تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     12-03-2015

ہماری جمہوری قدریں اور احمقوں کی جنت

پچھلے چند ہفتوں سے خبروں پر سینٹ کے الیکشن ہی چھائے رہے، یوں بھی ملک میں‘ بھوک افلاس‘ دوا دارو‘ کرپشن‘ بے روزگاری جیسے چھوٹے موٹے مسئلے تو حل ہو چکے اور اب سب سے بڑا اور اہم مسئلہ سینٹ (ایوان بالا) کے انتخابات تھے۔ یوں 24 گھنٹے خبروں سے لے کر‘ سیاسی ٹاک شوز میں صرف یہی اہم مسئلہ موضوع گفتگو رہا۔ سیاستدانوں کے باہمی رابطے‘ ملاقاتیں‘ ظہرانے ‘ عشائیے خبروں کا عنوان بنے رہے۔ سیاسی منڈی کے کاروبار میں اتار چڑھائو کی خبریں بھی برابر آتی رہیں۔ بظاہر تو ہمارے اصول پسند سیاستدان اس ناپسندیدہ کار سیاست پر لعنت بھیجتے دکھائی دیے اور ان میں سے ہر کوئی‘ پرویز رشید ہو یا رحمان ملک‘ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف بیان بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر دوران خانہ کیا کیا ہوا‘ اس کے لیے صرف اس خیال پر اکتفا کرنا ہی کافی نہیں کہ ؎
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا؟
چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے!
اس لیے کہ چراغ رہ گزر کو بہت سی خبریں ملتی رہیں اور اس وقت دال میں کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ کالا دکھائی دیا جب پنجاب اسمبلی سے پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن ‘ اسمبلی میں اپنی پارٹی کی عددی طاقت سے زیادہ ووٹ لے گئے۔ اگرچہ ہار گئے مگر اپنی اس ہار پر بھی خوشیاں مناتے دکھائی دیے۔ دوسری جانب بلوچستان سے مسلم لیگ ن کے اہم امیدوار یعقوب خان ناصر‘ اسمبلی میں اپنی واضح پارٹی قوت کے باوجود سینٹر منتخب نہ ہوسکے۔وزیر اعظم کا اس ہار پر برہم ہونا‘ ضروری تھا سو وہ ہوئے‘ ساتھ ہی انہوں نے فوری تحقیقات کا حکم بھی دیا کہ ایسے باغی عناصر کو فوراً کچل دینا ہی جمہوری قدروں کی مضبوطی کا باعث ہے۔
سینٹ الیکشن کا ابتدائی مرحلہ جتنا ہنگامہ خیز رہا۔ اگلا مرحلہ اتنا ہی مفاہمت کا شکار نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی سے‘ گزشتہ 47برس سے وابستہ‘ باوقار اور پڑھے لکھے‘ سینیٹر رضا ربانی ‘ اپوزیشن اور حکومتی جماعت کے متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی کہ کپتان نے بھی خلاف توقع ان کی حمایت میں بیان جاری کر دیا۔ کل شہر اقتدار میں زرداری صاحب کی دعوت پر دسترخوان پر سیاسی رہنمائوں کا ایک بڑا اکٹھ ہوا‘ جس میں وزیر اعظم جناب نواز شریف بھی بنفس نفیس شریک ہوئے۔ لذت کام و دہن کے لیے انواع و اقسام کے کم و بیش‘ پندرہ‘ لذیز کھانوں کی رکابیں میز پر سجائی گئیں۔ پیپلز پارٹی آج تمام سیاسی جماعتوں کی میزبان تھی۔ یاد 
رہے کہ اسی پارٹی کے زیر حکومت ایک صوبے میں ایک بدقسمت بستی تھر بھی ہے۔ وہاں آج بھی روزانہ ‘ایک‘ دو یا تین بھوکے‘ بیمار‘ نحیف‘ ننھے بچے‘ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس پراسرار اور افسوس ناک صورتحال کی بنیادی وجہ‘ ایک تحقیقی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ تھر کی بدقسمت مائیں‘ متوازن غذا اور صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث بیمار اور کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہاں روزانہ شیر خوار بچوں کی اموات معمول ہیں۔ تھر یوں کے پیلے‘ زرد اور قحط زدہ چہروں پر ان کی بھوک کی کہانیاں صاف پڑھی جا سکتی ہیں مگر ہمارے بڑے دل والے سیاستدان اسے معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی شہر اقتدار میں‘ مفاہمتی سیاست کے دسترخوان پر سجے ہوئے‘ طرح طرح کے لذیذ کھانوں کی اور چلی گئی قحط کے مارے‘ افلاس زدہ تھریوں کی طرف۔ وہ جو فیض نے کہا ہے کہ ؎
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے
تو چلئے اسی حسین ماحول کی بات کرتے ہیں جہاں‘ ہمارے بااصول ‘ مفاہمت پسند سیاستدان‘ اطمینان بھرے مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ جمع تھے۔ مخالف سیاسی پارٹیوں کے رہنما ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ کرتے ہوئے‘ اپنے تیئں جمہوری قدروں کو مضبوط کر رہے تھے ۔ سلور گرے بالوں کی ننھی سی پونی بنائے ‘ سینٹ چیئرمین کے لیے متفقہ امیدوار رضا ربانی نے بھی فرمایا کہ وہ بھی ‘ آئینی اداروں کی مضبوطی اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ جمہوریت اور جمہوری قدریں وہ نہیں جو مروجہ تعریف پر پوری اترتی ہوں‘ بلکہ وہ ہیں جوہمارے اصول پسند سیاستدانوں کو راس آئیں۔ جو ان کی خوشحالی اور مضبوطی کا باعث بنیں۔ جس سے سیاست میں ان کا سکہ مضبوط ہو۔ جن جمہوری قدروں کی بدولت ان کے بنک بیلنس بڑھیں۔ ان کے خاندان پھلیں پھولیں۔ وہ ہر آئینی ادارے کو ان بنیادوں پر مضبوط کرنا چاہتے یں جو ان کے تحفظ کی ضمانت دے۔ وہ عرب امارات کے شاہوں جیسا طرز زندگی اپنائیں۔ چھینک ماریں یا کھانسی آئے‘ تو ان کا علاج دنیا کی مہنگی‘ اور قابل اعتماد علاج گاہوں میں ہو۔ دنیا بھر کے مہنگے برانڈ پہنیں۔ سیاست میں کروڑوں لگانا ان کی جیب پر بھاری نہ ہو۔ اثاثوں کو ظاہر کرنا ہو تو خود کو''مفلوک الحال‘‘ ظاہر کریں۔ ٹیکس دینے سے بچ جائیں تو بھی کوئی ادارہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ وہ چکنی مچھلی کی طرح ‘ ہر جال سے صاف نکل جائیں۔ اورپھر ''مفاہمت‘‘ بھری سیاست کر کے ملک و قوم کی خدمت کریں۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے نعرے لگائیں۔ خوب صورت الفاظ سے سجی‘ عوام کے درد میں ڈوبی تقریریں کریں۔ جھوٹے وعدے اور کھوکھلے دعوے کریں۔ عدل کے صاحب اولاد ہونے کی دعائیں اشعار کی صورت پڑھیں مگر اپنی ناک کے نیچے ہونے والے 14افراد کے کھلم کھلا قتل کی آزادانہ اور انصاف پر مبنی تحقیقات نہ ہونے دیں۔ نابینائوں کو اسمبلی کی سیڑھیوں پر ذلیل کریں اور اپنی مراعات کے بل‘ متفقہ طور پر پاس کرلیں۔ یہ ہے ہماری جمہوریت اور یہ ہیں ہماری جمہوری قدریں‘ جن کی مضبوطی کے لیے ہمارے اصول پسند سیاستدان دن رات کام کر رہے ہیں۔ رہے افلاس‘ بھوک‘ دوا‘ دارو ‘ کرپشن اور بے روزگاری جیسے عوامی مسائل تو آپ سے کس نے یہ کہا کہ ایسی جمہوریت میں یہ مسائل بھی حل ہونگے۔ غالباً آپ بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved