تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-03-2015

توجمہوریت بچ نکلی؟

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن نون لیگ سے زیادہ مضبوط ہے۔ مجموعی طور پر چھ نشستیں رکھنے والی بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں نون لیگ کی اتحادی ہیں۔ 5نشستوں والے مولانا فضل الرحمٰن اور نون لیگ میں تحریکِ انصاف دشمنی ایک قدرِ مشترک ہے ۔ یہ ہو گئیں 37سیٹیں ۔ اب پیپلز پارٹی کا میزانیہ دیکھیے ۔ 27ذاتی اراکین کے علاوہ ، 8، 4،7اراکین والی ایم کیو ایم ، قاف لیگ اور شاید اے این پی بھی اسی کا ساتھ دیں ۔ یہ 46کی اکثریت بنتی ہے ۔ تحریکِ انصاف کے چھ اراکین لا تعلق رہیں گے یا نون لیگ کی مخالفت، یعنی بغضِ معاویہ میں آصف علی زرداری کا ساتھ دیں گے۔ چھ آزاد اراکین اس صورتِ حال میں اہم ہو جاتے ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ جوڑ توڑکے میدان میں سابق صدر زرداری نون لیگ سے بدرجہا آگے ہیں ۔وزیرِ اعظم نواز شریف کے برعکس ، ایک بڑی طاقتور انا ان کی راہ میں حائل نہیں ۔
سینیٹ کی سربراہی کی جنگ اپنی جگہ ،ملک میں حقیقی احتساب نافذ نہ کرنے کی بنیاد پر قائم غیر اعلانیہ اتحاد بڑی مضبوط بنیادوں پر دونوں جماعتوں میں قائم ہے ۔صدر زرداری کی ہدایت پرقائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ جس بے ضرر قسم کی اپوزیشن کر رہے ہیں ، وہ ہمارے سامنے ہے۔ یوں آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت حکمران نون لیگ کو با آسانی میّسر رہے گی ۔ سینیٹ الیکشن کے ساتھ ہی یہ واضح ہو جائے گا کہ تین دہائیوں کی عملی سیاست شریف برادران ، بالخصوص وزیرِ اعظم نواز شریف کے مزاج میں کس حد تک تبدیلی
لانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ کیا اپنے سب سے بڑے اور سب سے کارگر حریف عمران خان کے ساتھ تنازعات حل کرتے ہوئے وہ ملکی مسائل کے خلاف پیش رفت کریں گے یا جارحانہ پیش قدمی سے تحریکِ انصاف کو خوفزدہ کرنے کی کوشش؟ دو ماہ قبل ، جب نون لیگ کے ساتھ تحریکِ انصا ف کے مذاکرات حتمی مراحل میں تھے اور بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہ آرہی تھی ، چوہدری شجاعت حسین نے کہا تھا کہ انہیں جوڈیشل کمیشن بنتا نظر نہیں آرہا۔ عسکری ذرائع بھی اس وقت پوری طرح پر امیدتھے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی یہ جنگ ختم ہونے والی ہے ۔ چوہدری شجاعت حسین کا اندازہ درست نکلا۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کی رگ رگ سے وہ واقف ہیں ۔
سینیٹ الیکشن کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ملکی سیاست میں غیر اہم اور غیر متعلق ہوتی پیپلز پارٹی میں کچھ عرصے کے لیے اس نے نئی روح پھونک دی ہے ۔ فی الحال وہ قائم و دائم رہے گی ۔ پارٹی کے اندرونی حالات اس قدر خرابی کا شکار ہیں کہ اگلے عام انتخابات اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتے ہیں ۔ صوبے میں خرابی اس قدر بڑھ چکی کہ رینجرز اور فوجی قیادت کو وہاں بھرپور دبائو پیدا کرنا پڑا ۔اسی پس منظر میں الطاف حسین نے یہ کہا : اسٹیبلشمنٹ چالیس برس سے ایم کیو ایم سے ناراض ہے ۔
تحریکِ انصاف کی پوزیشن کمزور ہے ۔ اے این پی ، مولانا فضل الرحمٰن اور نون لیگ سمیت صوبے کے سبھی کھلاڑی ان کے حریف ہیں۔ مرکزاور سندھ کی سطح پر ایم کیو ایم بھی پی ٹی آئی مخالف اتحاد کا ایک اہم جزو ہے ۔ پختون خوا اور کراچی کی ان تمام جماعتوں اور مرکز میں نون لیگ ، سبھی کو عمران خان سے حقیقی خطرہ لاحق ہے ۔کپتان کی صورت میں انہیں ایک ایسا جلّاد نظر آتاہے ، جو ان کے سیاسی مستقبل کو پھانسی دینے کی پوری صلاحیت رکھتاہے ۔ یہ اندیشے درست ہیں ۔ عمران خان بڑی سیاسی قوّتوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں ، اگر اپنے پتّے درست طور پر کھیلنے میں وہ کامیاب رہے ۔ سب سے بڑا اور فیصلہ کن عنصر بہرحال پانچ برس میں تحریکِ انصاف کی کارکردگی ہی ہوگی۔
دیکھا یہ جائے گا کہ کس حالت میں پی ٹی آئی نے صوبہ سنبھالا اور الیکشن تک وہ کس قدر بہتری لا سکی ۔ امن و امان کا معاملہ سب سے اہم ہے ۔ا س پر عمران خان نہ صرف کنفیوژ رہے بلکہ طالبان کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر بچگانہ اور عسکری قیادت سے متصادم تھا۔ سکیورٹی کے معاملات بہرحال تقریباً مکمل طور پر فوج ہی کے ہاتھ میں ہیں ۔ پاک افغان حکومتوں اور فوجی اسٹیبلشمٹ میں ہم آہنگی اور افغانستان میں طالبان اشرف غنی مذاکرات کی کامیابی بھی قبائلی علاقے اور پختون خوا میں امن پہ بڑی حد تک اثر انداز ہوگی۔ آئی جی ناصر درّانی کی سربراہی میں پولیس سے کرپشن کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا ہے لیکن یہ کافی نہیں ۔ امن و امان کے قیام میں پولیس کو ایک بڑا موثر اور مستقل کردار ادا کرنا ہوگا۔ انٹیلی جنس اپنی جگہ اہم ہے ۔
توانائی دوسرا سب سے اہم مسئلہ ہے ۔پانی سے بجلی پیدا کرنے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر صوبائی حکومت کام کر رہی ہے ، جو مقامی آبادیوں کو خود کفالت کی طرف لے جا سکتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ 2018ء تک کیا بجلی کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہو پاتا ہے یا نہیں ۔
معاشی میدان میں تحریکِ انصاف کی کارکردگی کیسی رہے گی ؟ کیا صوبائی سطح پر ٹیکس آمدنی میں وہ اضافہ کر پائے گی یا نہیں؟ کیا مقامی ملازمتیں پیدا کرتے ہوئے، صوبہ بے روزگاری کے سیلاب پہ بند باندھ سکے گا؟ کیابیش قیمت معدنیات سے مستفید ہونے کی طرف پیش رفت ہوگی ؟ ایک ماہ قبل کپتان نے بتایا تھا کہ محترمہ ریحام خان بنکاک میں ہیں، جہاں وہ قیمتی پتھروں کی تراش خرا ش کے لیے پختون خوا میں ایک جدید ترین لیبارٹری کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں ۔فی الحال یہ پتھر خام مال کی صورت میں کوڑیوں کے دام بیچ دیے جاتے ہیں ۔ صوبے میں خواتین کی ایک قابلِ ذکر تعداد کا روزگار اس سے منسلک ہے ۔
سینیٹ الیکشن سے تقریباً سبھی بڑی جماعتیں سلامت گزری ہیں ۔ بڑے پیمانے کی خرید و فروخت نہیں ہوسکی ۔ کم و بیش تمام جماعتیں مرکز اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی اکثریت کے مطابق ہی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں ۔یہ بات بہرحال تکلیف دہ تھی کہ صورتِ حال اس قدر ابتر تھی کہ ووٹ نیلام ہونے کی صورت میں کپتان کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تنبیہ کرنا پڑی۔
مضحکہ خیز صورتِ حال یہ ہے کہ الیکشن کی رات کو فاٹا کے لیے صدارتی آرڈی نینس جاری کرنا پڑا۔ ہاتھ اٹھا کر ووٹ دینے کے لیے آئینی ترمیم کے لیے آخری ہفتے ہی حکومت کو ہوش آیا۔ مناسب وقت پر پیش قدمی کی جاتی تو ان دونوں معاملات میں کامیابی ممکن تھی ۔ خفیہ رائے شماری کا خاتمہ تو اس قدر اہم ہے کہ سینیٹ الیکشن میں خرید و فروخت کا مستقل طور پر وہ خاتمہ کر سکتاہے ۔ پاکستانی جمہوریت ، بالخصوص انتخابی عمل منہ پھاڑ کر بڑے پیمانے کی اصلاحات کامطالبہ کر رہا ہے ۔آخری تجزیے میں پاکستانی سیاست اور انتخابی عمل قدرے پختگی کی طرف بڑھا ہے ۔ آنے والے مہینوں میں بلدیاتی الیکشن کا کامیاب انعقاد اس معاملے میں ایک فیصلہ کن اور سب سے بڑی کامیابی ثابت ہوسکتا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved