تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-03-2015

’’ہوجا‘‘

ترکوں کے ''ہوجا‘‘،عالمِ اسلام کے گرامی قدر استاد کی یاد میں، یکایک ایک خواہش تڑپ کر دل میں جاگی ۔ کاش میں ان کے مرقد پر جا سکتا ، جس کی خاموشی میں صدا ہے ؎ 
توفیقِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے 
شاہاں چہ عجب گر بہ نوازند گدارا 
اقبالؔ کا ایک مصرعہ دل کے کواڑ کھٹکھٹاتا رہا ''چیست حیات؟ سوختنِ نا تمامـ‘‘ پھر خیال آیا ، اقبالؔ سے بھی ان کا ایک تعلق ہے ۔قونیہ میں انہوں نے جنم لیا ، جہاں شاعرِ مشرق کے مرشد کا مزار ہے ۔ 
یاد پڑتاہے ، 1969ء میں پہلا اخباری مضمون نجم الدین اربکان کے بارے میں لکھا تھا۔ اس گمان کا اظہار کیا کہ جو کونپل پھوٹی ہے ، کبھی وہ شجر بنے گی اور ثمر بار ہوگی ۔ اب نئے ترکی کے گلستاں کو ہم دیکھتے ہیں تو دل شاد ہوتاہے ۔ اس تصور سے اور بھی زیادہ کہ بہت دور اور برائے نام ہی سہی ، ساڑھے چار عشرے تک ہم بھی اس خواب کا حصہ رہے ۔ امّت کے مستقبل کو جسے متشکّل کرنا ہے ۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا: دمشق میں ہند کے مسلمان اور ترک اہلِ ایماں یہودیوں کو شکست دیں گے ۔ اب یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں لگتی ۔ کیا عجب ہے کہ کوئی دن میں پاک فوج سعودی عرب روانہ ہو۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورے سے قبل طیب اردوان وہاں تشریف لے گئے ۔ عالی مرتبتؐ نے خراسان کے لشکر کا ذکر کیا تھا ، تب افغانستان اور ایران کے ایک چھوٹے سے علاقے کے علاوہ ، ملتان تک کا وہ دیار خراسان کا حصہ تھا، جسے اب پاکستان کہاجاتاہے ۔ اس داستان میں نجم الدین اربکان کا ذکر کیوں نہیں؟ 
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے؟ 
پندرہ برس ہوتے ہیں ، پاکستانی پریس میں بحث چھڑی کہ نیا ترکی اسلامی ہے یا سیکولر۔ تب ترک افسانہ نگار خدیجہ آئزک کے ایک افسانے کی طالبِ علم نے تلخیص کی تھی۔
یہ ایک گونگی بہری بچّی کی کہانی ہے ، اس کی ماں جسے بیان کرتی ہے ۔ ایک مہربان استاد گھر پہ تعلیم دینے لگا۔ اشاروں کی زبان اس نے سیکھ لی اور فہم رسا ہونے لگا۔ پھر وہ وقت آپہنچا ، جب وہ کتابیں پڑھنے لگی ۔ اب اسے مثنوی سے روشناس کرایا گیا۔ 
پھر ایک دن ماںنے بیٹی کی آواز سنی ۔ حسرت و درماندگی میں گندھی ایک دل فگار ہچکی ۔ ممتاکی ماری لپک کر گئی تو بیٹی نے بتایا : میں اپنی زبان سے اللہ کہنا چاہتی ہوں ۔ ماں نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اوریہ کہا: ''اے میرے رب ،کبھی اس طرح بھی تجھے کسی نے یاد کیا ہوگا؟ کبھی اس طرح بھی تیرا نام لیا ہوگا؟"
نئے ترکی کی کہانی بھی یہی ہے۔ من الظلمات الی النّور۔ تاریخ کے اس ادق باب میں نجم الدین اربکان کا کرداراوّلین رہنما کا کردار ہے ۔ ایک عزمِ بے پناہ کی کہانی۔ ایک تخلیقی ذہن ، ایک مستقل مزاج کردار اور ایک خلّاق شخص کی کہانی ۔ ان کے رفیق اور پیروکار انہیں ''ہوجا‘‘ کہا کرتے۔ استادِ مکرّم۔ یہ ایک خواب اور اس کی بازیافت کی داستان ہے ، جس کے سب زاویوں پر چراغ روشن ہیں ۔ ان کی وفات پر طیب اردوان نے یہ کہا تھا ''وہ ایک سائنسدا ن تھے اور ہمیشہ ہم انہیں یاد رکھیں گے‘‘ قرآنِ مجید یہ کہتاہے ''یذکرون اللہ قیاماً و قعوداً و علی جنوبھم و یتفکرون فی خلق السمٰوت و الارض‘‘ اٹھتے بیٹھتے اور 
پہلوئوں کے بل لیٹے ہوئے، وہ اللہ کو یاد کیا کرتے ہیں۔ سائنسی انداز ِفکر سے مسلمانوں نے کنارہ کیا تو زوال کی دیمک چاٹنے لگی۔ سلیمان ذی شان کی بے کراں فتوحات کے بعد ، وہ یہ گمان کرنے لگے کہ اب کبھی زوال نہ ہوگا ۔ دنیا کی پہلی وردی پوش فوج اور پہلی سول سروس تعمیر کرنے والے معاشرے میں جامد ملوکیت کا غلبہ ہوا اور مذہبی طبقہ ابھر آیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مذہب جہاں واقعی کارفرما ہو، وہاں مذہبی طبقہ مسلّط نہیں ہوتا اور جہاں وہ مسلّط ہو‘ وہاں روحانیت کا نور باقی نہیں رہتا۔ روزِ ازل پروردگار نے عقل کو پیداکیا تو اس پر ناز فرمایا۔ فرمان جاری کیا کہ جو کچھ کسی کو دوں گا ، اسی کے طفیل دوں گااور جو لوں گا، اسی کے سبب۔ برصغیرکے علما نے لائوڈ سپیکر کی مخالفت کی اور ترک ملّا نے پرنٹنگ پریس کی ۔ 
غور کیجیے تو نئے ترکی کے بانیوں کی جہدوجہد فقط سیکولر فاشسٹ کے خلاف نہیں ، جو ان سوالوں کا جواب تلاش نہیں کرتا کہ زندگی کیا ہے ، کائنات اور انسان کیا اور ان کاخالق کون ہے۔ مرعوب ہو کر جس نے مغرب کے سامنے ہتھیار ڈال دیے بلکہ اس مذہبی گروہ کے خلاف بھی جو ماضی میں زندہ رہنے پر مصر ہوتاہے ۔ تقلید کو ایمان کا درجہ عطا کرتاہے ۔ 
سب جانتے ہیں کہ نجم الدین اربکان نے مکینیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ وہ ڈیزل انجن کے ماہر تھے۔ وہ جرمن لیپرڈ ٹینک کا انجن تراشنے والی ٹیم کے چیف انجینئر تھے ۔ ترک موٹر انڈسٹری کے بانیوں میں سے ایک ۔ 
انجینئرنگ کی تعلیم کے بعد انہوں نے سعودی عرب کا رخ کیا۔ دینیات میں انہوں نے ماسٹر کی ڈگری پر اکتفا نہ کیا‘ پی ایچ ڈی کا مرحلہ بھی سر کیا۔ تازہ تحقیق یہ ہے کہ جب کسی ایک فن کا ماہر دوسرے میدان کا رخ کرتاہے تو انسانی دماغ کے نئے گوشے جاگ اٹھتے ہیں ۔ نئے برین سیل بروئے کار آنے لگتے ہیں ۔ تعلیم کے ان متنوع تجربات نے اربکان کو وہ منشور مرتّب کرنے پرآمادہ کیا، جسے ''ملّی گورس‘‘ کہا جاتاہے۔ اسی کے بل پر وہ معجزہ انہوں نے کر دکھایا، عصری تاریخ میں جس کی کبھی امید نہ رکھی گئی تھی ۔ ترکی کا سیکولر او ر مغربی استعمار جسے آج بھی قبول کرنے پرآمادہ نہیں۔ درآں حالیکہ وہ ایک دمکتی ہوئی صداقت ہے ۔ سرکارؐ کی مہر اس پر ثبت ہے ۔ 
قلم یہاں تھم جاتاہے اور اقبالؔ پھر سے یاد آتے ہیں ۔ ترکوں سے انہیں بڑی محبت تھی اور سرکارؐ کی امّت سے محبت کرنے والے کس آدمی کو ابو ایوب انصاریؓکی سرزمین سے نہ ہوگی ۔ شریفِ مکّہ نے انگریزوں کے ایما پر بغاوت کی تو ارشاد کیا ؎ 
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کے بیچ کھاتاہے 
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا
مغربی یلغار کے مقابل ترک اپنی آزادی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے مگر اقبال ؔ کو قلق نے آلیا ، جب انہوں نے اس نظریاتی محور کو بدلتے دیکھا، جس پر ترک مسلمانوں کی عظمت و شخصیت کا انحصار تھا ۔ تب یہ ارشاد کیا ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی 
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی 
نجم الدین اربکان ہی وہ روحِ شرق تھے، اقبالؔ کو جس کی تلاش تھی ۔ وہ نہ ہوتے تو نیا زمانہ بھی طلوع نہ ہوتا۔ وہ نہ ہوتے تو عبد اللہ گل اور طیب اردوان بھی نہ ہوتے ۔ تقلید اور مرعوبیت کی راہ پر دائم ایک ہی موسم ہوا کرتاہے ۔ بہار اس میں کبھی نہیں آتی ۔ پھول کبھی نہیں کھلتے ۔ شجر و شاخ ہوتے بھی ہیں تو مرجھانے کے لیے‘ ثمر بار کبھی نہیں ہوتے۔ نجم الدین اربکان کی زندگی کا ایک اور سبق وہ ہے ، جسے اقبالؔ نے اپنے ایک مشہور شعر میں بیان کیاہے ؎ 
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود 
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ مرعوب سیکولر او رمقلد ملّا سے نجات پا کر نئے جہانوں کی آرزو کر سکیں ۔ انہیں یاد رکھنے کی توفیق عطا ہو ، جنہوں نے ہماری راہوں کے کانٹے چنے اور اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دیا۔ رحمتہ للعالمینؐ کی امت سے جنہوں نے ٹوٹ کر محبت کی ۔ 
ترکوں کے ''ہوجا‘‘،عالمِ اسلام کے گرامی قدر استاد کی یاد میں، یکایک ایک خواہش تڑپ کر دل میں جاگی ۔ کاش میں ان کے مرقد پر جا سکتا ، جس کی خاموشی میں صدا ہے ؎
توفیقِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے 
شاہاں چہ عجب گر بہ نوازند گدارا 
(نجم الدین اربکان کی یاد میں ،اسلام آبادکی ایک تقریب میں پڑھا گیا)۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved