بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ٹیم کا کپتان کھیلنے پر آمادہ ہی نہیں۔ اس ملک کا کیا ہو گا، جس کا سربراہ اپنی ہی ذات کے گرداب میں گم ہے؟
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
وزیرِ اعظم نواز شریف کے بارے میں بدترین اندازے بھی غلط ثابت ہوئے۔ اپنا دفاع کرنے میں وہ ناکام رہے۔ وہ اپنی قوتِ عمل کھو چکے۔ بہت تاخیر اور بہت بددلی سے انہوں نے مہم شروع کی۔ پیش قدمی اور منصوبہ بندی کی بجائے، اپنے نائبین پر انہوں نے انحصار کیا۔ ایک مثال قبائلی گروپ سے رابطہ، دوسری قاف لیگ سے مذاکرات ہے۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سے اس وقت رابطہ کیا، پانی جب سر سے گزر چکا تھا۔ زیادہ سے زیادہ دسمبر کے وسط میں انہیں ایم کیو ایم سے بات کرنا چاہیے تھی۔ وہ انتظار کرتے رہے؛ تا آنکہ متحدہ نے فیصلہ کر ڈالا۔ قبائلی گروپ نواز شریف اور نون لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ صرف یہ کہ موجود انتخابی نظام سے فائدہ اٹھا کر جی جی جمالی کی قیادت میں متحد چھ ارکان نے اپنی پسند کے امیدوار جتوانے کا ارادہ کیا۔ مکالمے کی بجائے، نصف شب کو جاری کیے گئے ایک آرڈی نینس کے ذریعے ان کی راہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ انجام یہ ہے کہ آرڈی نینس واپس لینا پڑا اور اب کاروبارِ حکومت چلانے کے لیے ان کے اکثر مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے۔ اس موضوع پر مشہور محاورہ بہت سے اذہان میں ابھرا ہو گا۔
قاف لیگ کا دروازہ اور بھی مضحکہ خیز انداز میں کھٹکھٹایا گیا۔ سینیٹر مشاہد حسین پارٹی معاملات میں اب سرگرم ہی نہیں۔ پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق کی بات چوہدری برادران کیوں سنتے؟ ایک ملاقات میں چوہدری شجاعت حسین نے خواجہ سعد رفیق کے
بارے میں کہا تھا: جب ان کے والد شہید ہو گئے تو اس کے خاندان کی کفالت کا ہم نے ذمہ لیا اور اب وہ ہمیں سیاسی میّت قرار دیتا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی بولے: جنرل پرویز مشرف مجھ سے کہتے رہے مگر جائیداد کے کاروبار میں، میں نے اس کے لیے مسائل پیدا کرنے سے گریز کیا۔ میں نے ان سے کہا: میں اسے روزی کمانے سے روک نہیں سکتا۔ مراد یہ تھی کہ ذاتی سطح پر خوشگوار مراسم کی اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔ پرویز رشید کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اگرچہ ان کے درمیان گہرے ذاتی مراسم کبھی کارفرما نہ رہے کہ موصوف شریف خاندان کے ذاتی وفادار ہیں مگر الفاظ کے انتخاب میں وہ بے رحم آدمی ہیں۔ اظہارِ خیال کرتے ہوئے، اپنے سیاسی آقائوں کی خوشنودی کے سوا کوئی دوسرا خیال انہیں چھو کر بھی نہیں گزرتا۔
سیّد مشاہد حسین سے مل کر وہ نکلے تو ان سے رابطہ کیا۔ آشکار تھا کہ وہ چوہدری شجاعت حسین یا چوہدری پرویز الٰہی کو پیغام پہنچانے تک کے روادار نہیں۔ 2013ء کے الیکشن برپا تھے، جب انہوں نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چوہدری صاحبان کو انہوں نے بتا دیا تھا کہ زرداری صاحب کے ساتھ انتخابی مفاہمت کا مطلب ان کے نزدیک سیاسی خود کشی ہو گا۔ خود کو معاملات سے انہوں نے الگ کر لیا تھا؛ اگرچہ روایتی وضع داری کے طفیل، دونوں نے ایک دوسرے پر نکتہ چینی سے گریز کیا۔ ایسے میں نواز شریف یہ امید کیسے کر سکتے تھے کہ مشاہد حسین محض ان کی خاطر ایک متنازعہ سیاسی مہم کا حصہ بن جائیں۔ موخرالذکر کو
جس سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اہم بات یہ ہے کہ خود مشاہد حسین سے بھی حکمران جماعت کا یہ اوّلین رابطہ تھا۔ وہ آدمی جو پاک چین مراسم کے محاذ پر برسوں سے سرگرمِ عمل ہے اور جسے خارجہ امور کا ایک ممتاز ماہر مانا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا: نون لیگ کے وفد کو میں نے بتایا کہ اپنی فتح کا علم لہرانے کی بجائے، انہیں کسی چھوٹے صوبے اور چھوٹی پارٹی سے سینیٹ چیئرمین کا چنائو کرنا چاہیے۔ اس موڑ کو قومی مصالحت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ مشاہد حسین کے طرزِ عمل کو ایک سادہ سے جملے میں بیان کیا جا سکتا ہے: جنابِ والا، میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
عمران خان سے بات کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ کسی کو ہمت ہی نہ پڑی۔ عمران ان کی بات کیوں سنتے؟ ظاہر ہے کہ وہ فوری طور پر عدالتی کمیشن کے اعلان کا مطالبہ کرتے اور یہ مطالبہ نواز شریف تسلیم نہیں کر سکتے۔ اگر ایک آزاد اور طاقتور عدالتی کمیشن قائم ہو سکے۔ اگر وہ طے کر ڈالے کہ 2013ء میں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت دھاندلی ہوئی تو وہ کریںگے کیا؟
برسبیلِ تذکرہ، یہ کہ تحریکِ انصاف اپریل میں ایک بار پھر ایجی ٹیشن کی تیاری کر رہی ہے۔ کپتان نے پارٹی کے ضلعی صدور کا جو اجلاس آج اسلام آباد میں طلب کیا ہے، اس کی غایت یہی ہے۔ یہ خیال اگست کے آخر میں پھوٹا تھا، جب پاکستان عوامی تحریک کا ایک وفد جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ان سے ملنے آیا۔ اسحٰق خاکوانی بھی موجود تھے، جن کے اجداد میں سے بعض کا تعلق ڈیرہ اسمٰعیل خان کے گنڈا پور خاندان سے تھا۔ انہوں نے پارٹی کے لیڈر خرم نواز گنڈا پور سے کہا: کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ شریف خاندان کی قوّت کا مرکز لاہور ہے۔ سیاسی طور پر اس کا محاصرہ کیا جا سکے تو اس شجر کی جڑیں کمزور ہو جائیں گی۔ معلوم نہیں، اس احتجاج کی نوعیت کیا ہو گی مگر یہ تو آشکار ہے کہ علامہ طاہرالقادری ماڈل ٹائون کے قتلِ عام اور عمران خان انتخابی فراڈ کو جواز بنا کر اپنے کارکنوں کو متحرک کر سکتے ہیں۔ اس سوال کے ساتھ کپتان اٹھ کھڑا ہو گا کہ جب اس نے نواز شریف کی سب شرائط مان لیں، تب بھی وہ عدالتی کمیشن کے قیام کا وعدہ کیوں پورا نہیں کرتے؟ عوامی تحریک کے کارکن اپنا حساب برابر کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ جب وہ یہ کہیں گے کہ سزا تو درکنار، قتلِ عام کی تفتیش تک نہیں کی گئی تو پنجاب اور مرکزی حکومت کے پاس جواب کیا ہو گا؟
اس وقت جب داخلی اور خارجہ محاذ پر ایک سے ایک بڑا چیلنج موجود ہے، و زیرِ اعظم ذہنی طور پر تعطل کا شکار ہیں۔ ارسا نے انہیں بتا دیا ہے کہ پانی کا ایک خوفناک بحران پیدا ہونے والا ہے۔ اتنا بڑا کہ اس سے نمٹنے کے لیے آئندہ پانچ برس کے تما م ترقیاتی پروگرام منسوخ کر کے سب کا سب سرمایہ آبی ذخائر کے لیے مختص کرنا ہو گا۔ پانی و بجلی کے وزیر خواجہ آصف اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر یہی بات علی الاعلان وہ کہہ بھی چکے۔
مشرقِ وسطیٰ ایک خوفناک ہنگامے سے دوچار ہے اور پاکستان الگ تھلگ رہ نہیںسکتا۔ ترکی کے طیب اردوان اور مصر کے جنرل سیسی کے بعد، شاہ سلمان کی دعوت پر میاں محمد نواز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ داعش ایک طوفان بن کر اٹھی ہے۔ ایران نے متعصب عراقی حکومت کے علاوہ صدر بشارالاسد اور یمن کے شیعہ قبائل کی تائید کر کے بحران کو اور بھی الجھا دیا ہے۔ شام اور عراق پہلے ہی جل رہے ہیں۔ یمن اور لیبیا میں حکومت کا وجودہی باقی نہیں۔ سعودی عرب کو خطرات لاحق ہیں۔ عراق اور یمن کے ساتھ اپنی 1700 میل سرحدوں پر وہ دیوقامت باڑ لگا چکا۔ سعودیوں کو پاکستان کی عسکری امداد درکار ہے کہ عدم استحکام کا خطرہ ٹالا جا سکے۔ جلد ہمیں فیصلہ کرنا ہے۔
ایک وسیع تر قومی مفاہمت پر بات ہوتی رہی۔ عملاً اس کا مطلب یہ رہا کہ چند سیاسی جماعتوں میں تنائو کم سے کم ہو۔ پیپلز پارٹی، نون لیگ، ایم کیو ایم اور بلوچستان کی علاقائی جماعتیں۔ تحریکِ انصاف کیوں نہیں؟ وہ سب سے بڑی، سب سے متحرک اور اصل اپوزیشن پارٹی ہے۔ اس وقت جب سپریم کورٹ کے دبائو میں بلدیاتی الیکشن درپیش ہیں، یہ سوال اور بھی اہم، اور بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں ایسا ہنگامہ اٹھنے والا ہے کہ مدتوں یاد رہے گا۔
چیلنج اور بھی ہیں۔ بنیادی مسئلہ مگر یہ ہے کہ ٹیم کا کپتان کھیلنے پر آمادہ ہی نہیں۔ اس ملک کا کیا ہو گا، جس کا سربراہ اپنی ہی ذات کے گرداب میں گم ہے؟
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی