تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-03-2015

اسد کا شہ بالا… (آخری حصہ)

''دادا سے آپ کی دوستی کیسے ہو گئی؟‘‘...
'' پتہ نہیں! بس ایک عرصے بعد پتہ چلا کہ وہ میرے بزرگ دوست ہیں۔ انہیں تو ایک عرصے تک یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میں مزاحیہ شاعری کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ جب انہیں ٹی وی اور لوگوں کے ذریعے پتہ چل گیا کہ میں مزاحیہ شعر کہتا ہوں تو بھی ہم اس موضوع پر کبھی بات نہیں کرتے تھے، بلکہ جب ٹی وی پر میرا مشاعرہ آتا تھا تو میں وہاں سے ڈر کے مارے اٹھ جاتا تھا۔ ملتان میں اگر مشاعرہ ہوتا تھا تو میں اسے چھپاتا تھا کہ کہیں ابا جی وہاں نہ آ جائیں۔ یہ دوستی کوئی بہت زیادہ پرانی بھی نہیں۔ یہی کوئی دس پندرہ سال پرانی۔ دوستی ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ خوف کم ہوا تو اس خالی جگہ کو احترام نے پُر کردیا، لیکن خوف پورا دور نہیں ہو سکا۔ لاشعور میں کچھ چیزیں بیٹھ جاتی ہیں۔ اب تو یہ حال تھا کہ گزشتہ دو اڑھائی سال سے ایک بار بھی ڈانٹ نہیں پڑی تھی۔ انہیں دراصل اب مجھ سے ہمدردی ہو گئی تھی‘‘۔
ہم لوگوں نے تین بار گھر بدلا۔ پہلے چوک شہیداں میں گھر تھا۔ یہ میرے دادا کے گھر سے جڑا ہوا تھا۔ پھر وہاں سے دادی اماں کو ملنے والے سرکاری گھر میں چلے گئے۔ وہاں سے عثمان آباد والے گھر میں آ گئے۔ پھر میں زکریا ٹائون آ گیا اور دادا لوگ پبلک سکول روڈ والے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ میں نے ابا جی کو کئی بار کہا کہ وہ میرے پاس آ جائیں۔ وہ بڑے مزے سے جواباً کہتے کہ اب اس عمر میں تمہارے گھر آ جائوں؟ میں نے ساری عمر اپنے گھر میں گزاری ہے۔ میری اپنی کمائی سے بنا ہوا میرا اپنا گھر۔ اب آخری عمر میں اپنا گھر چھوڑ دوں؟ دو سال پہلے میں نے ایک بار پھر کہا کہ میرے پاس آ جائیں۔ ایکدم اداس ہو گئے۔ کہنے لگے اب تمہارے گھر میں کیا پڑا ہے؟ تم تو خود وہاں پردیسی ہو۔ گھر تو گھر والیوں کے ہوتے ہیں۔ ہم تو وہاں بغیر کرائے کے رہنے کی سہولت استعمال کرتے ہیں۔ میری بہن کو کہنے لگے ،وہ مانے گا تو نہیں مگر ایک بار اس سے کہہ دیکھو کہ وہ گھر آباد کر لے۔ میری ڈ انٹ سن کر بہن کہنے لگی، مجھے پتہ تھا کہ یہی ہوگا مگر ابا جی کا حکم تھا اس لیے تم سے بات کرنے کی ہمت کی ہے۔ پھر اس موضوع پر کبھی بات نہ ہوئی مگر اب وہ میرا خیال رکھنے لگے تھے۔ پہلے میں انہیں باقاعدگی سے فون کرتا تھا اب وہ فون کرتے تھے اور دلجوئی کرتے تھے۔
تین چار سال پہلے اسد کہنے لگا ''بابا جان! دادا سب کو عیدی دیتے ہیں آپ کو کیوں نہیں دیتے؟‘‘ میں نے کہا ''میری شادی سے پہلے مجھے عید ی دیتے تھے مگر شادی کے بعد تمہاری ماں کو دینے لگ گئے۔ پھر تمہاری بڑی بہن‘ منجھلی بہن‘ چھوٹی بہن اور پھر تم عیدی لینے والوں میں شامل ہو گئے۔ مجھے تو وہ عیدی دینا، لگتا ہے ،بھول ہی گئے ہیں‘‘۔
بات آئی گئی ہو گئی۔ دو سال پہلے قریب چھبیس سال بعد بچوں کو عیدی دینے کے بعد میری طرف آئے اور میری طرف دیکھے بنا عیدی پکڑا دی۔ کافی دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔ وہ بچوں کو عید کی نماز سے آنے کے بعد عیدی دیتے تھے۔ گزشتہ عید ی انہوں نے چاند رات کو ہی دے دی۔ عید کی نماز پڑھ کر جب بچے دادا کے پاس گئے تو عیدی دوبارہ مانگ لی۔ ابا جی کہنے لگے ''کل رات دی تو تھی‘‘۔ بچے یک زبان ہو کر کہنے لگے ''وہ تو چاند رات کے پیسے تھے۔ عیدی تو آپ عیدکی نماز کے بعد دیتے ہیں۔ اب عیدی دیں‘‘۔ ابا جی ہنسنے لگ گئے اور میرے بچوں کو دوبارہ عیدی دی۔ منجھلی بیٹی کہنے لگی ''کومل کی عید ی بھی دیں ‘ اسے امریکہ بھجوانی ہے‘‘۔ ابا جی نے کومل کی عیدی دی۔ پھر کہنے لگے ''اس کے میاں کی بھی عیدی لے لو۔ اگر آپ نے ان کی عید ی خود ہضم کرنی ہے تب بھی رقم تو کم از کم کچھ معقول ہو‘‘۔
چھبیس سال بعد مجھے عیدی ملنا شروع ہوئی تھی کہ کہانی ہی ختم ہو گئی۔
ابا جی نے ایک شاندار اور بھرپور زندگی گزاری۔ دبنگ طریقے سے اور اپنی مرضی سے۔ نماز روزے کی پابندی تو خیر معمول کی بات تھی ،قرآن مجید کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ پہلے نزدیک کی نظر کی عینک لگاتے تھے ۔دس بارہ سال پہلے یہ عینک اتر گئی۔ نوے سال کی عمر تک باریک لفظوں والا قرآن مجید بغیر عینک پڑھتے رہے۔ رمضان کے علاوہ عید کے اگلے روز شوال کے چھ روزے شروع کر دیتے۔ گزشتہ ستر پچھتر سال سے روزے پورے تھے اور شوال کے روزے بھی تقریباً فرض روزوں کی طرح باقاعدہ تھے۔ کچھ عرصے سے گرمیوں کے روزے تہہ خانے میں گزارتے تھے مگر لوڈشیڈنگ زیادہ ہوئی تو نواسے کے پاس مظفرآباد جانے لگ گئے۔ میں انہیں مظفرآباد چھوڑ آتا تھا۔ کئی بار کہا کہ روزے میرے پاس آ کر رکھ لیں مگر نہ مانے۔ کہتے تھے ،گرمی کے روزے اللہ کی طرف سے زیادہ اجر لے کر آتے ہیں،اس اجر کو اے سی میں کم کرنے پر دل نہیں مانتا۔ میں نے کہا ،اللہ بندے کو تکلیف دے کر خوش نہیں ہوتا۔ وہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور اس کا اعلان وہ بار بار کرتا ہے۔ گزشتہ روزے انہوں نے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں گزارے۔ چاند رات کو کہنے لگے کہ تمہارے کہنے پر روزے ٹھنڈے کمرے میں گزارے ہیں مگر پہلے جیسا مزہ نہیں آیا۔
1962ء میں ویسپا سکوٹر خریدا۔ تب میں تین سال کا تھا اور آگے ہینڈل پکڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔ ریٹائرمنٹ تک یہی سکوٹر تھا۔ پھر میرا ایک کزن سعودی عرب جا رہا تھا تو اس سے سی ڈی سیونٹی ہنڈا خرید لیا اور تقریباً تیس سال بعد ضعیف العمر سکوٹر کو ریٹائر کر دیا۔ بارہ چودہ سال یہ موٹر سائیکل چلایا۔ پھر ایک بار ایکسیڈنٹ میں چوٹیں لگیں تو میں نے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی کا مطالبہ کر دیا۔ بیاسی سال کی عمر میں موٹر سائیکل چھوڑنے پر بمشکل راضی ہوئے۔ ڈرائیور کے ساتھ گاڑی پر عزیز و اقارب کو ملنے‘ پنشن لینے اور دوستوں سے ملنے کے لیے چلے تو جاتے مگر واپسی پر کہتے کہ مزہ نہیں آیا۔ اپنے موٹر سائیکل کی کیا بات تھی۔
انتیس نومبر کو اپنے کمرے سے صحن کی جانب سیڑھیاں اترتے ہوئے گر گئے۔ سر پر چوٹ آئی۔ سات آٹھ ٹانکے لگے ۔اگلے روز ہم لوگ انہیں ہسپتال سے گھر لے آئے۔ ایک دن بعد طبیعت دوبارہ بگڑ گئی پھر ہسپتال لے گئے۔ اب کی بار وہ 23دن ہسپتال میں رہے۔ یہ ان کا ہسپتال میں اور میرا ملتان میں شاید سب سے طویل دورانیہ تھا۔ گزشتہ دو ماہ سے وہ گھر میں تھے اور بتدریج بہتری کی طرف گامزن تھے۔ میں امریکہ چلا گیا مگر دل انہی میں اٹکا ہوا تھا۔ ہر دوسرے دن بھتیجوں سے بات ہوتی اور پہلے کی نسبت بہتری کی خبر اطمینان دے دیتی۔ میں نے دو تاریخ کو واپس ملتان پہنچنا تھا۔ بائیس تاریخ کو جدہ سے مختار علی کا فون آیا کہ چھ مارچ کے مشاعرے کے لیے آپ کا پاسپورٹ ابھی تک جمع نہیں کروایا گیا۔ آپ ہر حال میں جمعہ کے دن تک پاکستان پہنچ جائیں تاکہ آپ کا پاسپورٹ مقررہ ایجنٹ کے پاس جمع ہو جائے۔ ہفتہ اتوار کو چھٹی ہوگی اگر تاخیر ہو گئی اور دو تاریخ تک پاسپورٹ سعودی سفارت خانے میں جمع نہ ہوا تو بروقت ویزہ ملنا ناممکن ہے۔ میں نے بخاری کو فون کیا اور اسے کہا کہ وہ میری واپسی کی ٹکٹ کی تاریخ تبدیل کروا دے۔ اب میں ستائیس فروری کو واپس آئوں گا۔ ٹکٹ تبدیل ہو گئی ۔ 27کو میں لاہور پہنچ گیا۔ سارا دن ویزے کا معاملہ حل کر کے رات گئے ملتان پہنچ گیا۔ اگلا دن ابا جی کے ساتھ گزارا۔ یہ ابا جی سے آخری ملاقات تھی۔ اگلے روز شام کو مختار علی کا فون آیا اور پوچھنے لگا کہ ویزے کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے۔ میں نے مختار علی سے کہا کہ اس نے مجھے جس کام کے لیے پاکستان بلوایا تھا وہ کام ہو گیا ہے۔ میں نے ابا جی سے ملنا تھا۔ سو مل لیا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کو جلد از جلد مٹی کے سپرد کرنا تھا ،وہ کر لیا۔ ویزہ تو بس بہانہ تھا۔ رب نے مجھے ساری عمر کے تاسف اور ملال سے محفوظ رکھنا تھا سو اس ذات کریم نے مجھ پر ایک اور کرم کیا۔ بقول برادر بزرگ بریگیڈیئر پرویز عزیز کے وہ بس میرے انتظار میں تھے۔ رات جب میں ان سے مل کر واپس آیا تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کل اس دنیا میں نہیں ہوں گے۔
گزشتہ تیس پینتیس سال میں خاندان کے ہر گزر جانے والے کو میں نے لحد میں اتارا تھا۔ اپنی اہلیہ کو مٹی کے سپرد کرتے ہوئے میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے کہا کہ اب یہ ذمہ داری کوئی اور اٹھائے۔ دو سال چار ماہ اور دس دن بعد بھی مجھے، لحد کے اندر اتر کر تیس پینتیس سال سے نبھائی جانے والی ڈیوٹی سرانجام دینے کا حوصلہ نہ ہو سکا۔ راستے میں اسد نے دادا کی چارپائی کا پایہ پکڑے رکھا اور چارپائی سے اٹھا کر اپنے شہ بالا کو سپرد خاک کرنے میں میری مدد کی۔ باقی کام میرے تایا زاد نے کیا۔
کل میں نے اسد سے پوچھا کہ اب تمہارا شہ بالا کون بنے گا؟ اسد نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھیں البتہ جھلملا رہی تھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved