ہر سال کی طرح اب کی بار بھی 8 مارچ کو دنیا بھر اور پاکستان میں '' خواتین کا عالمی دن‘‘ زیادہ تر روایتی انداز میں ہی منایا گیا۔ زیادہ تر پروگراموں کا سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے ہی انعقاد کروایا جس میں موجودہ نظام میں رہتے ہوئے ہی اصلاحات یاقانون سازی کے ذریعے خواتین پر جبرواستحصال کو ''کم‘‘ کرنے کی باتیں ہوئیں۔اشرافیہ کی ان محفلوں میں استحصال زن کی معاشی اور معاشرتی وجوہ کو اجاگر کرنے سے پرہیز ہی کیا جاتا ہے۔ دوسرے تمام ''دنوں‘‘ کی طرح خواتین کا دن بھی ''روٹین‘‘ ہی بن گیا ہے۔ ایک طرف لبرل اشرافیہ ہے جس کے نزدیک فیشل ایبل کپڑے اور ڈرائیونگ کی اجازت ہی ''خواتین کے حقوق‘‘ ہیں جبکہ مذہبی حلقے چادر اور چار دیواری کی قید کو ہی خواتین کی ''نجات‘‘ قرار دیتے ہیں۔حکمران طبقے کے ان دونوں نظریات کے نزدیک اس ملک میں محنت کش طبقے کی کروڑوں خواتین کو درپیش علاج اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، بھوک اور غذائی قلت جیسے مسائل کا ''خواتین کے حقوق‘‘ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ جن سماجی ڈھانچوں میںحکمرانوں کی یہ'' آزادی نسواں‘‘ مقید ہے وہ زر کی ہوس پر مبنی ہیں جس میں عورت کی حیثیت کموڈیٹی سے زیادہ نہیں ہے۔
انسانی تاریخ میں عورت ہمیشہ سے غلامی کی ان زنجیروں میں جکڑی ہوئی نہیں تھی۔ تاریخ میں ''مادری بالادستی‘‘ یعنی خواتین کی حکمرانی کے سماج بھی رہے ہیں۔ پھر ملکیت کی منتقلی کے لئے خاندانی وارثت کی ضرورت نے طبقاتی سماج کو '' پدرانہ بالادستی‘‘ کا سماج بنا دیا۔ جہاں آبادی کی اکثریت غربت کی گہرائیوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو، بچے ، بوڑھے بلک بلک کر دم توڑ رہے ہوں، نوجوان اپنی جوانی میں دربددر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں وہاں عورت کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 25 فیصد سے زائد خواتین محنت کی منڈی میں موجود ہیں۔2011 ء میں یہ تعداد 24.4 فیصد تھی۔محنت کش خواتین کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے۔ گھریلو تشدد عام ہے۔ گینگ ریپ کے واقعات ہر روز منظر عام پر آتے ہیں۔ معاشی بدحالی زیادہ تر محنت کش طبقے کی زندگی پر ہی محرومی اور مفلسی کے عذاب ڈھاتی ہے لیکن محکوم طبقات کی گھریلو خواتین کو دوہرا جبر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس ماں کے دکھ کا شاید ہی کوئی اندازہ بھی کرپائے جس کے بچے کم عمری میں اسکول جانے کے بجائے چائلڈ لیبر پر مجبور ہوتے ہیں۔ جو خواتین خود اپنے گھر کی معاشی مشکلات دور کرنے کے لئے ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں ایک تو انہیں مردوں کی نسبت کم اجرت دی جاتی ہے اور دوسرا ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پل پل جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے ۔ آج پوری دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو برابر کی اجرت دی جاتی ہو، یہاں تک کہ امریکہ میں بھی یہ فرق بڑے پیمانے پر موجود ہے جو دنیا میں اجرت میں فرق کے لحاظ سے 65 ویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں اجرت کا جنسی تعصب سب سے زیادہ ہے۔پیدائش کے وقت زچہ اور بچہ کی اموات کی شرح پاکستان میں خطے کے دوسرے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ وزارت صحت کی اپنی رپورٹ کے مطابق ہر سال اوسطاً ڈھائی بچے پیدائش کے فوراً بعد ہلاک ہوجاتے ہیں اور ''حکومت25سال میں بچوں میں بڑھتی شرح اموات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘حکومت ہی کے قومی غذائی سروے کے مطابق ''خواتین اور بچوں کی آدھی بھوک جن تین ممالک میں پائی جاتی ہے پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ 51فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں...غذائی قلت کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔‘‘ اور یہ حکمران ہیں جو8مارچ کو شہر بھر میں اپنے کارناموں کے اشتہار لگاتے پھرتے ہیں ۔
طبقاتی سماج میں عورت ایک غیر فطری زندگی گزارنے پرمجبور ہے، انسانی زندگی کا مطلب اور مقصد یہ نہیںہے کہ عورت تمام عمر وقت اور حالات سے سمجھوتہ کر کے ،گھر کی چار دیواروں میں خاندان بناتے بناتے دم توڑدے۔ عورت کا خاندانی غلامی کا عادی ہوجانا تو ایک خوفناک سرطان ہے۔اس غلامی اور محتاجی کا موازنہ بدترین قید و مشقت سے بھی نہیں کیا جاسکتا جہاں کوئی آرام نہیں، کوئی چھٹی نہیں اور نہ ہی کوئی امید کی کرن۔ آج کی عورت کی محکومی کی جڑ بھی وہی نظامِ زر کے جکڑے ہوئے خاندانی رشتے اور گھریلو محنت ہے جس نے اسے صدیوں سے یرغمال بنا رکھا ہے۔
یہ المیہ ہے کہ درمیانے اور بالادست طبقات کی خواتین ''حقوق نسواں‘‘ کی جس تحریک پر غالب ہیں وہ صنفی تعصبات پر مبنی ہے۔ اس سوچ کے مطابق سارا مسئلہ عورت اور مرد کے تضاد کا ہے۔اس''سول سوسائٹی‘‘ کو غربت اور مشقت کی چکی میں پسنے والی خواتین کے مسائل کا معمولی ادراک بھی نہیں ہے۔ محنت کش خواتین یا محنت کش طبقے کی خواتین کے مسائل، اورحالات زندگی کی کوئی قدر بالادست طبقے کی خواتین سے مشترک نہیں ہے۔ لائحہ عمل اور منزلیں بھی مختلف ہیں۔ صنفی تعصبات پر مبنی Feminismصرف مردوں کے خلاف حقارت سکھاتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ محنت کش طبقے کے مرد بھی عورتوں پر جبر کرتے ہیں اس لئے مسئلہ مردعورت کا ہے۔ یہ درست ہے کہ محنت کش مرد معمول اور سماجی جمود کی کیفیت میں جس شعوری پسماندگی کا شکار ہوتے ہیں اس کے تحت ان میں قدامت پرستی کے رجحانات حاوی ہوجاتے ہیںاور سماج پر حاوی تعصبات نفسیات میں سرایت کر جاتے ہیں۔ لیکن یہی محنت کش جب انفرادی سوچ کو رد کر کے طبقاتی بنیادوں پر اجتماعی جدوجہد میں داخل ہوتے ہیں تو شعور اورنفسیات پر حاوی رجعت بھی چھٹ جاتی ہے۔ روشن خیالی اور ترقی پسندانہ رجحانات محنت کش طبقے کے شعور کو ایسے نظریات سے منور کرتے ہیں جو جنس، نسل اور مذہب کے تعصبات سے نکال کر انہیں اپنے حقیقی دشمن، یعنی استحصالی طبقے کی پہچان عطا کرتے ہیں۔ ان حالات میں مردانہ شاونزم کی بجائے عورت کو برابر سمجھنے کا شعور جاگ اٹھتا ہے۔ انقلابی تحریکیں سماج کا جمود توڑ کر بدگمانی، مایوسی اور قدامت پرستی کو چیر کر آگے بڑھتی ہیں۔ لیکن پراگندگی کے ادوار میں خواتین بھی قدامت پرستی کا شکار ہوتی ہیں لہٰذا معروض کا جرم بحیثیت مجموعی محنت کش طبقے پر تھوپ دینا بذات خود ایک جرم ہے۔
عورت کی دوہری غلامی کی بنیاد وہ معاشی اور سماجی نظام ہے جو خاندان سمیت معاشرے کے ہر ادارے کو جکڑے ہوئے ہے۔ خواتین پر دوہرے جبر کی ان معاشی وجوہ کو سمجھ کر یکسر تبدیل نہیں کیا جاتا اور موجودہ ریاستی، سماجی اور خاندانی ڈھانچوں کو ایک اشتراکی نظام میں ڈھال کر سرمائے کے جبر سے آزاد نہیں کیا جاتا اس وقت تک آزادی نسواں محض خواب ہی رہے گی۔اس معاشرے میں عورت اور مرد کی برابری ممکن ہی نہیں ہے جہاں مرد، مرد کے اور عورت، عورت کے برابر نہیں ہے۔فکر معاش سے آزاد اس نظام زر کی تقلید کرنے والی بالادست اور درمیانے طبقے کی ''صنفی تعصب‘‘ سے بھری خواتین کے پاس معاشی ذلت اور محرومی میں سلگتی محنت کش خواتین کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔محرومی سے نجات اور معاشی آزادی کے بغیر کوئی ''آزادی‘‘ ممکن نہیں ہے۔عورت کی آزادی اشتراکی معاشرے میں ضروریات زندگی کی بہتات سے ہی مشروط ہے۔