تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-03-2015

اپنی بجلی آپ پیدا کر …

پاکستان پر کئی زمانے گزرے ہیں مگر توانائی کی قِلّت کا زمانہ ایسا ہے کہ آکر ٹھہر گیا ہے۔ یہ گزرے بھی کیسے کہ اِس کے ٹھہرنے سے بہت سوں کے لیے پیٹ بھر، بلکہ نیت بھر کھانا ممکن ہوسکا ہے! جب بھی یہ بحران خاتمے کی طرف رواں ہوتا ہے، یار لوگ ہاتھ پکڑ کر بٹھالیتے ہیں ع 
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دِل ابھی بھرا نہیں! 
ہر نئی حکومت کو بہت سے مسائل ترکے میں ملتے ہیں۔ مگر توانائی کا بحران؟ یہ تو جیسے جہیز میں آیا ہوا سامان ہے! ہر حکومت اِس بحران کے ہاتھوں تذلیل کا رونا بھی روتی ہے اور اِسے پروان چڑھانے کے لیے کوشاں بھی رہتی ہے۔ جب کرکٹ ورلڈ کپ چل رہا ہو تو ہر معاملے کو فائنل کے بعد پر رکھ دیا جاتا ہے۔ یہی حال حکومتوں کا توانائی کے بحران کے معاملے میں ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ ذرا توانائی کا بحران سے نپٹ لیں تو دیکھیں گے! 
توانائی کا بحران ایسا جنتر منتر ہے کہ جو اِس میں گیا وہ سلامت واپس نہ آسکا۔ اِس طلسمات میں مُڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ حکومتوں کی آنیاں جانیاں لگتی رہتی ہیں مگر توانائی کا بحران اپنے موقف پر ڈٹا رہتا ہے یعنی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اِس کے اسباب و علل بیان کرتے کرتے حکومتیں رخصت ہوجاتی ہیں ؎ 
سمجھ سکے نہ فریبِ جمالِ غنچہ و گل 
چمن اُجڑ گئے تشریحِ رنگ و بُو کرتے! 
عام آدمی کا یہ حال ہے کہ توانائی کے بحران سے لڑتے لڑتے ہی عمر کا خاصا بڑا حصہ ٹھکانے لگ جاتا۔ زمانے میں بہت سی رونقیں، بلکہ رونق میلے ہیں۔ مگر کوئی کیا دیکھے؟ توانائی کا بحران کچھ دیکھنے تو دے۔ اِس غم سے رہائی ملے تو کوئی کچھ اور سوچے اور کرے۔ 
غمِ جہاں سے رہائی جو ہم کو مل جاتی 
تو ہم بھی سیرِ گلستانِ آرزو کرتے! 
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ توانائی کا بحران چاہتا تو کب کا رخصت ہوجاتا۔ وہ شاید یہ سوچ کر نہیں جارہا کہ اُس کے بغیر ہم کیسے جئیں گے۔ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ ہم توانائی کے بحران کے اِس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اِسے دل و جان سے اپناکر معاش کے مختلف ذرائع بھی کشید کرلیے ہیں۔ اگر توانائی کا بحران ختم ہونے پر آیا تو ہزاروں، بلکہ لاکھوں گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑجائیں گے۔ ہم نے ہر بحران کی کوکھ سے کچھ نہ کچھ فوائد کشید کرنے کی ذہنیت ایسی اپنائی ہے کہ اب تمام بحران معیشت کے بنیادی اجزاء میں سے ہوگئے ہیں۔ یعنی اُن سے نجات پائیے تو لاکھوں کے روزگار سے کھیلئے! توانائی کے بحران نے کئی دھندوں کو جنم دیا ہے۔ اِس ایک بحران کو ختم کرنے کی صورت میں لاکھوں افراد کو دو وقت کی روٹی یقینی بنانے کے لیے کوئی نیا حساب کتاب جمانا پڑے گا۔ اب دیکھیے نا، ایک طرف جنریٹر کا دھندا ہے اور دوسری طرف جنریٹر کی مرمت کرنے والوں کی روزی روٹی۔ بہت سے لوگ بڑے جنریٹرز سے محدود پیمانے پر بجلی فراہم کرکے دو وقت کی روٹی کما رہے ہیں۔ پاور سپلائی کا معاملہ درست کرکے ہم کتنوں کے لیے کتنی مشکلات پیدا کریں گے، کسی نے سوچا ہے؟ 
اور صاحب، توانائی کے بحران نے ہمیں ٹائم مینجمنٹ بھی تو سکھائی ہے۔ اب ہم اچھی طرح سمجھتے ہوگئے ہیں کہ وقت کو کتنے خانوں میں بانٹنا ہے اور کس وقت کیا کون سے کام کو ترجیح دینی ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین مل کر بھی ہمیں ٹائم مینجمنٹ نہیں سکھا سکتے تھے مگر توانائی کے بحران نے خوب سیدھا کیا ہے۔ 
ایک بحران نے کیسی رونق لگا رکھی ہے اور دوسری طرف ماہرین ہیں کہ اِس بحران کو ختم کرنے کے طریقے سوچ سوچ کر اپنے دِماغوں کا خُون ''بے فضول میں‘‘ ضائع کر رہے ہیں۔ برطانیہ سے خبر آئی ہے کہ ماہرین نے توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے خصوصی باتھ روم ''یورینل یونٹ‘‘ تیار کیا ہے۔ یہ باتھ روم قارورے اور فُضلے کو توانائی میں تبدیل کرے گا۔ ''یورینل یونٹ‘‘ میں موجود بیکٹیریا قارورے کے قطروں کو توڑتا ہے جس سے توانائی خارج ہوکر کیپیسٹرز میں لگے ہوئے سیلز میں جمع ہوجاتی ہے۔ یہ عمل مستقل جاری رہ کر توانائی کو پیدا اور جمع کرتا رہے گا۔ 
اوروں کے لیے یہ خبر حیرت و مسرّت انگیز ہوگی، ہم تو پڑھتے ہی پریشان ہو اُٹھے۔ اب تک ہم جسے بیت الخلاء سمجھ کر خلاء پُر کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں اُسے ''بیت التوانائی‘‘ بنانے کی سازش کی جارہی ہے! اب یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کے جسم میں موجود فاضل مادّوں کو توانائی کا منبع قرار دے کر آپ کو بیت الخلاء میں مسلسل قیام کی ترغیب دی جائے! اگر توانائی کے حصول کے لیے ''یورینل یونٹ‘‘ کا سہارا لینے کا رواج چل پڑا تو ہر گھر میں قیامت برپا ہوجائے گی۔ یعنی جب بھی توانائی کی ضرورت ہو، بھاگیے اِس گھریلو پاور ہاؤس کی طرف! کیا اچھا لگے گا کہ کوئی دوستوں میں بیٹھا سیاست، کرکٹ اور شوبز سمیت تمام ناگزیر معاملات پر گپ شپ لگا رہا ہو اور اہلِ خانہ کا پیغام آجائے کہ کچھ دیر کے لیے ''یورینل یونٹ‘‘ میں جائیے، کچن میں چند آلات چلانے کیلئے پاور درکار ہے! پھر تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گھر کا ایک فرد کسی معروف دوا خانے کا دیسی چُورن پھانک کر ''یورینل یونٹ‘‘ 
ہی میں بیٹھا رہے تاکہ گھر روشن رہے اور پنکھے ہوا پھینکتے رہیں! گھر اور گھر والوں کی خاطر اِتنا بھی نہ کیا تو پھر کیا کیا! 
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ جیسے انتہائی جمہوری ملک کے ماہرین اور طلباء نے مل کر یہ گھریلو پاور ہاؤس پاکستان جیسے ممالک میں جمہوری حکومتوں کو ناکام بنانے کے لیے تیار کیا ہے! عوام کو empower کرنے کا اِس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ اُنہیں بجلی پیدا کرنے کے قابل بنادیا جائے! ایسی ایجادات سے عوام میں empowerment کا نیا تصور جنم لے گا۔ جب لوگ اپنے فاضل مادّوں سے توانائی پیدا کرنے کے قابل ہوجائیں گے اپنے آپ پر غیر معمولی حد تک فخر کرنے لگیں گے اور پھر اُن میں اپنے جسم کے انتہائی ناگزیر اور کارآمد مادّوں مثلاً خُون کی قدر و قیمت سمجھنے کا شعور پیدا ہوگا! ہمیں ڈر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ انسانی قارورے سے توانائی بنانے کا یونٹ تیار کرنے والے ماہرین آگے چل کر خُون سے بم بنانے والا یونٹ تیار نہ کر بیٹھیں! 
ہم بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سارے گھر روشن رہیں مگر یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ گھر کی روشنی کے لیے بار بار پیٹ خالی کرکے ہم اپنے اندر اندھیرا بڑھایا جائے! اور ہمارے ہاں جس طور ضرورت سے زیادہ بجلی خرچ کی جارہی ہے اُس کے پیش نظر تو ہر گھر میں کئی ''پاور ہاؤس‘‘ نصب کرنے پڑیں گے۔ یعنی سب اپنے حصے کی بجلی خود پیدا کریں گے۔ خود انحصاری کا ایک مفہوم یہ بھی تو ہے! یعنی ع 
اپنی ''بجلی‘‘ آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved