سینیٹ الیکشن توہوچکے ۔اب الیکشن کمیشن کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ ان سیاستدانوں کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرے جنہوں نے اراکین ِ صوبائی اسمبلی پر اپنے ووٹ بیچنے کے توہین آمیز الزامات لگائے اور اب تک کسی ایک آدمی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں لاسکے۔ خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی جواب طلبی تو لازمی کی جائے جنہوں نے اپنی اپنی حکومتوں کے زور پر صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو آزادانہ ووٹ ڈالنے کی صورت میں نا اہلی ، جیل میں ڈالنے اور اسمبلی توڑنے کی باتیں کیں ۔ہمارے ان دونوں محترم لیڈروں نے صرف الزامات ہی نہیں لگائے بلکہ عمران خان نے اپنی صوبائی حکومت کے ذریعے خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین پر دباؤڈالا اور انہیں اپنے ووٹ باہر لاکر دکھانے کی غیر قانونی حرکت پر مجبور کیا جبکہ وزیراعظم نے اپنی وفاقی حکومت کے ذریعے الیکشن شیڈول کا اعلان ہوجانے کے بعد فاٹا اراکین کے ووٹ ڈالنے کے طریق کار کو پولنگ سے چند گھنٹے پہلے تبدیل کرا دیا۔ دنیا کا کوئی اور ملک ہوتا توان دونوں کے ان اعمال کو الیکشن ہائی جیک کرنے کی کوشش قرار دیا جاتا اوراب تک سیاست سے بیک بینی و دوگوش باہر نکالا جاچکا ہوتا، پاکستانی معاشرہ شاید ابھی قانون کے اتنے شدید نفاذ کے لیے تیار نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمارا الیکشن کمیشن بھی منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھا رہے۔ اگر ان دونوں کا کڑا احتساب نہیں ہوسکتا تھا تو کم ازکم ایک ایک تنبیہی خط تو انہیں جاری کیا جاسکتا ہے جس میںصاف بتایا گیا ہو کہ آئندہ اگر آپ نے اس طرح کی حرکت فرمائی تو آپ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ کیاہمارا الیکشن کمیشن بلوغت کی اس منزل تک نہیں پہنچا جہاں اسے یہ سمجھ آسکے کہ سینیٹ الیکشن سے چند دن پہلے عمران خان کی طرف سے اپنی ہی جماعت کے اراکین اسمبلی پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات، پھران الزامات کی تائید میں وزیراعظم کی طرف سے بائیسویں ترمیم کے لیے آل پارٹیزکانفرنس کا انعقاد در حقیقت سینیٹ الیکشن پر اثر انداز ہونے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟ان دونوں قائدین کا یہ منصوبہ پوری طرح کامیاب رہا اور یہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کے اس غلغلے کے شر سے جو خیر برآمد ہوئی وہ یہ ہے کہ اب سینیٹ کے کردار پر بحث شروع ہوگئی ہے اور لوگ اس کی افادیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس ماحول کا فائدہ اٹھا کریہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے ایوان بالا کوانتظامیہ کی جواب طلبی اور قانون سازی میں وہ اہمیت دی جائے جو وفاق میں اسے ملنی چاہیے۔ خاص طور پراس میں وہ معاملات زیر بحث لائے جائیں ،جنہیں ہمارے حکمرانوں نے مشترکہ مفادات کی کونسل کے نام پر اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ اصولی طور پر تواس کونسل کا کام صرف اتنا ہونا چاہیے کہ اس میں چاروں صوبوں میں گورننس کے نظام کو مساوی بنیادوں پر بہتر بنایا جائے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وزیراعظم ، وزراء اعلیٰ اور چند وزراء کا یہ کلب نجکاری اور میگا پراجیکٹس پر فیصلے صادر کررہا ہے۔ ڈیمو ں کی تعمیر،
موٹرویز کے منصوبے، دوسرے ملکوں کے ساتھ راہداریوں کے مسائل اور بیرونی معاہدے خاص طور پر سینیٹ کا موضوع ہوتے ہیں تاکہ عام آدمی کو معلوم ہوسکے کہ اس کے ملک میں کیا ہورہا ہے لیکن مشترکہ مفادات کی کونسل ایک 'سپر سینیٹ‘ کی شکل اختیار کرکے اندھا دھند سب کچھ کیے جارہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ چین سے گوادر تک سڑک اور ریل کے منصوبے پر صوبائی اسمبلیاں قراردادیں منظور کررہی ہیں جبکہ سینیٹ جو وفاق کی نمائندہ ہونے کا دعویدار ہے،بالکل خاموش ہے۔ اس کے علاوہ خفیہ اداروں کی نگرانی، فوجی سازو سامان کی خریداری اور سرکاری مشینری کی مسلسل اصلاحات کا کام خالصتاََ سینیٹ کے حوالے ہونا چاہیے تاکہ یہاں بیٹھے سردوگرم چشیدہ لوگ قومی اسمبلی میں پائی جانے والی افراتفری کے برعکس صبرو تحمل سے غور و خوض کرکے مسائل کا حل پیش کرسکیں۔
پاکستان کے نظام حکومت میں سینیٹ کا کردار اس کے شایانِ شان نہ ہونے کی بنیادی وجہ اس کا طریق انتخاب ہے۔ سینیٹ کے موجودہ طریق انتخاب نے ،جس میں ہمارے سیاسی راہنما اپنی پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کو آزادانہ ووٹ بھی نہیں ڈالنے دیتے، اسے ایک بے معنی ادارہ بناڈالا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ 2013ء میں منتخب ہونے والے جب 2015ء میں سینیٹ کے لیے اپنے اپنے پارٹی سربراہوں کے کہنے پر سینیٹر منتخب کررہے ہوں گے تو ان کا یہ عمل کسی صورت بھی موجود عوامی جذبات کی ترجمانی نہیں کہلائے گا۔ جب 2018ء میں دوبارہ سینیٹ کے انتخابات درپیش ہوں گے تو خود صوبائی اسمبلیاں بھی عوامی ترجمانی کی میعاد پوری کرچکی ہوں گی لیکن اس کے باوجود وہ عوام کے نام پر سینیٹ کے لیے ارکان منتخب کریں گی۔ اپنی آئینی مدت کے اختتام پر صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹرز کا انتخاب اتنا ہی قبیح عمل ہے جس کا ارتکاب جنرل پرویز مشرف نے 2007ء میں ان اسمبلیوں سے خود کو منتخب کراکر کیا تھا۔ پھر اس طریقِ کار سے دستور میں دو ایوانی مقننہ ( یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ) کا طے کیا گیا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور ایوانِ بالا قانون سازی کے مرحلے پراپنی آزادانہ رائے قائم کرنے کی بجائے قومی اسمبلی کی عاجزانہ پیروی اختیار کرلیتا ہے۔ اپنی اسی کمزوری کے باعث سینیٹ میںحکومت کے احتساب کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم تو دور کی بات اکثر اوقات وزراء بھی سینیٹ میں حاضری گوارا نہیں کرتے۔ یہ بھی ہم سب نے دیکھا کہ وزیراعظم نواز شریف کو سینیٹ میں بلانے کے لیے کئی بار سینیٹرز کو واک آؤٹ کرنا پڑا اور کئی بار حکومت سے تعلق رکھنے والے سینیٹرزکووزراء کے غیرسنجیدہ رویے پر احتجاج کرنا پڑا۔ سینیٹ کے اس ضعف کا ایک ہی سبب ہے صرف ایک ہے کہ یہ ایک منتخب ادارے کی بجائے نامزد افراد کا اجتماع بن کر رہ گیا ہے۔ اس دستوری ادارے کو کارآمد بنانے کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ اس کا انتخاب براہ راست اور متناسب نمائندگی کے اصول پر کیا جائے۔ جب اس کے ارکان عوام کے ووٹ لے کر آئیں گے تو پھر یہ اپنا کردار بھی بہتر انداز میں نبھانے لگیں گے۔
سینیٹ کے حوالے سے ایک قابلِ غور نکتہ یہ بھی ہے کہ ایک وفاق میں رہنے والے ہرشخص کو چار سطح پر ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے، یعنی بلدیاتی، صوبائی ، قومی اور وفاقی۔ بلدیاتی ادارے ختم کر کے پاکستانیوں سے ایک حق تو چھین لیا گیا ہے، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے لیے الیکشن کی رسم اب جڑ پکڑ رہی ہے لیکن وفاق کے نمائندہ ادارے کے لیے دستور میں عام آدمی کو کوئی حق ہی نہیں دیا گیا۔ بلدیاتی، صوبائی اور قومی ووٹ سے تو حکومتیں بنتی بگڑتی ہیں جبکہ وفاقی ووٹ سے ملک بنتا یا بگڑتا ہے ۔ اس لیے وفاقی ووٹ پاکستانیوں کا گم شدہ حق ہے جو انہیں واپس ملنا چاہیے۔یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب حکومت سازی میں سینیٹ کا کوئی کردار ہی نہیں تو پھر سینیٹرز پر پارٹی پالیسی کی پابندی بھی کیوں لازمی ہو؟ ان لوگوں کو اپنی مرضی کے آزادانہ اظہار کو موقع دیا جائے تاکہ یہ لوگ ملک کے مفاد کے تابع فیصلے کریں نہ کہ اپنے پارٹی کے سربراہ کے اشاروں پر ادھر اُدھر ہوتے رہیں۔سینیٹ کے براہ راست انتخاب کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے عمران خان نے بھی اپنی ایک پریس کانفرنس میں اس کی تائید کی ہے۔ اگر یہ محض جوشِ خطابت نہیں تھا تو انہیں چاہیے کہ وہ قدم بڑھائیں اور دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاکر سینیٹ کو آزاد کرائیں۔