تحریر : ڈاکٹر عائشہ صدیقہ تاریخ اشاعت     12-03-2015

غدار کون ہے؟

ماما قدیر اور فرزانہ مجید بلوچ کوملک چھوڑنے سے روکنے پر جب میںنے چندد ن پہلے سوشل میڈیا پر حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ایک ریٹائرڈ کرنل نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریاست صرف اُس غدار کو روکتی ہے جو دشمن ملک (غالباً بھارت)سے رقم لیتا ہے۔ جب میں نے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے اُن سے پوچھا کہ اُن کے پاس رقم وصول کرنے کا کیا ثبوت ہے تو انہوں نے قدرے سرد مہری سے کہا: ''کافی ثبوت موجود ہیں‘‘ ؛تاہم واضح جواب دینے سے گریز کیا۔ 
دراصل کسی بھی گروہ کی ساکھ خراب کرنے اور اُسے مشتبہ بنانے کے لیے ایسی کہانی پھیلائی جاسکتی ہے، لیکن کوئی شخص یا دھڑا بھی ثبوت فراہم کرنے کے لیے ریاست پر دبائو نہیں ڈال سکتا۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ معلومات کے ذرائع کو تحفظ دینے کی غرض سے مکمل ثبوت فراہم نہیں کیے جاتے۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہی معلومات امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ بھی شیئر کی گئی تھیں۔ کیا ا س سے یہ سوچ دل میں پیدا نہیں ہوتی کہ ایک امریکی سے یہ معلومات شیئر کرکے اُس ''ذریعے‘‘ کی حفاظت کوخطرے میں ڈالا گیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے لوگوں پر اعتماد کرنا خطرے سے خالی نہیںسمجھا جاتا۔ 
اصل سوال یہ ہے کہ ماما قدیر اور فرزانہ بلوچ کو کس چیز نے غدار بنایا؟اس کاسادہ ساجواب یہ ہے کہ انہوں نے پاکستانی قومیت پر تنقید کرتے ہوئے علیحدگی کی بات کی تھی۔ یقینا حب الوطنی کے پیمانے اس سوچ کو غداری قرار دیںگے۔ آپ کسی بھی صورت میں ریاست کے کسی حصے کو الگ کرنے کے تصور کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے؛ تاہم میں سوچتی ہوں کہ کیا ان بلوچ قوم پرستوںکی حرکت پنجاب کے وزیر ِ اعلیٰ سے مختلف قراردی جاسکتی ہے ؟ کیا پنجاب کے موجودہ وزیر ِ اعلیٰ سے یہ بیان منسوب نہیں کہ انہوں نے ایک مرتبہ طالبان سے مخاطب ہوکر باقی پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے پنجاب کے لیے تحفظ مانگا تھا؟ کیا اس کا یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ سب سے بڑا صوبہ پنجاب، یہ کہہ رہاہے کہ وہ دیگر صوبوں کے خراب معاملات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ، اسے صرف اپنا تحفظ ہی درکار ہے؟2010ء میں بن لادن کے احاطے پر کارروائی کے دوران ملنے والی دستاویزات سے پنجاب حکومت اور القاعدہ کے درمیان طالبان کے ذریعے گفتگو کا پتا چلتا ہے۔ایک ''اچھے جہادی گروپ‘‘ حرکت المجاہدین کے امیر فضل الرحمن خلیل نے مبینہ طورپر رابطہ کار کا کردار ادا کیا تھا۔ فضل الرحمن خلیل پر شک کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ کافی عرصہ القاعدہ کے ساتھ رابطے میںرہے (القاعدہ کی انڈین شاخ کاموجودہ سربراہ 2006ء تک حرکت المجاہدین کا کارکن رہا اور اُس نے تربیت بھی اسی گروہ سے حاصل کی۔) مزید معلومات سے پتا چلتا ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف بھی اس گفتگو سے واقف تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیف بن لادن کی پاکستان میں موجودگی بلکہ مقام سے بھی آگاہ تھے۔ صورت ِحال جو بھی ہو، ایک اور سابق آئی ایس آئی چیف نے عالمی میڈیا کو دیے گئے مختلف انٹرویوز کے ذریعے یہی پیغام دیا۔ یعنی یہ کہا گیا کہ ان کا ادارہ بن لادن کی موجودگی سے باخبر تھا۔ ایسے معاملات پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ انفرادی سطح پر برتی گئی کوتاہی تھی،ان کا ادارے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ 
یہ صورت ِحال اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ یہ اہم اور غیر اہم معاملات میں تمیز کرنے میں ناکام رہی ہے۔اگر یادداشت ساتھ دے رہی ہے تو آپ کو یا د ہوگا کہ ساٹھ کی دہائی میں یہ مفروضہ تراشا گیا کہ مشرقی بازو کا دفاع مغربی بازو کے ذریعے ہوگا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کا فوجی دفاع ممکن نہیں، اس لیے مغربی پاکستان میں موجود طاقتور فوج بھارت کو خوفزدہ رکھ کر اسے مشرقی حصے پر جارحیت سے باز رکھے گی۔ چنانچہ مشرقی حصے میں طاقتور فوج نہ رکھی گئی کیونکہ (ملک کے) اُس خطے کو اہمیت نہ دی گئی۔ انجام کار، جب 1971ء کی جنگ شروع ہوئی تو مذکورہ مفروضہ ثابت کرنے کے لیے کچھ نہ کیا جاسکا۔ اس مثال کا سبق یہ ہے کہ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کسی حصے کو غیر اہم قرار دے سکتی ہے لیکن اگر کوئی اس رویے پر اعتراض کرے تو اسے اُس حرکت کی سزادی جائے گی۔ 
ریاست کے نقطۂ نظر سے ماما قدیرکا گناہ انتہا پسندوں کے ساتھ، جن کے ہاتھ ہمارے ہزاروں شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، روابط رکھنے سے زیادہ سنگین ٹھہرا۔ انٹیلی جنس ایجنسی کا مخصوص رویہ باور کراتا ہے کہ کسی بھی انٹیلی جنس تنظیم کی طرح اسے بھی شورش پسندوں کے ساتھ روابط رکھنا ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ تمام تنظیمیں ایسا کرتی ہیں۔ بن لادن کا معاملہ تو ''معلومات کی خاطر رابطہ رکھنے ‘‘ سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔ ایک ریٹائرڈ جنرل کا کہنا ہے کہ تشدد اجتماعی نقصان کا ہی ایک پہلو ہوتا ہے۔یہ افواج کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے سٹریٹیجک مقاصد پورے کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہریوں کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ ان اقدامات کی مذمت کریں جن کی وجہ سے ہزاروں شہری اپنی جان سے گئے۔ یقینا ایک سو چالیس بچوں کی المناک ہلاکت پر کسی کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جائے گا، نہ ہی بلوچستان اور پاکستان کے دیگر حصوں میں ہونے والی ہلاکتوں کا کسی پر الزام آئے گا۔ 
مزیدبرآں‘ ایسے اعترافات اور رازوں کا افشا پاکستانی ریاست کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ جو حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ یہاں کی ریاست بہت طاقتور لیکن معاشرہ بہت کمزور ہے۔ اگرچہ سیاسی نظریات پیش کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی ریاست بھی تشدد پر اجارہ داری نہیں رکھتی‘ لیکن میری دلیل یہ ہے کہ غیر ریاستی عناصر کوتشدد کرنے کی چھوٹ دینا ریاستی کمزوری نہیں بلکہ ایک طے شدہ معروضہ ہوتا ہے۔ اسرائیل سے لے کر امریکہ ، بھارت اور پاکستان ، سب ایسا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے قارئین یہ یاد دلانے کی کوشش کریں گے کہ گزشتہ تین سے چار سال کے دوران بہت سے جنرلوں نے اپنی تقاریر اور بیانات میں برملا کہا کہ پاکستان کو حقیقی خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی عناصر سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ تشددمیں شیئر نہیں چاہتے ۔ ماضی میں یہ شیئر ریاست کے نقصان پر کیا گیا تھا۔اس دوران عوام کی جان کو پہنچنے والے نقصان سے بھی اغماض برتا گیا۔ اب فارمولا یہ ہو گا کہ جب ضرورت ہو گی، دی گئی طاقت واپس لے لی جائے گی۔ سول سوسائٹی کے کچھ دھڑے یقین رکھتے ہیں کہ صرف فوج ہی طالبان اور جہادی قوتوں سے نمٹ سکتی ہے۔ ایسا ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، لیکن ایک بات ہم یقینی طور پر نہیں جانتے کہ کیا مکمل طور پر ذہنیت تبدیل ہوگئی ہے یا ایسا ہونا ابھی باقی ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved