جو بچّیاں پولیس کی ملازمت اختیار کرتی ہیں، وہ رزقِ طیب کی آرزومند ہوتی ہیں۔ اپنے خاندان کا ہاتھ بٹانے کی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ حالات کے مارے ہوئے کمزور گھرانے ہوتے ہیں وگرنہ کس باپ کا جی چاہتا ہے کہ نورِ نظر کو وہ ایسی بے درد ملازمت کے سپرد کر ے‘ جہاں ڈیوٹی کے اوقات مقرر ہیں اور نہ حالاتِ کار شائستہ۔
کالج کے کمانڈنٹ پر الزام ہے کہ اس نے بعض سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی اور اس مقصدکے لیے مواقع پیدا کیے۔ یہ تو تحقیق سے معلوم ہو گا کہ صداقت کتنی ہے مگر قبل از وقت اس قدر واویلے کے منفی پہلو سنگین ہیں۔ اوّل تو بچیوں کا معاملہ کہ سبھی کے بارے میں شکوک پیدا کر دیے گئے۔ ایک المناک جسارت ہے۔ کوئی باپ بن کر سوچے تو کلیجہ کٹتا ہے۔
پنجاب پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا ایک حلیم اور نفیس آدمی ہیں۔ اگر کوئی شکایت تھی تو ان سے رابطہ کیا جاتا۔ اس طرح کے معاملے میں رو رعایت کے روادار وہ ہرگز نہیں ہو سکتے۔ ایک کمیٹی انہوں نے بنا دی ہے۔ امید ہے کہ سبھی کا کچا چٹھہ سامنے آ جائے گا۔ میڈیا پر معاملے کو اچھالے بغیر بھی اگر ان کی توجہ مبذول کرائی جاتی تو غالباً وہ یہی کرتے کہ ایک روایتی خاندانی آدمی ہیں۔ وہی نہیں، خوش قسمتی سے بلوچستان کے آئی جی عملیش اور پختون خوا کے ناصر درّانی بھی ایسے ہی افسر ہیں۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان سے رجوع کرنے کی بجائے، فوراً ہی اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے کیوں یلغار کی گئی۔ اگر وہ مزاحمت کرتے اور میرا خیال نہیں کہ کرتے تو دہائی دی جا سکتی تھی۔ ان بچّیوں کا قرض اب کون اتارے گا اور کس طرح اتارے گا، جن پر کیچڑ کے چھینٹے پڑے۔ اپنی اولاد کے بارے میں ہم بہت حساس ہوتے ہیں؛ حتیٰ کہ مرنے مارنے پہ تل جاتے ہیں۔ دوسروں کے باب میں کیوں نہیں؟ یہ قصہ پڑھا اور ذمہ دار لوگوں سے بات کی تو دیر تک ملال رہا۔ یا رب! ہم اس قدر بے حس اور گنوار کیسے ہو گئے؟ سرکارؐ یاد آئے۔ ایک اونٹ پر خواتین سوار تھیں۔ بگٹٹ ہو کر وہ بھاگا تو فرمایا: نازک آبگینے
ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے باب میں پیش آیا۔ اونٹ بے قابو ہوا تو زبانِ مبارک سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے ''وا عروسا‘‘ ہائے میری دلہن۔ خواتین کے باب میں ہم بہت بے رحم ہو گئے۔ کیا یہ ہندو معاشرت کے ساتھ ایک ہزار سالہ اختلاط کا نتیجہ ہے؟ مرنے والوں کی بیویاں جن کے ساتھ جل مرتی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ کالج کے کمانڈنٹ اور نائب کمانڈنٹ کے اختلاف کا شاخسانہ ہے۔ پنجاب میں افسر شاہی اور پولیس میں تقرریوں کا المیہ یہ ہے کہ جونیئر افسروں کو بڑی ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں۔ انتخاب میں اہلیت اور سنیارٹی سے زیادہ پسند ناپسند کو دخل ہے۔ مرکزی حکومت اور پنجاب کے طول و عرض میں اس سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
ایوانِ وزیر اعظم کا ایک مثالی افسر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک بار اسے چین کے دورے پر بھی بھیجا گیا کہ شاہکار منصوبوں کے بارے میں چینی کمپنیوں سے تبادلۂ خیال کرے، جو ملک کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں اطلاع تھی کہ سینیٹ کے لیے خرید و فروخت کی منڈی میں جہاں حمزہ شہباز سرگرمِ عمل تھے، وہاں ان صاحب کو بھی کوئٹہ بھیجا گیا۔ سیاسی لیڈروں کے ساتھ بات چیت کیا ذاتی طور پر وفادار افسروں کے سپرد کی جانی چاہیے؟ ذوالفقار علی بھٹو اسی غلطی کے مرتکب ہوئے تھے۔ 1977ء میں الیکشن کے ہنگام انہوں نے ڈپٹی کمشنروں، پولیس افسروں اور انٹلی جنس والوں پہ بھروسہ کیا۔ن وہ یہ الیکشن جیت رہے تھے مگر دو تہائی اکثریت حاصل کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے کا جنون سوار ہوا تو واقعات کے ایک ایسے سلسلے کی بنیاد پڑی، جس نے تین عشروں کے لیے ملک کو تصادم اور تلخی کے حوالے کر دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ سہالہ کالج کے کمانڈنٹ اور ڈپٹی کمانڈنٹ کی سنیارٹی میں معمولی سا فرق ہے۔ نائب کو موقعہ ملا تو اس نے تلوار بے نیام کی اور اپنے افسر پہ ٹوٹ پڑا۔ شہرت دونوں کی قابلِ رشک نہیں۔ خدا کی پناہ، جس ادارے پر صوبائی پولیس کے مستقبل کا انحصار ہے، ایسے لوگوں کے سپرد اسے کر دیا جائے۔ کیا یہ موزوں نہ ہو گا کہ تحقیقات کے بعد ان دونوں سے نجات حاصل کی جائے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل، ذوالفقار چیمہ اور ناصر درّانی ایسے افسر تربیتی اداروں سے متعلق رہے ہیں۔ ڈاکٹر سڈل کے شاگرد ان پہ فخر کر سکتے ہیں، جنہیں اس خطۂ ارض میں پولیس کے لیے ایک رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔
بار بار ان سطور میں اس ناچیز نے فریاد کی کہ جب تک پولیس نہیں سنورتی، ملک کا مستقبل محفوظ نہیں ہو سکتا۔ حکومت کے دراصل دو ہی بڑے کام ہوتے ہیں۔ اولاً‘ امن و امان اور نظامِ عدل کی نگہبانی کہ شہری خود کو محفوظ پائیں۔ تبھی ان کی بہترین صلاحیت بروئے کار آتی ہے۔ ثانیاً‘ ٹیکس وصولی کہ جس پر حکومت کی قابلِ اعتماد کارکردگی، خوش حالی اور آزاد خارجہ پالیسی کا انحصار ہوتا ہے۔
پونے دو سال کے تجربے سے واضح ہوا کہ جناب اسحٰق ڈار کی موجودگی میں ایف بی آر کی تشکیلِ نو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ لکیر کے فقیر ہیں، پرلے درجے کے مصلحت پسند اور ترجیحات کا تعین کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ۔ غضب خدا کا، 30 لاکھ ایسے شہریوں کی فہرستیں حکومت کے پاس پڑی ہیں، جنہیں ٹیکس ادا کرنا چاہیے مگر نہیں کرتے۔ اب تک ان میں سے کتنوں کو نوٹس بھجوائے گئے؟ کراچی پولیس پاتال میں جا پہنچی۔ اس کے اہلکاروں اور افسروں کی بڑی تعداد بے عمل ہی نہیں بلکہ جرائم کی شریک تھی۔ اس کے بہترین لوگ پست اور آزردہ تھے۔ عسکری قیادت کو بالآخر مداخلت کرنا پڑی۔ طے ہوا کہ پولیس افسروں کے تقرر اور تبادلے اپیکس کمیٹی کی رضا سے ہوں گے۔ ایک ماہ کے اندر غیر متوقع بہتری آئی۔ اندازہ یہ ہے کہ جرائم میں پندرہ سے بیس فیصد کمی ہوئی۔ اگرچہ رائو انوار ایسے افسر اب بھی موجود ہیں مگر اصلاح کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ روشنیوں کے شہر پر عشروں سے مسلّط تاریکی میں کچھ تو کمی آئی۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ملکوں اور قوموں کی سرفرازی اور ناکامی میں سب سے اہم چیز تحفظ کا وہ احساس ہوتا ہے، جو شہریوں کو نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ قرآنِ کریم نے قرار دیا: زندگی قصاص میں ہوتی ہے۔ مجرم کی سرکوبی اور مظلوم کی داد رسی میں۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف پر یہ راز کب کھلے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved