تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-03-2015

کرکٹ میں کاروبار

جب سری لنکن ٹیم پر لاہور کے لبرٹی چوک پر حملہ کیا گیا تو اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے پس پردہ کرداروں میں کون کون لوگ شامل ہیں لیکن وقت کی گرد جیسے جیسے چھٹتی گئی‘ ہوش ربا حقائق سامنے آنے لگے اور اصلی ماسٹر مائنڈ وہی نکلا جو ایک طرف پاکستان تو دوسری طرف سری لنکا کو سزا دینا چاہتا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ سری لنکن عوام جو کرکٹ اور اپنے کرکٹرز سے جنون کی حد تک عشق کرتے ہیں‘ ان کی لاشیں سری لنکا آنے پر پاکستان کے خلاف نفرت کی دیوار کھڑی کر دی جائے اور دوسری طرف پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا خطر ناک ترین ملک بنا کر اس کی کرکٹ اور معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا دیا جائے۔ جیسے ہی سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا ،ساتھ ہی دنیا بھر سے آنے والے تجارتی اور کاروباری وفد پاکستان آنے سے کترانے لگے اور جو ا س وقت یہاں موجود تھے انہوں نے پہلی ہی پرواز سے واپس بھاگنا شروع کر دیا ۔ اس دن سے آج تک ہمارے قومی کھیل ہاکی سمیت پاکستان کے کرکٹ کے میدان کسی غیر ملکی ٹیم کی شکل دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔ کبھی کبھی اپنے مقابل دشمن کی چالوں کو دیکھتے ہوئے اسے داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ کس طرح اس نے پاکستان کو کالا باغ ڈیم پر باندھ کر پانی اور بجلی کے بحران کا شکار کر رکھا ہے تو کہیں پاکستان کے کھیل کے میدانوں کو ویران کر کے دنیا بھر سے الگ کر دیا ہے۔ کسی بھی ملک میں جانے والے کھلاڑیوں کو اپنے ملک کا سفیر کہا جاتا ہے اور جب پاکستان میں کھیلنے کیلئے کوئی سفیر ہی نہیں آئے گا تو لوگ اس کے ساتھ کاروبار کس طرح کریں گے؟ اس معاملے میں آئی سی سی بھی پاکستان کی مدد کرنے کی بجائے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے کھڑا ہوا ہے۔
آئی سی سی میں سال 2013-15ء کے دوران کی جانے والی انتظامی تبدیلیاں اور بگ تھری کی اجا رہ داری با لکل اسی طرح سے ہے جیسے اقوام متحدہ میں سکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین کی ہے اور شائد یہی وجہ تھی کہ '' بگ تھری‘‘ کے نام سے سامنے لائی جانے والی اس اجا رہ داری کو آگے بڑھانے کیلئے بھارت کو سب سے پسندیدہ درجہ دینے والی نواز حکومت نے نجم سیٹھی صاحب کو کر کٹ بورڈ کی چیئر مینی کے منصب پر تخت نشین کرانے کیلئے ہر وہ '' قانونی‘‘ حربہ استعمال کیا جس کی کرکٹ اور قانون کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ادھر ذکا اشرف بحال ہوتے ادھر پھر عدالت کا رخ کر لیا جاتا اور یہ سلسلہ کوئی چھ ماہ تک اس تواتر سے چلتا رہا کہ پاکستان کی کرکٹ دنیا بھر میں ایک تما شا بن کر رہ گئی۔ اگر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے گزشتہ چند سالوں کے دوران کئے جانے والے اقدامات اور اس میں کئے جانے والے من مانے فیصلوں کو سامنے رکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ شرفا کا یہ کھیل جسے دنیا کے ہر کونے میں انتہائی پسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے‘ اسے کرکٹ کے کوئی شیدائی یا محافظ نہیں بلکہ کوئی مافیا کنٹرول کر رہا ہے بلکہ اب تو یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ یہ ادارہ کوئی ٹریڈنگ کمپنی یا سٹاک ایکسچینج کا کوئی ایسا حصہ دار ہے جسے سوائے اپنے سرمائے کے کسی اور چیز کے بہتر ہونے کا خیال ہی نہیں آتا۔ اگر اس کے حساب کتاب کو پچھلے دس سالوں سے بغور دیکھا جائے تو یہ جان کر حیرانی ہونے لگتی ہے کہ اس کے سرمائے میں ہر سال دس سے پندرہ فیصد اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے اور اگر ایک ایک کھاتے کا جائزہ لیں تو ہو سکتا ہے کہ بہت سے حضرات اس پر یقین ہی نہ کریں لیکن انہیں یقین کرنا ہی پڑے گا کیونکہ ایک ایک پیسے کا حساب بتا رہا ہے کہ آئی سی سی کے ریونیو میں آنے والا70 فیصد سے زائد حصہ براہ راست بھارت سے موصول ہو رہا ہے اور وہ ریونیو جو آئی سی سی کو برطانیہ، سائوتھ افریقہ اور آسٹریلیا سے مل رہا ہے اس میں بھی بھارت کی بڑی بڑی کارپوریشنز کے لوگوں کا ہی سرمایہ شامل ہے۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کر کٹ کے فیصلے کرنے والی، کرکٹ کے قوانین بنانے والی اور کر کٹ کے ورلڈ کپ سمیت دوسرے معاملات جن میںامپائروں کی تعیناتی سمیت بائولرز کے ایکشن اور پھر اس کی نشاندہی اور درستگی کے مراحل طے کرنے والی آئی سی سی کن کی محتاج ہے؟۔جن سے گھر چلتا ہو اس کی خوشنودی تو ہر کوئی حاصل کرتا ہے اور پھر بات ورلڈ کپ تک ہی نہیں رہ گئی بلکہ اب تو سارا سال چلنے والی آئی پی ایل کا دھندا بھی عروج پر ہے جس میں سے آئی سی سی کو با قاعدہ حصہ ملتا ہے۔
ہندوستان کے بعد آئی سی سی کی دوسری سب سے بڑی حصہ دار دوبئی کی امارات ایئر لائن کی کر کٹ میں دلچسپی کی بڑی وجہ وہاں آباد بیس لاکھ سے زائد بھارتی شہری ہیں جن کی کر کٹ میں دلچسپی سب سے زیا دہ ہوتی ہے اور اس میں وہاں موجود کھرب پتی انڈین مافیا کے لوگ کسی بھی میچ یا ٹورنامنٹ کیلئے ایڈورٹائزنگ کے ذریعے براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں... کسی کو2007ء کا ورلڈ کپ یاد ہے اوراسے ورلڈ کپ کے آفٹر شاکس کا اگر اندازہ لگانا ہو تو اس کیلئے اسے آئی سی سی کے کھاتوں پر ایک نظر ڈالنی پڑے گی جو اس وجہ سے زمین بوس ہوتے ہوتے رہ گئے کہ جونہی اس ورلڈ کپ کے پہلے رائونڈ میں بھارت کی
کرکٹ ٹیم میچ ہارنے کی بنا پر ٹورنا منٹ سے باہر ہو گئی تھی تو ساتھ ہی سپانسر کے اربوں روپے بھی ڈوب گئے جس سے آئی سی سی زبر دست خسارے میں چلا گیا تھا۔ اس تلخ تجربے کے بعد اس وقت آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جو ورلڈ کپ کھیلا جا رہا ہے‘ اس میں فیصلہ کیا گیا کہ دوسرے رائونڈ یعنی کوارٹر فائنل میں جانے کیلئے پہلے رائونڈ میں کل42 میچ کھیلے جائیں گے جبکہ اگر آپ باقی ماندہ میچوں کی تعداد پر نظر ڈالیں تو آپ حیران ہوں گے کہ ان کی کل تعداد صرف سات بنتی ہے۔
کیا یہ آئی سی سی کا نیا کھیل نہیں ہے کہ دنیا کو کوارٹر فائنل سے فائنل تک کے میچوں سے قبل 42 میچ دیکھنے ہی ہوں گے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلے جانے والے اس ورلڈ کپ کی کل آمدنی آئی سی سی کے اندازے کے مطابق کسی طرح بھی600 ملین ڈالر سے کم نہیں ہو گی اور اگر یہ کہا جائے تو ذرا برا بر بھی غلط نہیں ہو گا کہ اس کا پچاس فیصد سے زائد حصہ بھارت سے مل رہا ہے۔۔۔اب اگر کسی بھی کاروباری شخص سے اگر کوئی یہ پوچھے کہ جس ملک سے آئی سی سی کو ورلڈ کپ اور اگلے چار سال تک ہونے والے میچوں سے پچاس فیصد سے زائد ریونیو ملنے کی امید ہوتی ہے ،اسے کون ناراض کرے گا۔ اس ملک کے لوگوں کی کر کٹ اور اس کے کھلاڑیوں سے دلچسپی آئی سی سی کیسے کم کرنے کی جسارت کر سکے گا؟۔کیا اب بھی کسی کو یہ شک کرنے کی ہمت ہو سکتی ہے کہ سعید اجمل اور محمد حفیظ پر پابندی کیوں اور کس لیے لگائی گئی تھی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved