گلی گندگی سے بھری ہو اور آدمی اپنے گھر کا فرش چمکاتا رہے تو کون اسے اجلا کہے گا۔
فاروق گیلانی ایک منفرد آدمی تھے۔ اصلاً ایک نظریاتی آدمی مگر سول سروس کے طویل اور تلخ تجربات نے انہیں حقیقت پسند بنا دیا تھا۔ دیانت دار، راست گو اور کثیرالمطالعہ۔ بیک وقت ادب، اقتصادیات، تاریخ اور دینیات کے طالبِ علم ۔
2002ء کے الیکشن میں متحدہ مجلسِ عمل نے شاندار فتح حاصل کی تو جوش و جذبے سے بھرے فاروق گیلانی کے رفیق اسلام آباد کلب پہنچے۔ انہوں نے دلائل کی بوچھاڑ کر دی: سرحد میں علما کی حکومت بن گئی ہے۔ ان کی مدد کے لیے پوسٹنگ اب پشاور کرا لینی چاہیے۔ فاروق گیلانی چائے میں چینی گھولتے رہے۔ ایک دو بار انکار میں سر ہلانے کے سوا، انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے، جب یہ آشکار ہوا کہ ایم ایم اے کے لیڈر دوسروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ جماعتِ اسلامی کے وزرا کرپشن کا شکار نہ ہوئے مگر دوسروں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ دہشت گردی کا عفریت پروان چڑھتا رہا اور کوئی فکر ان رہنمائوں کو اس کی نہیں تھی، بالآخر جو پورے ملک کے لیے عذاب بن گیا۔
فاروق گیلانی سیّد اسعد گیلانی کے فرزند تھے۔ جماعت سے انہیں ہمدردی بھی تھی مگر تجزیہ بے لاگ کرتے۔ لاہور جا کر سید منور حسن سے وہ ملے اور یہ کہا: بہت تیزی سے جماعت خاکسار تحریک بنتی جا رہی ہے۔ بار بار مجھ سے وہ کہتے کہ میں عمران خان کو جماعتِ اسلامی اور قاف لیگ کے ساتھ انتخابی اتحادکے لیے آمادہ کروں۔ صورتِ حال سازگار نہ تھی۔ حالات کا دھارا ایک اور سمت میں بہہ رہا تھا۔ رہنما ایسے نہ تھے کہ عہدِ آئندہ کی پیچیدگیوں کا ادراک کر سکتے ... اور زمانہ کب کسی کا انتظار کرتا ہے۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
فاروق گیلانی مرحوم کو قائل کرنے پر تُلے افسر کی یاد مجھے رضا ربّانی کے لیے پیہم تحسین سے آئی، جس کا سلسلہ پرسوں پرلے روز سے جاری ہے۔ میڈیا میں عظیم اکثریت کا رویّہ انہی کی مانند ہے۔ خوش فہمیوں کا ایک ہیولہ تخلیق کرنے کی سعی!
رضا ربّانی یقینا ایک اچھے آدمی ہیں۔ پارلیمانی امور اور سیاست کا تجربہ بھی۔ جس طرح کا مال پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے خزانوں میں پایا جاتا ہے، اس میں وہی ایک قابلِ قبول ہیرا تھے۔ سچّا موتی تو ایک بھی نہیں۔
سرکشوں کی ایک بستی پر عذاب نازل کرنے کا حکم صادر ہوا تو فرشتے لوٹ کر گئے کہ بارِ الٰہا اس دیار میں ایک عابد و زاہد بھی ہے۔ فرمایا: وہ بھی سزا ہی کا مستحق ہے کہ گناہ کے سانپ اور سنپولیے چہار طرف پھیلتے رہے اور کبھی وہ مزاحم نہ ہوا۔
رضا ربانی دیانت دار واقع ہوئے ہیں۔ جمہوریت سے ان کی وابستگی بھی شک و شبہ سے بالا ہے۔ فوجی عدالتوں کے حق میں انہیں ووٹ ڈالنا پڑا تو آنسوئوں کو بمشکل تھام سکے اور یہ کہا: عمر بھر اس قدر شرمندہ میں کبھی نہ تھا جتنا کہ آج ہوں مگر ووٹ پارٹی کی امانت ہے۔
پارٹی کی نہیں، ووٹ ان کے ضمیر کی امانت تھا۔ مستعفی ہونے کی ہمت اگر نہ تھی تو گریز ہی کرتے۔
یہ سترھویں ترمیم پر ووٹ کا مرحلہ تھا، جس کے تحت جنرل پرویز مشرف کو وردی میں صدارت کے لیے توسیع دینے کا فیصلہ ہوا۔ متحدہ مجلسِ عمل اور فاروق لغاری مرحوم کی ننھی سی پارٹی نے مفاہمت کر لی۔ ان کی بھاوج مینا لغاری ایک صاحبِ علم درویش کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ ان کا دل اس سودے بازی پر ناشاد ہے۔ کہا: دنیاوی جاہ و منصب اور عافیت عزیز ہے یا اپنے ضمیر کی آواز۔ وہاں سے لوٹ کر وہ آئیں تو صاف کہہ دیا اس ترمیم کے حق میں ہرگز وہ ووٹ نہ ڈالیں گی اور مستعفی ہونے پر آمادہ ہیں۔ پارٹی پسپا ہو گئی۔
زرداری صاحب کے دور میں یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان، راجہ پرویز اشرف، مخدوم امین فہیم اور مخدوم شہاب الدین سمیت پیپلز پارٹی کے لیڈروں پر کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے۔ ایفی ڈرین، حج کرپشن اور میمو سکینڈل۔ ملکی قرضے 6 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 14 ہزار تک جا پہنچے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، بے نظیر قتل کیس کی بھی صرف دس فیصد سماعت ہی ہو سکی۔ کراچی میں پانچ ہزار افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، اے این پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی جس میں شریک تھی۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں ایک فیصد کمی بھی ممکن نہ ہو سکی۔ الیکشن قریب آئے تو ایران کے ساتھ گیس معاہدے پر دستخط کر دیے گئے؛ حالانکہ سخت ترین پابندیوں کے شکار ملک سے درآمد ممکن ہی نہ تھی۔ بھارت کی طرز پر قطر سے ایل این جی خریدی جاتی تو توانائی بحران میں کمی ممکن تھی۔ گیس اور بجلی کی بندش سے لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوئے۔ دبئی میں پاکستانی سفارت خانہ چھٹی کے دن غیر ملکیوں کو ویزے جاری کرتا رہا۔ ریڈ پاسپورٹ ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے۔ رضا ربّانی کو شرمندگی محسوس ہوئی تو فقط فوجی عدالتوں کے قیام پر۔
سندھ میں کتنی ہی سرکاری زمین کوڑیوں کے بھائو بک گئی۔ ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ نواب شاہ میں سرکاری اراضی کسی کو الاٹ کی گئی اور پھر نواحِ کراچی میں اسی سائز کے ٹکڑے سے تبادلہ کر دیا گیا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ سندھ حکومت نے تین کروڑ روپے کی بکتربند گاڑی اٹھارہ اٹھارہ کروڑ میں خریدنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پولیس کی دس ہزار ملازمتیں وزرا، ارکانِ اسمبلی اور پولیس افسروں میں بانٹ دینے کا ارادہ تھا۔ بھائو چار سے چھ لاکھ تھا۔ آخری وقت پر وزیرِ اعظم اور آرمی چیف مداخلت نہ کرتے تو سندھ پولیس شاید مکمل طور پر مجرموں کا ٹولہ بن جاتی۔ عطا ربانی کے فرزند کا دل نہیں کڑھتا، قائد اعظمؒ کے جو اے ڈی سی تھے۔ اپنے رہنما کی یاد دل میں بسائے جنہوں نے زندگی کی۔
سندھ ایک کاروبار کی طرح چلایا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی پولیس افسر ہو، جو چند ماہ سے زیادہ کہیں ٹکا ہو۔ ایران سے سمگل شدہ تیل کے قافلے اندرونِ سندھ میں دندنایا کرتے۔ رینجرز مزاحم نہ ہوتے تو ملک کو چالیس پچاس ارب سالانہ کا نقصان پہنچتا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا سربراہ بلاول ہائوس میں براجمان رہتا ہے۔ انور مجید کے قصے ایک ایک زبان پر ہیں۔ ذوالفقار مرزا نے انکشاف کیا ہے کہ ان کی ہر شوگر مل میں، کہا جاتا ہے کہ دراصل جو زرداری صاحب کی مِلک ہیں، مہران بینک کی شاخ قائم ہے۔ کیسی کیسی ہولناک داستان۔ پچھلے دنوں اخبارات کے حوالے سے بعض چونکا دینے والے واقعات کا ذکر کیا تو زرداری صاحب کے بعض نائبین نے زندگی اجیرن کر دی۔ دھمکیوں سے الحمدللہ کوئی خاص پریشانی لاحق نہیں ہوتی لیکن آدھ آدھ گھنٹے کے خطبات کون سنے۔ معاملہ اس قدر اذیت ناک ہے کہ بلاول بھٹو اپنے بابا سے بگڑ کر بیرونِ ملک چلے گئے لیکن رضا ربّانی کے ضمیر میں کوئی خلش نہ ابھری۔ بتایا جاتا ہے کہ افتادگانِ خاک کا درد انہیں بے چین رکھتا ہے۔ سندھ میں گنے کے کاشت کار دن دیہاڑے لٹ گئے۔ 180 کی بجائے 135 روپے ادائیگی۔ پولیس کی مدد سے۔ کیا کسی نے موصوف کو کبھی بے چین پایا؟ کیا کبھی اپنی قیادت سے انہوں نے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی کہ یہ سب کیا ہے؟ کیا بیرونِ ملک زرداری صاحب کی جائیدادوں کے وسیع و عریض سلسلے پر انہیں کبھی پریشانی ہوئی؟ کیا دبئی میں پارٹی وزرا کے پھلتے پھولتے کاروباروں پر کبھی تشویش؟ سرے محل پر اضطراب کی کوئی لہر؟ کرائے کے بجلی گھروں پر؟
گلی گندگی سے بھری ہو اور آدمی اپنے گھر کا فرش چمکاتا رہے تو کون اسے اجلا کہے گا۔