تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     11-03-2015

کینیڈا کی سفارت

کینیڈا کئی لحاظ سے پاکستان کے لیے اہم ہے۔ کینیڈا کا نقشہ دیکھیں تو امریکہ کی ایکسٹینشن لگتا ہے ۔ رقبے میں یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن آبادی امریکہ سے خاصی کم ہے کیونکہ یہاں برف کچھ ضرور ت سے زیادہ ہی پڑتی ہے ۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ کئی عشرے پہلے کراچی میں ایٹمی بجلی گھر ''کنوپ‘‘ لگا تھا‘ یہ کینیڈا کے تعاون سے ہی لگا تھا۔ کینیڈا میں تقریباً دو لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔ کینیڈین یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلبا کی خاصی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے‘ نیٹو کا ممبر ہونے کے ناتے سے کینیڈا نے اپنے فوجی افغانستان بھیجے تھے۔ پاکستان اور کینیڈا دونوں کا من ویلتھ کے ممبر ہیں۔ اس وسیع ملک میں پاکستان کے تین قونصل خانے ہیں۔ تینوں کو قونصل جنرل یعنی گریڈ بیس کے افسر ہیڈ کر رہے ہیں۔ سول ایوی ایشن کا انٹرنیشنل ہیڈکوارٹر مانٹریال میں ہے۔ اس دفتر میں پاکستانی نمائندہ بھی گریڈ بیس کا افسر ہوتا ہے۔
اوٹاوہ جو ہمارے لیے کئی لحاظ سے اہم دارالحکومت ہے وہاں پچھلے آٹھ ماہ سے ہمارا کوئی سفیر نہیں۔ آخری سفیر میاں گل اکبر زیب تھے جو پچھلے سال جون میں گریڈ 22سے ریٹائر ہو کر واپس پاکستان آ گئے تھے۔ اس کے بعد وزارت خارجہ کی طرف سے ایک دو نام تجویز کئے گئے لیکن سمری وزیر اعظم کے آفس سے واپس نہیں آئی۔ پچھلے چند روز سے میڈیا میں خبر گردش کر رہی ہے کہ وزیر اعظم وہاں کامرس گروپ کے گریڈ بیس کے افسر کو بطور سفیر بھیجنا چاہتے ہیں۔ فارن سروس کے افسروں میں اس خبر سے خاصی بے چینی پائی جاتی ہے ۔یہاں میں اپنے تجربے سے یہ بات قارئین کو بتاتا چلوں کہ اگر کوئی ملک لمبے عرصے تک دوسرے ملک میں سفیر نہ بھیجے تو میزبان ملک اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا کرتے۔ عین ممکن ہے کہ کینیڈا والے اب بھی سمجھ رہے ہوں کہ پاکستان کی نظر میں ہمارا ملک کم اہمیت رکھتا ہے۔ 
1979ء کی بات ہے۔ میں اوٹاوہ میں بطور سکینڈ سیکرٹری متعین تھا۔ اس وقت بھی کوئی آٹھ ماہ سے سفارت خانہ میں کوئی ہائی کمشنر نہیں تھا۔ یاد رہے کہ کامن ویلتھ کے ممالک میں سفیر کوہائی کمشنر کہا جاتا ہے۔اُس سال ہادی رضا علی مرحوم اور ان کے بعد رفعت مہدی قائم مقام ہائی کمشنر رہے۔ درمیان میں تین چار ہفتے ایسے آئے جب میں قائم مقام ہائی کمشنر تھا۔ اسی دوران ایشیا ڈیپارٹمنٹ کے ڈی جی نے مجھے فارن آفس طلب کیا اور خاصی کھچائی کی گئی۔ بار بار سوال یہی تھا کہ کیا پاکستان کی نظر میں کینیڈا غیر اہم ملک ہے۔ مجھے موجودہ وقت کا علم نہیں مگر اس زمانے میں کینیڈا سے ہمیں مالی امداد بھی ملتی تھی۔ خیر میں نے وہی سفارتی جواب دیا جو ایسے مواقع پر دیا جاتا ہے کہ پاکستان کی نظر میں کینیڈا بہت ہی اہم ملک ہے‘ بس انتظامی امور کی وجہ سے نئے ہائی کمشنر کی تعیناتی میں کچھ تاخیر ہو گئی ہے‘ میں آپ کے جذبات پورے خلوص اور ایمانداری سے اسلام آباد پہنچا دوں گا۔ ویسے سفارتی کھچائی بھی بہت پیار اور سلیقے سے کی جاتی ہے ۔ بقول رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
آپ کو یاد ہو گا کہ 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پیرس میں ڈی ایم جی کے گریڈ بیس کے افسر کو جن کا نام غالباً جہاں زیب خان تھا‘ سفیر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت بھی فارن سروس کے افسروں میں خاصی بے چینی دیکھی گئی تھی۔ استدلال یہ تھا کہ کسی دوسرے گروپ کا حاضر سروس افسر سفیر نہیں لگ سکتا‘ رولز اس بات کی اجازت نہیں دیتے اور یہ دلیل درست تھی مثلاً کیا یہ ممکن ہے کہ نیوی کے کسی ایڈمرل کو بری فوج کے ڈویژن کی کمانڈ دے دی جائے ۔ چنانچہ فارن سروس کے افسروں نے اس وقت عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اکرم شیخ کو وکیل کر کے دعویٰ دائر کر دیا تھا۔ پیشتر اس کے کہ کیس شروع ہوتا پیپلز پارٹی نے جہانزیب خان کی پیرس پوسٹنگ کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ اس وقت کے فارن سیکرٹری سلمان بشیر نے اپنے افسروں کے برعکس موقف اختیار کیا تھا لیکن موجودہ فارن سیکرٹری اعزاز چوہدری اپنے افسروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں یقین دلایا ہے کہ میں وزیر اعظم سے بات کروں گا۔ اچھی بات یہ ہے کہ فارن آفس کے افسر ڈسپلن قاعدے اور سلیقے سے اپنے حقوق کا دفاع کر رہے ہیں۔ مجھے ان میں کوئی جذباتیت نظر نہیں آئی۔ البتہ اگر یوسف جنید جو گزشتہ پانچ سال سے استانبول میں قونصل جنرل ہیں کو کینیڈا بھیجنے کے آرڈر صادر ہو گئے تو فارن سروس کے افسر یقینا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔
فارن سروس کسی بھی ملک کی پہلی دفاعی لائن ہوتی ہے۔ بھارت میں فارن سروس کے لیے علیحدہ سے امتحان ہوتا ہے۔ ہر سال سات سے آٹھ لاکھ لڑکے لڑکیاں اپلائی کرتے ہیں اور تقریباً بیس سلیکٹ ہوتے ہیں۔ یعنی پورے بھارت کی کریم ہر سال فارن سروس کا حصہ بنتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی 1972ء تک اچھے طالب علموں کو سول سروس اور فارن سروس میں جانے کا بے پناہ شوق تھا جو اب ختم ہو چکا ہے۔ 1972ء میں تقریباً اسی اسامیوں کی جگہ ایک سو بیس افسر لیٹرل انٹری کے ذریعہ فارن سروس میں لائے گئے ۔ دستوری گارنٹی بھٹو صاحب نے ختم کر دی۔ سروس مورال گر گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں فارن سروس میں مسلح افواج کے افسروں کے لیے دس فیصد کوٹہ مقرر ہوا۔ کچھ عرصے پہلے میں فارن آفس کے ایک سینئر افسر سے بات کر رہا تھا‘ موصوف کو شکایت تھی کہ اچھے طالب علم اب فارن سروس کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر کا رخ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی گویا ہوئے کہ ہم اب اچھی یونیورسٹیوں میں جا کر طلباء اور طالبات کو فارن سروس کی طرف راغب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہیں بتائیں گے کہ ایک تھرڈ سیکرٹری کی تنخواہ اور مراعات پاکستانی پرائیویٹ سیکٹر سے کسی صورت کم نہیں۔ اب آپ خود اندازہ کر یں کس کمال مہارت سے ہم نے اپنے اتنے اچھے ادارے کو تباہ کیا ہے۔ کیا ان حالات میں یہ ادارہ کوئی اور آغا شاہی کوئی اور انعام الحق کوئی اور ریاض محمد خان یا کوئی اور منیر اکرم پیدا کر سکے گا۔
اس وقت پاکستان کے دنیا بھر میں 83سفارت خانے ہیں۔ سفرا کی تقرری کی بنیاد اسی اور بیس فیصد کے فارمولے سے ہوتی ہے یعنی اسی فیصد سفیر فارن سروس کے سینئر افسر ہوتے ہیں جبکہ 20فیصد باہر سے لیے جاتے ہیں۔ یہ فارمولا 1993ء میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی منظوری سے طے پایا تھا ۔ میں اس وقت فارن آفس میں تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس سمری کی وزیر اعظم نے منظوری دی تھی اس میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ بیس فیصد کوٹے کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ 
یوسف جنید کی کینیڈا تقرری کا معاملہ سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں بھی زیر بحث آیا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین اور سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کینیڈا جیسے اہم ملک میں تجربہ کار ڈپلومیٹ کوبھیجنا چاہیے۔ یاد رہے کہ فارن سروس کے افسروں کو سفیر بننے میں بیس سے پچیس سال لگتے ہیں۔
معاف کیجیے موضوع کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا ہے۔ ٹورنٹو کے مضافات میں ایک علاقہ ہے جس کا نام مستی ساگا ہے۔ یہاں کے باسیوں کی اکثریت پاکستانیوں کی ہے یار لوگوں نے مستی ساگا کا پاکستانی نام بیگم پورہ رکھ دیا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ وجہ تسمیہ کیا ہے۔ صورت حال کچھ یوں ہے کہ خاوند مڈل ایسٹ میں کام کرتے ہیں‘ بچوں کی تعلیم کے لیے اکثریت نے کینیڈین امیگریشن لے لی ہے۔ چونکہ مستی ساگا میں بیگمات کی اکثریت رہتی ہے لہٰذا اس کو عرف عام میں وہی نام دیا گیا ہے جو لاہور کے ایک محلے کا ہے۔ آج کل میرے ایک دوست ٹورنٹو سے آئے ہوئے ہیں۔ ان سے بیگم پورہ کی بات ہوئی تو ہنس کر بولے کہ ہم نے جدہ اور دبئی کا نام میاں والی رکھ دیا ہے کہ کمانے والے خاند ان دونوں شہروں میں زیادہ ہیں۔
مجھے اوٹاوہ کے خوبصورت علاقے روکلف میں پاکستانی ہائی کمشنر کا شاندار گھر اب بھی یاد ہے ۔یہ گھر محمد علی بوگرا مرحوم نے خریدا تھا ۔ دفتر کی خوبصورت عمارت کوئی دس بارہ سال پہلے حکومت پاکستان نے خریدی تھی‘ تب میرے دوست مشاہد ملک وہاں ہائی کمشنر تھے۔ میری دعا ہے کہ اوٹاوہ میں کوئی بہت تجربہ کار اور زیرک شخص بطور ہائی کمشنر جلد بھیجا جائے جو دو طرفہ علاقات کو نہ صرف وسعت دے بلک پاکستان کے امیج کو بھی جلا بخشے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved