تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     09-03-2015

نئی سری لنکن حکومت کی مشکلات

آٹھ جنوری کوہونے والے صدارتی انتخابات میں راجہ پاکسی کی شکست کے بعد منائے جانے والے جشن کاجوش کم ہونے کے بعد سری لنکن انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعتوں کی کارکردگی مایوس کن ہونے کا تاثر بڑھتا جارہا ہے۔ کامیاب انتخابی مہم چلانے کے دوران متھرائی سری سینا نے ایک ''صد روزہ پروگرام‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ اس پروگرام میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی سے لے کر احتساب اور انتخابی اور آئینی اصلاحات کے وعدے شامل تھے۔ اب کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ وعدے مسٹر سری سینا اور ان کے وزیر ِ اعظم ، رانیل وکرماسنگھے کے لیے عذاب بن گئے ہیں۔ اگرچہ ایک منی بجٹ میں چند ایک اشیا کی قیمت میں کمی دیکھنے میں آئی، لیکن اس سے عوام کی معاشی حالت میں زیادہ بہتری نہیں آئی اور نہ ہی ان کے لیے زندگی آسان ہوئی۔ اس کے علاوہ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ نئی حکومت راجہ پاکسی کی حکومت میں شامل افراد کی طرف سے کی جانے والی بدعنوانی کی تفتیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی یا وہ ایسا کرنا نہیں چاہتی۔ 
دوسری طرف حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کے اہم افراد کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد نہ کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک پولیس ایسے ثبوت تلاش کرنے کی کوشش میں ہے جنہیں عدالت میں ثابت کیا جاسکے۔ ہم پاکستان میںایسے معاملات کو بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیںکہ رشوت یا کک بیکس وصول کرکے کوئی ''رسید ‘‘ نہیں دی جاتی۔ ایسے کام نہایت صفائی سے کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سری سینا اور وکرما سنگھے ، دونوں شریف سیاست دان سمجھے جاتے ہیں، چنانچہ وہ اپنے دامن پر انتقام کی سیاست کرنے کا الزام نہیں لینا چاہتے۔ ایک حوالے سے وہ اپنی پیش رو حکومت سے بہت مختلف ہیں کیونکہ گزشتہ ایک عشرے سے سری لنکا میںقائم حکومت نے بدعنوانی اور اقرباپروری کی ہوشربا داستانیں رقم کیں۔ اس کے علاوہ سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کی روایت بھی قائم کی گئی۔ حکومت مخالف سیاست دانوں اور صحافیوں کو رشوت دے کر یا دبائوڈال کر ساتھ ملایا گیا۔ کچھ کو اغوایا قتل بھی کردیا گیا۔
سابق صدر کے بھائی، گوتابایا راجہ پاکسی (Gotabaya Rajapakse)، جو طاقتور ڈیفنس سیکرٹری تھے، کو ان اقدامات کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ سابق کابینہ سے تعلق رکھنے والے جن چند ایک افراد کو گرفتار کیا گیا ، اُن میں میڈیا منسٹر، مارون ڈی سلوا، شامل ہیں۔ اُنھوں نے گوتابایا پر ''دی سنڈے لیڈر‘‘ کے دلیر ایڈیٹر ، لسانتھا وکرما سنگھے ، کو 2009ء میں قتل کرنے کا الزام عائد کیا ۔ اُس وقت یہ ایک ہائی پروفائل قتل تھا۔ مقتول صحافی نے اپنی ہلاکت سے قبل ایک مضمون میں الزام لگایا تھا کہ اگر وہ قتل ہوگئے تو اس کی ذمہ داری سابق صدر پر عائدہوگی، تاہم بعد میں اس قتل کی سنجیدہ تفتیش دیکھنے میں نہیں آئی۔ حالیہ دنوں نیوی کے ایک کمانڈر بھی سامنے آئے اور اعتراف کیاکہ ان کو آگاہ کیے بغیر ان کے یونٹ کو ''White Van Operations‘‘ میں استعمال کیا گیا۔ ان تمام الزامات کے باوجود ابھی تک سابق صدر کے بھائی کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔ ان پرلگایا جانے والے ایک اور سنگین الزام یہ ہے کہ وہ خفیہ ایجنسی چلاتے تھے ۔ اس ایجنسی کے پاس سری لنکا کی مسلح افواج کے زیر ِ استعمال ہتھیار ہوتے تھے۔ راجہ پاکسی کا ایک بھائی انتخابات کے ایک دن بعد فرارہوکر امریکہ چلا گیا تھا۔ تاہم سری سینا اور وکرما سنگھے کی مخلوط حکومت کے لیے سابق حکومت کے اہم افراد کو گرفت میں لانے سے زیادہ مشکل کام انتخابی اورآئینی اصلاحات کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ اُنھوں نے پہلے اعلان کیا تھا کہ اپریل میں پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے جون میں عام انتخابات ہوں گے۔ اس سے نئی حکومت کو اپنا مینڈیٹ مل جائے، تاہم اب اس شیڈول پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ نئی حکومت کی طرف سے اس وعدے پر عمل نہ کرنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ ایگزیکٹو صدارتی عہدے کی طاقت کم کرنے کی تجویز سے فوج متفق دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اس عہدے کے ذریعے سری لنکا میں یونٹی آف کمانڈ برقرار رہتی ہے اور دفاعی معاملات مخلوط حکومت اور پارلیمنٹ میں زیر ِ بحث نہیں آتے۔ اس کے علاوہ سری لنکا کی حکمران پارٹی یہ محسوس کررہی ہے کہ اگر اس کے لیڈر برائے نام صدر بن گئے تو یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے وکرما سنگھے طاقت وررہنما بن کر ابھریں گے۔ اس پیش رفت کی وجہ سے سری سینا کی جماعت، فریڈم پارٹی کو نقصان ہوگا۔ 
اسی طرح انتخابی اصلاحات بھی ایک پیچیدہ اور دقیق مسئلہ ہے۔ ان کے بارے میں سامنے آنے والی تجاویز میں متناسب نمائندگی سے لے کر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کی بنا پر حکومت کا فیصلہ کرنے کی آراء شامل ہیں ۔ اسی طرح انتخابی حلقہ بندیوں کا از سرِ نو تعین کرنے کے لیے بھی خاطر خواہ وقت درکار ہوگا۔ ایک اور ایشوجو برمحل تو ہے لیکن اس پر زیادہ بحث ہوتی دکھائی نہیں دیتی، وہ یہ ہے کہ اگر اپریل میں پارلیمنٹ تحلیل کردی جاتی ہے تو اس کے پانچ سال پورے نہیں ہوتے۔ اس سے پہلی مرتبہ ممبر بننے والے ارکان کی پنشن پر فرق پڑے گا کیونکہ سری لنکا کے قانون کے مطابق پانچ سال تک پارلیمانی فرائض سرانجام دینے کے بعد ہی کوئی رکن پنشن کا حق دار ہوتا ہے۔ 
ان تمام مسائل کی جڑ موجودہ حکومت کی طرف سے قوت ِ فیصلہ کی کمی ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت کے حامی بھی پریشان ہیں کیونکہ حکومت کوئی واضح اور دوٹوک فیصلے کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے علاوہ سابق صدر، مہنداراجہ پاکسی کی سنہالی آبادی میں مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ شکست کے بعد بھی یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ وہ پاپولر ووٹ کا سینتالیس فیصد حاصل کرنے میں کامیا ب ہوگئے تھے۔ اگر اقلیتی گروہوں کے ووٹ ان کے مخالف سیاسی دھڑوںکو نہ ملتے تو راجہ پاکسی جیت بھی سکتے تھے۔ اس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے لیے مسائل دوچند ہوتے جارہے ہیں۔ فریڈم پارٹی کے بہت سے حامیوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے کہ وزیر ِ اعظم بھی انہی کی جماعت سے ہونا چاہیے۔ ان کاکہناہے کہ سری سینا کو اگلے عام انتخابات میں وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار بننا چاہیے۔ تاہم متھرائی سری سینا اس مطالبے کے حق میں نہیں ہیں۔ پارٹی کے داخلی تنائو کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فریڈم پارٹی دو یا زیادہ دھڑوں میں بھی بٹ سکتی ہے۔راجہ پاکسی کے دو جلسوں میں شرکا کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ہزاروں افراد اُن کی اقتدار میں واپسی کا مطالبہ کررہے تھے۔ عام تاثر یہ ہے کہ وہ ذاتی طور پر بدعنوان نہیں تھے، یہ اُن کے خاندان کے دیگر افراد تھے جنھوںنے بہتی گنگا میں جی بھر کے ہاتھ دھوئے۔ 
حکومت کے لیے ''کولمبو پورٹ سٹی منصوبہ‘‘ بھی پریشانی کا باعث ہے۔ اس منصوبے کے مالی وسائل چین نے فراہم کیے ہیں اور اس کاٹھیکہ بھی ایک چینی فرم کے پاس ہے۔ راجہ پاکسی کی منظوری سے بننے والے اس منصوبے میں سمندر سے دوسو تیس ایکڑ زمین حاصل کرکے اُس پر شاپنگ مال، گالف کورٹس اور دیگر تفریحی سہولیات بنائی جائیں گی۔ اس زمین میں سے بیس ایکڑ چینی ڈویلپرز کو مفت میں ملیں گے جبکہ باقی زمین اُنہیں 99 سال کی لیز پر دے دی جائے گی۔ تاہم شروع سے ہی ماہرین اس منصوبے کے خلاف ہیں کیونکہ اس کے ماحول پر مضر اثرات ہوں گے۔ تاہم اس وقت تک پچیس فیصد تک کام مکمل ہوچکا ہے اور اگر اس مرحلے پر اس منصوبے کو منسوخ کیا گیا تو سری لنکا کو کئی سوملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس منصوبے کے منسوخ ہونے پر بھارت کو بھی خوشی ہوگی ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ سری لنکا کی موجودہ حکومت کے سامنے حالات آسان نہیں ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved