تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-03-2015

ایمانداری کا دُکھ…!

ہم صحافی اپنے آپ کو شاک پروف سمجھتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ بڑی سے بڑی خبر بھی ہمیں اتنی آسانی سے نہیں دہلا سکتی ۔ اگر ہم خود ہی خبر سے دہل جائیں تو پھر کیا رپورٹنگ کریں گے۔ تاہم پچھلے دو دن میں دو ایسی باتیں ہوئی ہیں جنہوں نے مجھے واقعی دہلا کر رکھ دیا ہے۔ 
کسی دوست کے گھر گیا تو وہاں اس کے ڈرائنگ روم میں اس کے دو تین دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک سندھ کے سیاسی مجاور کا بہت قریبی سمجھا جاتا ہے اور اس نے اسلام آباد میں پیپلز پارٹی دور میں کھل کر مال بنایا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر بنایا ہے اور وہ فخر سے سب کو بتاتا بھی ہے۔ وہ موصوف اپنے ایک اور دوست کو کہنے لگا: یار کراچی کا کوئی کام بتائو۔ بڑا کام ڈھونڈو۔ کوئی پاور پلانٹ ٹائپ چیز۔
پہلے نے میری طرف دیکھا ۔ اس کا مطلب تھا کہ کیا کہہ رہے ہو۔ ایک صحافی بیٹھا ہوا ہے۔ وہ میری طرف دیکھ کر بولا تو پھر کیا ہوا۔ تو ٹھیک ہے ناں۔ہم کک بیکس لیں گے۔ مفت تھوڑی ہی ہوگا۔ اگر صحافی سن رہا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اچانک وہ میری طرف دیکھ کر بولا ،آپ ہی بتائیں کوئی فرق پڑتا ہے؟پھر بولا ، چلیں یہ تو چلتا رہتا ہے آپ بتائیں پاکستان میں داعش کے کیا امکانات ہیں۔ اس کا کیا کریں گے۔میں بولا :جناب جن کے پاس اربوں ہیں، حرام کا مال کمایا ہے، محل کھڑے کر لیے ہیں، وہ داعش سے پریشان ہوں۔ہمارا کیا ہے۔ ایک فقیر کو بھلا کیا خوف اور ڈر جس کے پاس ایک کشکول، ایک کمبل اور چند کتابیںہوں۔
ایک دور ہوتا تھا لوگ غلط کام کرنے کے لیے رات کا اندھیرا یا گھر کا تاریک کونا ڈھونڈتے تھے۔ اب یہاں کھلم کھلا لین دین چل رہا ہے۔ اس بات کا بھی ڈر نہیں رہا کون سن رہا ہے اور ہم کیا گفتگو کر رہے ہیں۔ اب وہ اس بات سے بھی لاپروا ہوگئے ہیں کوئی صحافی بیٹھا ہوا ہے۔ انہیں پتہ ہے اب نہ کوئی صحافی ان کا بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی احتساب کا سرکاری محکمہ ہاتھ لگا سکتا ہے اور نہ ہی عدالت ان کو طلب کر سکتی ہے۔ اب یہ فری فار آل ہوگیا ہے۔ اگر آپ اس لوٹ مار میں سے اپنا حصہ نہیں لے سکتے تو پھر آپ کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ آپ ان کے کرتوتوں پر کوئی اعتراض کر سکیں۔ 
اگلے دن واک کرنے گیا تو پیپلز پارٹی دور کے سابق طاقتور وزیر کے بھائی مل گئے جن کی بادشاہی صرف اسلام آباد کی حد تک محدود تھی۔ کبھی اس موصوف سے لندن میں ملاقات ہوتی تھی جہاں ایجوائے روڈپر ان کا برگرز کا سب وے ریسٹورنٹ تھا ۔ حال احوال پوچھا تو خود ہی کہنے لگے، اللہ کا بڑا شکر ہے۔ بیٹے کو ڈی ایم جی افسر لگوا دیا ہے۔ چھوٹا بیٹاڈپٹی ڈائریکٹر ہوگیا ہے۔ ملک کے حالات اچھے نہیں لگ رہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو ہمارا کیا ہے۔امریکہ کا ویزہ ہے، نکل جائیں گے۔
وہ امریکہ کا ویسے ہی چکمادینے کے لیے کہہ رہا تھا ورنہ اس کے پاس برطانوی شہریت ہے اور میں نے اسے خود ایجوائے روڈ پر اپنی سب وے دکان پر برگر بیچتے ہوئے دیکھا ہوا تھا، بلکہ اپنے بھائی کی بدولت اس پورے خاندان نے سرکاری اور سفارتی پاسپورٹس تک لے رکھے تھے اور دنیا بھر کے درجنوں ملکوں میں ان کا داخلہ ہی مفت تھا ۔ جہاں سینگ سمائیں تشریف لے جائیں ۔ چاہے لندن میں آپ برگر ہی کیوں نہ بیچتے ہوں ۔ 
میں حیرانی سے دیکھتا رہا اس ملک کا ان لوگوں کے نزدیک کیا استعمال ہے۔ ایک چراہ گاہ ۔ جہاں وہ پاکستان عوام کا شکار کرتے ہیں ۔ انہوں نے اتنی آسانی سے یہ سب باتیں دس پندرہ سکینڈ میں کہہ دیں اورمجھے سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکاکہ میں انہیں ان کے اتنے کارناموں پر ان کو لائف ٹائم ایوارڈ دوں، مبارکباد دوں یا پھر سر جھکا کر گزر جائوں ۔ انہوں نے میری مشکل آسان کر دی اور مسکراکر نکل گئے۔ میں ابھی تک ان کی مسکراہٹ کی تشریح نہیں کر سکا کہ وہ روایتاً مسکرا رہے تھے یا پھر مجھ پر مسکرا رہے تھے یا پورے پاکستان پر کہ آپ لوگوں کو اس ملک میں رہنے کا فن ہی نہیں آیا ۔
یہ بے خوفی کیسے پیدا ہوئی اور کس نے پیدا کی۔
کہیں یہ تو نہیں ہوا کہ طاقتور طبقات نے ایک دوسرے کے لیے کام کرنا شروع کر دیا ہے ۔ اس اشرافیہ کے نزدیک زندگی اور وہ بھی اچھی زندگی گزارنے کا حق صرف ان کا ہے۔ جو کچھ ہاتھ لگتا ہے سمیٹ لو ۔ خدا نے آپ کو اکیلے ہی اس دنیا میں مال بنانے اور عیاشی کے لیے بھیجا ہے۔ آپ زیادہ سمجھدار اور ذہین انسان ہیں ۔ آپ کا ہی حق بنتا ہے۔ اگر آپ خود بڑے آدمی نہیں تھے تو کوئی بات نہیں ہے۔ جو اس ملک میں پہلے سے بڑے لوگ بن گئے ہیں ان کے نزدیک ہوجائو۔ ان کو یقین دلائو آپ ان کے کتنے وفادار ہیں ۔ ان کے جوتے بھی اٹھانے پڑیں تو اٹھا لو۔ تنہائی میں کون دیکھ رہا ہے۔ ذوالفقار مرزا نے ایسے تو نہیں کہہ دیا کہ زرداری صاحب نے انہیں کہا کہ تم میرا باتھ روم صاف کرو گے۔جواب دیا، نہیں کروں گا تو بولے پھر جس پر تم اعتراض کررہے ہو وہ کر لیتا ہے۔اب بولو!
ذوالفقار مرزا اس کے بعد کیا بولتے ؟
یہ جینے کا وہ سلیقہ ہے جو چند لوگوں کو سمجھ میں آگیا ہے۔ ان کے بچے چاہے مقابلے کا امتحان دیں یا نہ دیں پھر بھی وہ سی ایس ایس کر جاتے ہیں۔ ان کا چاچا اگر طاقتور وزیر رہا ہو اور چیئرمین پبلک سروس کمشن کا سربراہ کبھی ایوان صدر میں کام کر چکا ہو تو پھر وہ کام ویسے ہی آسان ہوجاتا ہے۔ طاقت کے ایوانوں میں گھسنے کا بہترین طریقہ سول سروس ہے۔ایک بچہ پاور میں آجائے تو پھر قسمت کی دیوی مہربان ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ چاچا کل کو دوبارہ وزیر بن جائے گا تو اس کا وہ بھتیجا سٹاف افسر لگ جائے گا اور پھر چاچا بھتیجا مل کر مال بنائیں گے ،راز آئوٹ ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوگا ،نہ ہی کسی اور افسر کو اپنے رازوں میں شریک کرنا پڑے گا اور نہ ہی آمدنی میں کسی کو کمشن دینا پڑے گا ۔ سب کچھ اپنے گھر میں رہے گا ۔
جب کہ دوسری طرف ہمارے جیسوں کے بچے سکول جائیں۔ محنت کریں۔چاہیے وہ دن رات ایک کر دیں انہیں کوئی نوکری نہیں ملے گی۔ ملے گی تو چند ماہ کے لیے چند ہزار روپے کی نوکری اور پھر اسحاق ڈار جیسا کوئی آئے گا اور ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو قلم کی ایک جنبش سے ہی نوکری سے نکال دے گا کہ خزانے میں پیسے نہیں ہیں ۔ خزانہ اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب عوام کی بات ہو وگرنہ اپنی عیاشیوں اور مراعات کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔ کبھی کمی نہیں ہوتی ۔
میری سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی ہے۔ اس ملک میں کرپٹ عناصر کو اتنا بے خوف کس نے بنا دیا ہے۔ 
سینٹ میں اعتزاز احسن اور پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی سابق چیف جسٹس کی مراعات کے خلاف تقریریں سنتے ہوئے بھی یہی لگا ناراضگی کی وجہ وہی ہے آپ کے برخوردار تو مال کما رہے تھے لیکن آپ ہمارے لیڈروں کی کرپشن پر سوموٹو لے رہے تھے۔ اعتراز نے انکشاف کیا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اب لاہور میں نو بیڈ روم کا بڑا گھر بنا رہے ہیں اور وہ حیران ہورہے تھے کہ انہوں نے جب ارسلان کی شادی کرنی تھی تو اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ وہ شادی ایک مالیاتی ادارے سے قرضہ لے کر کی تھی۔ اب اچانک لاہورمیں نو بیڈ روم کا گھر بنانے کے لیے پیسے کہاں سے آگئے تھے۔ 
کس کس کا رونا روئیں۔ اعتزاز احسن کا رونا اپنی جگہ درست ہے لیکن اب کبھی اعتزاز اس طرح سینیٹ میں یہ سوال بھی اٹھا سکیں گے کہ زرداری صاحب کے پاس لاہور میں بلاول ہائوس جیسا بڑا محل کھڑا کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا تھا؟ اب وہ پشاور میں بلاول ہائوس تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ 
اعتزاز کا غصہ جائز ہے۔ زرداری اور افتخار چوہدری کوایک مقام پر نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن کیا کریں اب ہمارے معاشرے میں کردار سے کوئی بڑا نہیں بننا چاہتا، ہر کوئی دولت کے ترازو میں تلنا چاہتا ہے۔ اعتزاز کو اس بات کابھی غصہ ہے کہ سابق چیف جسٹس نے حارث اسٹیل ملز کیس میں ان کی چار کروڑ روپے فیس پر بھی اعتراض اٹھایا تھا جس میں کروڑوں روپے کی فیسیں لینے والے سب پیپلز پارٹی کے سینیٹرز ہی تھے جو سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے نام پر حارث اسٹیل ملز کیس کے ملزمان کو تسلیاں دے رہے تھے۔ اس طرح اقبال زیڈ احمد کے ایل پی جی سکینڈل اور پاور پلانٹ میں اربوں روپے کے ایڈوانس بھی واپس کرانے پر وہ ناراض ہیں ۔ چلیں سابق وزیراعظم گیلانی کو بحال نہ کرنے کا گلہ ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا کر رکھتے ہیں۔ اعتزاز یہ بھی کہتے ہیںکہ ان کے ساتھی وکیلوں نے چیف جسٹس کے سامنے پیش ہو کر اربوں کمائے اور وہ محروم رہے کیونکہ انہوں نے قسم اٹھا رکھی تھی کہ وہ پیش نہیں ہوں گے۔ 
اعتزاز کی باتوں سے لگتا ہے ججز بحالی تحریک میں شامل بڑے بڑے وکلاء نے دراصل سابق چیف جسٹس پر سرمایہ کاری کی تھی اور ان کے بحال ہوتے ہی وہ سب کچھ سود سمیت وصول کر لیا تھا ۔ 
جب اعتزاز احسن سینیٹ میں اپنی ایمانداری کی داستان ہمیں سنا رہے تھے تو مجھے کالم نگار ہارون الرشید کی کہی ہوئی بات یاد آرہی تھی جو انہوں نے ایک سابق وفاقی سیکرٹری کے بارے میںکہی تھی۔''حضور آپ واقعی ایماندار ہیں لیکن آپ کو اپنی ایمانداری کا دکھ بھی بہت ہے‘‘ !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved