کبھی کشور ناہید کا فون آتا ہے تو ع
جیسے ویرانے میں چُپکے سے بہار آ جائے
لیکن یہ بہار چپکے سے نہیں بلکہ کافی شور شرابا کرتی ہوئی آتی ہے جس میں ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوتی ہے‘ جواب طلبی بھی اور کبھی کبھار پیار دُلار بھی۔ کل کے فون کی سنیے‘
''یہ میرے ذکر کے بغیر تمہارا کالم مکمل نہیں ہو سکتا؟‘‘ چھوٹتے ہی ایٹم بم چلا دیا۔ پھر بولیں‘ یہ خوشبیر سنگھ کو میں نے نہیں بلایا تھا بلکہ اس کا فون آیا کہ آپی‘ ہم آنا چاہتے ہیں۔ تو میں کیا کہتی کہ مت آئو؟ سوچا کہ انہیں اکادمی والوں کے سپرد کر دوں گی لیکن رابطہ کرنے پر انہوں نے کہا کہ چونکہ انہیں ہم نے نہیں بلا رکھا‘ اس لیے ہم انہیں خوش آمدید نہیں کہہ سکتے۔ چارو ناچار فرخ یار اور شکیل جاذب کو اپنے گھر پر لے گئی۔ کہیں سے ندیم بھابھا بھی آ گئے۔ انہیں کھانا کھلایا‘ کلام سنا اور چلتا کیا۔ بلکہ رنجیت چوہان (ہمراہی شاعر) سے کہا کہ یہ شاعری کا تم نے کیا ڈھونگ رچا رکھا ہے جو تمہارے بس کا روگ ہی نہیں‘ جائو‘ جا کر کوئی نوکری کرو اور شادی کروا کر بچے پیدا کرو۔ دراصل ان لوگوں کو صغریٰ صدف نے بلا رکھا تھا (خدا کا شکر ادا کیا کہ میری ایک بات تو ٹھیک نکلی)
پیار دُلار کی سن لیجیے۔ اگلے روز میری بیمار پُرسی کے لیے فون کیا اور کہا‘
''بھاء جی‘ ہُن کیہ حال اے؟‘‘
مجھے اس کے منہ سے یہ ''بھاء جی‘‘ اس قدر پیارا لگا کہ سوچا‘ میں بھی اسے بھاء جی ہی کہا کروں گا۔ کچھ عرصہ پہلے نظمیں بھجوانے کی فرمائش کی تو کہا‘
''نظمیں بھیج تو دوں لیکن تم انہیں اپنے کالم میں چھاپ دیتے ہو جبکہ میں صرف ''دنیا زاد‘‘ (کراچی) کے لیے لکھتی ہوں‘‘۔
میں نے کہا ''بندۂ خدا‘ بلکہ بندیٔ خدا‘ ''دنیا زاد‘‘ کو تو صرف چنیدہ لوگ ہی پڑھتے ہیں جبکہ اخبار جن لوگوں کی نظر سے گزرتا ہے ان میں دکاندار‘ سپاہی‘ دربان‘ لوہار‘ ترکھان وغیرہ سبھی شامل ہوتے ہیں بلکہ کسی گرم حمام پر پہنچے تو درجنوں لوگ اشتہارات سمیت اس کا ایک ایک لفظ پڑھتے ہیں۔ کیا تم عوامی شاعرہ نہیں بننا چاہتیں؟ آخر حبیب جالبؔ کی سیٹ کب تک خالی رہے گی‘‘۔
تب نہ چھاپنے کا وعدہ کیا تو کہا‘
''جب تک یہ خواتین کا عالمی دن (یا ہفتہ) ختم نہیں ہوتا۔ دس تاریخ تک تو سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے‘ اس کے بعد بھجوائوں گی‘‘۔
میں نے کہا کہ ''خواتین کے دن سے تمہارا کیا تعلق ہے‘ تم تو اچھی خاصی مرد ہو بلکہ یہیں سے تمہیں بھاء جی کہنے کا جواز بھی نکلتا ہے! چنانچہ تمہیں تو عورتوں کی بجائے مردوں کے عالمی حقوق کا دن منانا چاہیے‘‘ مگر اس کے جواب میں کہ میرے ذکر کے بغیر تمہارا کالم مکمل نہیں ہو سکتا‘ یاد آیا کہ ایک صاحب نے ایک ہوٹل میں جا کر پُرتکلف اور ڈٹ کر کھانا کھایا اور بیرے کو بُلا کر بولے‘
''میں نے پچھلے سال بھی اس ہوٹل سے کھانا کھایا تھا لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے اور منیجر کے کہنے پر تم لوگوں نے میری خوب دھلائی کی تھی اور مجھے اٹھا کر ہوٹل سے باہر پھینک دیا تھا‘‘۔
''صاحب جی‘ مجبور ہیں‘ آخر مالک کا حکم ماننا ہی پڑتا ہے‘ میں معذرت خواہ ہوں...‘‘
''معذرت خواہی کی ضرورت نہیں‘‘ وہ صاحب بولے‘ ''تم لوگ تیار ہو جائو‘ میرے پاس پیسے آج بھی نہیں ہیں‘‘۔
چنانچہ کشور سے بھی اس کے جواب میں یہی کہنا بنتا تھا کہ تم تیار ہو جائو۔ آج بھی تمہارا ہی ذکرِ خیر ہونے جا رہا ہے! اس ذکر اذکار کو مزید بھی بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہی ہوگا کہ آبیل مجھے مار۔ حالانکہ مرکھنی صرف گائے ہوتی ہے؛ چنانچہ یہ محاورہ تھوڑا تبدیل کر کے اس طرح ہونا چاہیے کہ آ گائے مجھے مار‘ جبکہ پنجابی زبان کا یہ محاورہ بھی موجود ہے جس کا مطلب ہے کہ گائے اتنی منتقم مزاج ہوتی ہے کہ کبھی گائے کا پیچھا نہیں چھوڑتی؛ چنانچہ وہ نرم خُو گائیں اور ہوتی ہیں جنہیں اللہ میاں کی گائے کہا جاتا ہے اور جس کے بارے شاعر نے کہا تھا کہ ؎
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
ویسے بھی‘ قربانی کا صرف بکرا ہوتا ہے‘ گائے نہیں ہوتی حالانکہ گائے کی قربانی زیادہ ذوق و شوق سے دی جاتی ہے۔
اور اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
ہماری نیند کا دھارا ہی اور ہونا تھا
یہ خواب سارے کا سارا ہی اور ہونا تھا
سفر پہ ہم جو نکلتے تو پھر ہمارے لیے
سفینے اور‘ ستارہ ہی اور ہونا تھا
ہماری بات اگر ایک بار سُن لیتے
تو فائدہ یہ تمہارا ہی اور ہونا تھا
ہمارے کام نہ آئیں وہاں یہ آنکھیں بھی
خبر نہ تھی کہ نظارا ہی اور ہونا تھا
پہنچ گئے تھے سبھی سنگسار ہونے کو
بس انتظار ہمارا ہی اور ہونا تھا
سلوک اُس کا یہی لگ رہا تھا پہلے ہی
ہمارے ساتھ دوبارہ ہی اور ہونا تھا
دکان بند نہ کرتے اگر تو کیا کرتے
یہ جانتے تھے خسارہ ہی اور ہونا تھا
چلا گیا ہے وہ کچھ اور دُور تو پھر کیا
وہ بیوفا ہمیں پیارا ہی اور ہونا تھا
قبول ہونے کی ساعت ہی آئی تھی نہ ظفرؔ
ہمیں ابھی تو گوارا ہی اور ہونا تھا
آج کا مطلع
زمیں پہ چاند اُتارا ہے‘ آئو دیکھو تو
بڑا عجیب نظارا ہے‘ آئو دیکھو تو