سورہ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے درجنوں مرتبہ انسانوں اور جنات کو مخاطب ہو کر فرمایا: ''پس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ـ‘‘جب انسان اس آیت مبارکہ پر غوروفکر کرتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو سورہ ابراہیم کی آیت34 میں یوں بیان فرمایا کہ ''اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہوتو انہیں شمار نہیں کر سکتے۔‘‘یہ انسان کی کوتاہ بینی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں کا شکرادا کرنے کی بجائے اس کی ناشکری پر آمادہ رہتا ہے اور بالعموم انسانوںکی اکثریت اللہ کی تقدیر سے شاکی اور گردش ایام پر نالاں نظر آتی ہے۔
گھریلو ماحول، عیال داری ، کاروبار اورلین دین کے معاملات میں آنے والی اونچ اور نیچ کے دوران انسان کئی مرتبہ پست ہمتی کا مظاہرہ کرتے کرتے اللہ کی نعمتوں کو بھی فراموش کر بیٹھتا ہے۔ انسان اگر اپنی ذات اور گردوپیش پر نظر دوڑائے تو اللہ تعالیٰ کی ہر سمت بکھری ہوئی نعمتوں پر غوروفکر کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔
انسان کے اپنے وجود میں بے شمار ایسے نظام کام کر رہے ہیں جو پکار پکار کر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کے فضل کا اعلان کر رہے ہیں۔ا نسان اگر اپنے نظام تنفس اور دوران خون پر غور کرے تو اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ بغیر رکے سانس کی آمدورفت اور دل کی دھڑکن صرف اللہ کا فضل اور اس کی عطاء ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صحت افزاء گیس آکسیجن کو کشید کرتا اور زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کرتا ہے۔ بسا اوقات اسی آکسیجن کی معمولی سے کمی کو دور کرنے کے لیے بڑے بڑے سلنڈروں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اگر زیادہ مدت تک پھیپھڑے اور دل صحیح کام نہ کر سکیںتو کئی مرتبہ انسان کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ ایک صحت مند انسان کے وجود میں بغیر کسی سلنڈر اور دقت کے گیسوں کی آمدورفت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
اگر انسان اپنے نظام انہضام پر غور کرے تو یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ہاضمے کی درستگی بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ نظام انہضام میں معمولی سی بے ترتیبی کا نتیجہ پیچش اور قبض کی صورت میں نکلتا ہے۔ پہلی بیماری انسان میں کمزوری اور نقاہت جب کہ دوسری بیماری گھٹن اور گھبراہٹ کو پیدا کرتی ہے۔ معمولی سی بے ترتیبی کی وجہ سے انسان پر قنوطیت طاری ہو جاتی ہے اور اگر کچھ دن تک یہ بگاڑ جاری رہے تو انسان کی معاملات ِ زندگی میں دلچسپی بھی ماند پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ معدے کے صحیح طریقے سے کام کرنے کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو توانا اور تندرست محسوس کرتا اور زندگی کی سرگرمیوں سے لطف اٹھاتا ہے۔ انسان عام حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا صحیح طریقے سے اندازہ نہیں کر پاتا۔
اسی طرح انسان اگر اپنے حواس خمسہ اور دماغ پر غور کرے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ دماغ کی مدد سے انسان تعلیم وترقی کی مختلف منازل کو عبور کرتا‘ معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرتا ہے۔ دل ودماغ پر چھا جانے والی قنوطیت کو عموماً ڈپریشن سے جبکہ مستقبل کے اندیشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے قراری اور گھبراہٹ کی کیفیت کو اینگزائٹی سے تعبیر کیا جاتاہے۔ اگر دماغ ان دو عارضوں کا شکار ہو جائے تو انسان کی اپنی زندگی اس کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ کارآمد اور صحت مند دماغ کی نعمت پر انسان اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کرے‘ کم ہے۔
انسان کی آنکھ دنیا کے مختلف مناظرکا مشاہدہ اور تجزیہ کرتی ہے۔ انسان اپنی آنکھ کی مدد سے ہر سمت پھیلے ہوئے رنگ اور روشنی کے سیلاب کو دیکھتا اور قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اگر بینائی میں کچھ خلل واقع ہو جائے تو انسان کی زندگی بے کیف ہوجاتی ہے۔ بصارت کی کسی بھی کمی سے نجات حاصل کرنے کے لیے انسان اپنا تمام تر سرمایہ لگانے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ عام حالات میں انسان اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر بھی غوروفکر نہیں کرتا۔
انسان کے جسم میں بننے والے فاضل اور زہریلے مادوں کی صفائی اوراخراج کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو گردوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے یہ چھوٹے چھوٹے گردے وہ کام کرتے ہیں جو ان کی خرابی کی صورت میں بڑی بڑی مشینیں بھی نہیں کرسکتیں۔ گردوں کی خرابی کے نتیجے میں انسان ڈائلیسس کے تکلیف دہ عمل سے گزرتا ہے جس کی وجہ انسان کی زندگی رنج وغم کی تصویر بن جاتی ہے۔ گردوں کی صحیح کارکردگی کے دوران انسان کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت سے فیض یاب ہو رہا ہے۔
انسان کے جسم میں بیسیوں ہڈیاں اور جوڑ ہیں۔ کسی ایک جوڑ یا ہڈی کی خرابی انسان کو غیر معمولی اذیت وتکلیف سے دوچار کر دیتی ہے۔ کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے اگر انسان کی کوئی ہڈی یا جوڑ متاثر ہو جائے تو انسان حسرت سے صحت مندی کے ایام کو یاد کرتا ہے جب کہ تندرستی کے ایام میں وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے غافل رہتا ہے۔
انسان کی شکم پری کے لیے ایک دو قسم کے کھانے بھی کافی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انواع واقسام کے پھل، سبزیاں اورگوشت فراہم کرکے انسانوں کے ذائقے کی حس کو تسکین عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کائنات کو سفید اور کالے رنگوں کے ساتھ بھی تخلیق فرما سکتا تھالیکن مناظر اور رنگوں میں تنوع پیدا فرماکر اللہ تعالیٰ نے بصارت کی تشنگی کو دور فرما دیا۔ اب انسان کے دیکھنے کے لیے نیل گوں آسمان ، سبزدرخت، بھورے پہاڑ، سرمئی پتھر اور درجنوں طرح کے رنگ موجود ہیں۔ ان رنگوں کا انسان کی بصارت پر جو اثر ہے وہ کسی بھی ذی شعور سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
روز وشب کی تلخیوںسے نجات حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی شریک زندگی کو پیدا کیا جس کے پاس جا کر انسان سکون حاصل کرتا ہے۔ پروردگار عالم نے شوہر اور بیوی کے دلوںمیں ایک دوسرے کے لیے مودّت اور رحمت کو پیدا فرما دیا ہے۔ ان قابل قدر جذبات کی وجہ سے شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی طرف مائل رہتے اور خندہ پیشانی کے ساتھ ز ندگی کے نشیب وفراز کا مقابلہ کرتے ہیں۔ شوہر یا بیوی کی وفات انسانی زندگی میں جو خلا پیدا کرتی ہے اس کا عام حالات میں انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اسی طرح انسان کے دل کو سرور عطاء فرمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اولاد کی نعمت سے بہرہ ور فرمایا۔ بیٹے اور بیٹیاں زندگی کی وہ رونق ہیں‘ جن کی عدم دستیابی سے زندگی المیہ بن جاتی ہے۔ شوہر اوربیوی کی مثالی محبت بھی اولاد کی محرومی کا ازالہ نہیں کرسکتی، انسانوں کی غالب اکثریت اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا بھی صحیح طریقے سے تعین نہیں کر پاتی اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو معمول کی زندگی کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے۔
دن اور رات اللہ تعالیٰ کی دو نشانیاںاور نعمتیں ہیں۔ دن معاشی سرگرمی اور رات سکون کے لیے بنائی گئی ہے۔ اگر ان دونوں نشانیوں میں سے کوئی ایک نشانی مفقود ہوتی تو انسان کی زندگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا جس کا سر دست انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
حسن اور جوانی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جن کے حصول کے لیے انسان کو کسی بھی قسم کی مشقت کا سامنا نہیں کر نا پڑتا اور یہ نعمتیں انسانوں کو بن مانگے حاصل ہو جاتی ہیںاوراگر حسین نہ بھی ہوتو کم ازکم جوانی کی نعمت تو بڑھاپے تک پہنچنے والے ہر شخص کو حاصل ہوتی ہے۔
ان تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہدایت اور ایمان کی نعمت ہے۔ اگر انسان صراط مستقیم پر ہو تو یہ ساری نعمتیں معنی خیز ہیں اور اگر انسان گمراہ ہو جائے تو ساری نعمتیں بے معنی اور بے مقصد ہیں۔ نعمتوں کے سمندر میں غرق انسان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوںکو معنویت اور مقصدیت عطاء کرنے کے لیے اپنے ایمان اور ہدایت کی فکر کرنی چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی بجائے اس کا شکر ادا کیا جا سکے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نعمتوں کا اعتراف کرنے والا صاحبِ ایمان مسلمان بنائے۔ (آمین)