تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-03-2015

ٹوٹے اور کچھ مشکوک شاعری

بالآخر سینیٹ کی چیئرمین شپ کا ٹنٹا نکل ہی گیا اور دونوں بڑی پارٹیوں کا جناب رضا ربانی کے نام پر اتفاق ہو گیا؛ تاہم بعض چھوٹی جماعتوں بشمول ق لیگ سخت مایوسی کا شکار ہوئیں جبکہ اس کا ناز نخرہ بھی کسی کام نہ آیا اور اب یہ سابقہ تنخواہ پر ہی کام کرے گی۔ دیگر چھوٹی پارٹیوں کا لالچ یہ تھا کہ انہیں اس لینے دینے میں انعام و اکرام کا گمان بھی تھا کہ اگر ووٹ دیں گے تو کچھ ملے گا بھی۔ بہرحال اب وہ پیپلز پارٹی کے سابق دور والا زمانہ پھر سے لوٹ آیا ہے جس کے زعماء کے خلاف جاری اور زیر نظر مقدمات ایسے غائب ہوں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ‘ اور ہر دو سابق وزرائے اعظم سمیت دیگر معززین کے خلاف زیر تفتیش و التواء مقدمات عدم ثبوت کی بنا پر داخل دفتر ہونے لگیں گے جبکہ خود زرداری صاحب بطورِ خاص سکھ کا سانس لیں گے بلکہ کوئی کسی کو آئندہ بھی پوچھنے والا نہ ہوگا؛ چنانچہ یہ سب کچھ جو ہوا ہے‘ کم از کم عمران خان کی حد تک بہتر ہوا ہے یعنی ع 
خدا شرّے برانگیزد کہ خیرِ ما در آں باشد 
کہ اس کی مرتی ہوئی سیاست میں جان پڑ جائے گی کیونکہ ایک تو اس مفاہمت کے بعد حکومت کے رویے میں سختی آئے گی اور جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مسئلہ پھر کھٹائی میں پڑ جائے گا اور اس نئی پیش رفت کے تناظر میں پیپلز پارٹی والے بھی اس معاملے پر حکومت پر دبائو ڈالنا ترک کردیں گے جس کے نتیجے میں عمران خان کو ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کا جواز حاصل ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں چونکہ عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے جس کی اب دونوں پارٹیاں ذمہ دار ہوں گی۔ حکومت کے خلاف اور عمران خان کے حق میں رائے عامہ تیزی سے بدلنا شروع ہو جائے گی اور اس کے جلسوں جلوسوں پر پھر وہی رنگ آ جائے گا جو چند ماہ پہلے اور دھرنوں کے دوران تھا اور خود عمران خان کے کھل کر حکومت مخالف رویہ اختیار کرنے سے اس کا سیاسی مستقبل جو گومگو کے دور میں داخل ہو گیا تھا‘ واضح اور صاف ہو جائے گا۔ 
نوٹس لے لیا! 
ایک اخباری اطلاع کے مطابق چیف الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے انتخابات کے دوران خیبرپختونخوا اسمبلی میں بدنظمی کا نوٹس لے لیا ہے کہ تین بار پولنگ کیوں روکی گئی۔ البتہ اس بات کا نوٹس نہیں لیا گیا کہ ووٹ کی بجائے خالی کاغذ بیلٹ بکس میں ڈالنے اور اصل پرچی باہر لے جانے پر فی الحال خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔ عام انتخابات کے دوران جس زبردست بدنظمی کا ارتکاب کیا گیا وہ اپنی جگہ پر ایک داستان ہے جس میں آرٹیکل 63,62 کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا گیا اور ان امیدواروں کو بھی کلیئر کر دیا گیا جن کے منہ پر تحریر تھا کہ یہ بینک ڈی فالٹر بھی ہیں اور ٹیکس چور بھی‘ اور اس کے علاوہ ان کی دیانت اور امانت کے بارے میں بھی کچھ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت الیکشن کمیشن نے بھنگ پی رکھی تھی؟ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کا جو رونا عمران خان مسلسل رو رہے ہیں وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان بطور جج کے ایک اچھی شہرت کے حامل ہیں لیکن اس کا کیا جائے کہ انتخابات کروانے والے چیف الیکشن کمشنر بھی ایک سابق جج ہی تھے! 
مشکوک شاعری؟ 
جام پور ضلع راجن پور سے شعیب زمان کی شاعری موصول ہوئی ہے‘ اسے مشکوک قرار دینے کے مختلف اسباب ہیں۔ جن میں سے پہلے لفافے پر ان کا لکھا ہوا پرائمری فیل سٹائل ایڈریس ہے جو اس طریقے سے ہے: 
ماڈل ٹائون ایکس X ٹینشن‘ لاہور ظفر اقبال صاحب کو ملے۔ (نیچے میرا موبائل نمبر ہے) 
حتیٰ کہ گھر کا نمبر بھی نہیں لکھا گیا؛ چنانچہ ڈاکخانے والوں نے فون کر کے گھر کا نمبر دریافت کیا۔ 
پھر یہ شاعری فولز کیپ سائز کے 12 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جس کے نصف سے زیادہ صفحے خالی ہیں۔ علاوہ ازیں مندرجہ ذیل مصرعے باقاعدہ خارج از وزن ہیں۔ 
گرتی ہوئی دیوار بکف گھر قطار میں‘ سہمے دیوار و در میں تو دریا مقیم ہے‘ سڑکوں پہ کھڑی ہاتھ کو پھیلا رہی تھی وہ‘ ناکردہ گناہوں کا الزام ناچے‘ جن کے متلاشی ابابیل تھے ہم‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان کے جو اشعار مجھے اچھے لگے ہیں وہ یہاں درج کر رہا ہوں‘ یہ سمجھ کر کہ یہ شعیب زمان کے ہی ہیں۔ البتہ اگر کوئی اور ان کا خالق ظاہر ہو گیا تو اس کے بارے بھی قارئین کو اطلاع دے دی جائے گی: 
پہلے تو امکان میں آیا جاتا ہے 
تب جا کر پہچان میں آیا جاتا ہے 
کیا خبر مجھ کو مکیں کون ہیں کس کا تھا مکاں 
میں تو بس سایۂ دیوار میں بیٹھا ہوا تھا 
اچھا‘ حیرت کے نیزے چبھتے ہیں 
دل تمہارے بھی پاس ہے گویا 
عشق چونکہ تمام کرتے ہیں 
اس لیے اور کام کرتے ہیں 
کچھ کتابوں کی رازداری ہم 
خشک پھولوں کے نام کرتے ہیں 
آئینہ دھوپ نے دکھایا کیوں 
مجھ سے آگے تھا میرا سایہ کیوں 
آج کا مطلع 
راکھ ہوتا ہوا ہر لحظہ نبڑتا ہوا میں 
رفتہ رفتہ یہ کوئی آگ پکڑتا ہوا میں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved