تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     13-03-2015

ایک تاریخی حادثہ یا سانحہ؟

(آخری قسط)
ضیاالحق کی طرف سے خوشنودی اور قربت کے حصول کے لئے استعمال کئے گئے ان تمام حربوں کے باوجود آرمی چیف ٹکاخان کی مدت ختم ہونے سے چار ماہ قبل تک بھٹو کی نظرانتخاب ضیاالحق پر نہیں تھی‘ لیکن جوںجوں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب پہنچ رہا تھا‘ مختلف ادارے اور ایجنسیاں اگلے چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر میں دلچسپی لے رہی تھیں۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے لئے سبکدوش ہونے والا آرمی چیف حکومت کو آرمی چیف کے عہدے پر تقرری کے لئے مجوزہ ناموں کا ایک پینل منسٹری آف ڈیفنس کے ذریعے بھجواتا ہے۔ ٹکا خان نے اس پینل میں لیفٹیننٹ جنرل محمد شریف‘ لیفٹیننٹ جنرل عظمت بخش اعوان اور لیفٹیننٹ جنرل آفتاب احمد خان کے نام ارسال کئے تھے۔
اگرچہ اس وقت تک حکومت کی طرف سے نئے آرمی چیف کی تقرری کے متعلق کسی قسم کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا مگر آرمی سرکل میں ایک افواہ یہ بھی تھی کہ بھٹو جنرل مجید ملک کو آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت 6انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کر رہی تھیں‘ جن میں 5 ایجنسیوں کے سربراہ سابق پولیس آفیسر تھے اور ایک ایجنسی یعنی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل غلام جیلانی تھے۔ جو پولیس آفیسرز ان پانچ ایجنسیوں کے سربراہ تھے‘ ان میں رائو رشید (سابق آئی جی)‘ سعید احمد خان (ذوالفقار علی بھٹو کے چیف سکیورٹی آفیسر)‘ فضل حق (سابق آئی جی اور سیکرٹری داخلہ)‘ اکرم شیخ (سینئر پولیس آفیسر) اور مسعود محمود(پولیس) جو کہ بھٹو کی بدنام زمانہ فیڈرل سکیورٹی فورس (FSF) کے ہیڈ‘ شامل تھے۔ یہ تمام ایجنسیاں اپنی انٹیلی جنس کی رپورٹیں باقاعدہ طور پر علیحدہ علیحدہ وزیر اعظم کو بھیجتی تھیں۔ جب ان ایجنسیوں کے علم میں آیا کہ جنرل مجیدملک کو آرمی چیف بنایا جا رہا ہے ‘تو انہوں نے باقاعدہ ایک محاذ بنا کر بھٹو کو رپورٹیں بھیجنا شروع کیں اور میرے خلاف یہ موقف اختیار کیا کہ یہ بہت سٹرانگ آدمی ہے اس لئے اس سے حکومت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ صرف آئی ایس آئی نے ابتدائی طور پر ایسی کوئی رپورٹ نہیں بھیجی۔
ان ہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو اور غلام مصطفی کھر کی ناراضگی اور علیحدگی کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ لیاقت باغ راولپنڈی کے ایک جلسے میں کھر نے اپنے پائوں تلے ایک سانپ کو کچل کر کہا کہ میں اس طرح سانپوں کو کچل دوں گا۔ جلسے کے اختتام پر ایف آئی اے والوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو کھر نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر مغرب میں جی ٹی روڈ کا رخ کیا۔ پولیس ان کے پیچھے لگ گئی مگر غلام مصطفی کھر کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اٹک پل سے ان کی گاڑی گزرنے کے بعد ٹریفک بلاک ہو گئی۔ اس وقت اٹک پل پر یک طرفہ ٹریفک چلنے کا سسٹم تھا۔ غلام مصطفی کھر کا تعاقب کرنے والی پولیس کی گاڑیوں کو رکنا پڑا اور غلام مصطفی کھر غائب ہو گئے۔ غلام مصطفیٰ کھر کی روپوشی کے بعد حکومتی اداروں نے ان کی تلاش شروع کی تو یہ قیاس بھی کیا جانے لگا کہ غلام مصطفی کھر جو کہ کورکمانڈر جنرل عبدالمجید ملک کے دوست سمجھے جاتے ہیں‘ انہوں نے ان کے پاس پشاور میں پناہ لے رکھی ہے۔ یاد رہے کہ حسینی والا سیکٹر میں بھٹو کے ہمراہ کھر سے میری ملاقاتیں رہی تھیں‘ اس لئے ایجنسیوں نے یہ قیاس کیا کہ کھر میرے پاس آ کر چھپ گئے ہیں۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ غلام مصطفی کھر اٹک پل سے پولیس کو جُل دے کر شیرپائو چلے گئے تھے اور حیات شیرپائو کے گھر روپوش ہو گئے۔ شیرپائو چونکہ پیپلزپارٹی کا جانا پہچانا راہنما تھا‘ اس لئے اس پر کوئی شک نہ کیا گیا مگر زیادہ تر لوگوں کی رائے یہی تھی کہ کھر کورکمانڈر پشاور کے پاس ہے۔ آرمی چیف ٹکا خان کو جب یہ اطلاع دی گئی تو انہوں نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ عبدالمجید ملک ایسے آدمی کو پناہ دے‘ جو حکومت کو مطلوب ہو۔ بہرحال کھر کی میرے پاس موجودگی کی خبر ہر روز زور پکڑتی گئی کیونکہ کسی دوسری جگہ پر ان کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ ایئرمارشل ذوالفقار علی خان میرے قریبی دوست تھے جو اس وقت پاکستان ایئرفورس کے کمانڈر تھے اور ایئرہیڈکوارٹر بھی پشاور میں ہی تھا۔ ان سے کہا گیا کہ کسی طرح غلام مصطفی کھر کا سراغ لگائیں کہ وہ کہیں عبدالمجید ملک کے پاس تو نہیں ہے؟ جب انہوں نے نفی میں جواب دیا تو دو روز بعد مجھے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل غلام جیلانی کا ٹیلی فون آیا اور کہاکہ میں دوپہر کا کھانا آپ کے ساتھ کھائوں گا۔ جب وہ آئے اور انہوں نے ساری صورتحال مجھے بتائی تو مجھے اس معاملے کی شدت کا احساس ہوا۔ مگر میں نے کھانے کے دوران ہی ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ غلام مصطفی کھر میرے پاس نہیں ہیں‘ ان کو کہیں اور ڈھونڈیں۔ مگر اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین اس وقت ہوا جب اطلاع ملی کہ کھر شیرپائو کے پاس ہے۔ 
اس سلسلے میں ایک اور واقعے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ 1975ء کے آخر میں اس وقت کے صدر فضل الٰہی چوہدری کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں میرے سمیت بہت سے لوگ مدعو تھے۔ جب کچھ تاخیر سے میں وہاں پہنچا‘ تو آئے ہوئے مختلف مہمانوں سے ملاقاتیں کیں۔ غلام مصطفی کھر بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ مختلف لوگوں سے ملاقات کے بعد میں کھر صاحب سے ملا اور کچھ رسمی باتیں شروع ہوئیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب غلام مصطفی کھر اور ذوالفقار علی بھٹو میں دشمنی عروج پر تھی۔ اسی سمے بہت سارے بلند آواز ہوٹرز کی آواز آنا شروع ہوئی‘ جس سے یہ عندیہ ملا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تشریف لا رہے ہیں۔ اس موقع پر غلام مصطفی کھر نے مجھے کہا ''جنرل صاحب! وزیراعظم آ رہے ہیں۔ وہ آپ کو میرے پاس کھڑا دیکھیں گے تو ان کے ذہن میں آپ کے متعلق کچھ غلط فہمی ہونے کا امکان ہے اور چونکہ وزیراعظم نے آپ کو میری موجودگی میںمستقل آرمی چیف بننے کا عندیہ دیا ہوا ہے‘ تو آپ کا آرمی چیف بننا خطرے میں پڑ جائے گا۔ آپ مہربانی کر کے میرے پاس سے چلے جائیں۔‘‘
میں نے جواباً کہا ''اگر اتنی سی بات پہ وزیراعظم کو میری وفاداری پر شک ہو گا تو میرا آرمی چیف بننے کا کیا فائدہ؟اور اب تو میں یہیں کھڑا رہوں گا۔‘‘ وزیراعظم جب مختلف لوگوں کو مل کر ہمارے پاس پہنچے تو کھر صاحب سے بھی ہاتھ ملایا اور جب مجھ سے ہاتھ ملایا‘ تو ان کے چہرے کے تاثرات قدرے متغیر تھے۔
دوسری جانب نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ گرم تھا۔ ایجنسیوں نے حکومت کو اطلاع بھیجی کہ ضیاالحق شریف‘ حلیم الطبع اور بے ضرر قسم کا شخص ہے۔ مہاجر ہے لہٰذا اس کا کوئی مخصوص علاقہ بھی نہیں‘ جس کے افراد کی طرف سے اس کو Backup کرنے کا خدشہ ہو۔ اس لئے حکومت کے لئے موزوں ترین آرمی چیف ضیاالحق ہی ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ حکومتی ایجنسیوں کا کیا دھرا تھا۔ نئے آرمی چیف کے انتخاب کے سلسلے میں کسی میرٹ کا خیال نہ رکھا گیا اور حکومت کو درپیش خدشات کو مدنظر رکھ کر ضیاالحق جیسے جونیئر ترین جرنیل کا انتخاب کیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ایک قریبی ساتھی اور معتمد رفیع رضا اپنی کتاب "Zulfiqar Ali Bhutto and Pakistan 1967-1977" میں آر می چیف کی تقرری کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:
''یہ ذہن میں رکھتے ہوئے وہ چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر میں محتاط تھا کیونکہ وہ آرمی چیف میں وفاداری اور تابعداری جیسی خصوصیات کا ہونا ضروری سمجھتا تھا‘ جو اس نے پہلے جنرل ٹکا خان میں‘ 1972ء میں اور چار سال بعد جنرل محمد ضیاالحق میں دیکھیں۔ اس طرح کی ایک مثال ضیاالحق کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری سے پہلے پیش آئی۔ اس سے پہلے اس کا انتخاب لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک رہا تھا‘ جس کو اس نے میری موجودگی میں واضح عندیہ دے دیا تھا جب کہ ہم تینوں نے رات کا کھانا اکٹھے کھایا تھا۔ بہرحال ستمبر 1975ء میں جب اس نے مجھ سے جنرل ٹکا کے جانشین کے بارے میں بات کی تو اس نے مجید ملک کو اپنے سے مشکوک وفاداری کا بنا پر رد کر دیا اور ساتھ ہی چھ دوسرے جرنیلوں کو بھی نظرانداز کر دیا۔‘‘
بہرحال جب ٹکا خان کی سبکدوشی میں 3 ماہ باقی رہ گئے تو مختلف اطراف سے دبائو کے تحت بھٹو‘ ضیاالحق کے نام پر متفق ہوا اور پھر دسمبر 1975ء کی ایک شام 6 بجے ریڈیو کی خبروں میں اعلان کیا گیا کہ اگلے آرمی چیف جنرل ضیاالحق ہوں گے۔ یاد رہے کہ ٹکا خان کی مدت ملازمت فروری 1976ء میں ختم ہونا تھی۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved