مغربی دنیا نے بیشتر،بلکہ تقریباً تمام ہی شعبوں میں فقید المثال ترقی یقینی بناکر باقی دنیا کو حیران کردیا ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش ہر آن جاری ہے۔ ایسے میں سوچا جائے گا کہ مغربی ممالک کی کاوشوں سے دُنیا کو اب تک جنت میں تبدیل ہوجانا چاہیے تھا۔ یا شاید بہت جلد ہوجائے گی۔
نہیں جناب، ایسا کچھ بھی واقع ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ بات یہ ہے کہ مغرب کی ساری ترقی اِس حقیقت میں مضمر ہے کہ باقی دُنیا کو ترقی سے دُور، بلکہ بہت دُور رکھا جائے۔ دُنیا کا اُصول ہے کہ کسی کی خوش حالی دراصل کسی اور کی بدحالی سے مشروط یا اُس کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک باقی دنیا کو بھی اپنی ہی طرح ترقی یافتہ کریں یا ہونے دیں تو اُنہیں ترقی یافتہ کون کہے گا؟
اہلِ مغرب رات دن تحقیق و ترقی کے نام پر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے منصوبے عمل پذیر ہیں۔ بہت کچھ کرنے کی ٹھان لی گئی ہے۔
مرزا تنقید بیگ کو مغرب کی شاندار ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ تنگ نظر ہیں بلکہ بات کچھ یوں ہے کہ مغرب کی بے حِسی نے اُنہیں مضطرب و مشتعل کر رکھا ہے۔ وہ اِس بات پر سخت برہم ہیں کہ مغرب نے بے مثال ترقی کے ذریعے خود کو بہت سے شعبوں میں حیرت انگیز حد تک منوایا ہے مگر اِس ترقی کے ثمرات سے غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر دُنیا کو اُس کا جائز حصہ نہیں دیا۔ ہم نے کئی بار اِس موضوع پر بحث کے دوران اُنہیں قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ مغرب کسی کو اپنی ترقی میں سے حصہ کیوں دے گا؟ سب کو خود ترقی کرنی ہوتی ہے۔ ترقی اور خوش حالی صدقہ و خیرات میں ملنے والی چیز نہیں۔ مرزا کا استدلال یہ ہے کہ مغرب نے باقی دنیا کا حشر نشر کرکے اپنا بھلا کیا ہے۔ کئی اقوام، بلکہ خطوں کو تہس نہس کرکے اہلِ مغرب نے اپنی خوش حالی کا راستہ نکالا ہے۔ جن مغربی اقوام نے دو ڈھائی سو برسوں کے دوران اپنی کایا بدلی ہے اور ہر شعبے میں کامیابی و ترقی کے جھنڈے گاڑے ہیں اُنہوں نے عشروں یا صدیوں تک کئی خطوں کو پامال بھی کیا ہے۔ ایشیا اور افریقہ سے قدرتی وسائل یوں لے جائے گئے ہیں جیسے باپ کا مال ہو۔ اِن خطوں کے لوگوں کو پس ماندہ رکھ کر مغرب نے اپنی بھرپور ترقی اور خوش حالی کی راہ ہموار کی۔
مرزا کی باتوں کے جواب میں ہم یہی کہتے ہیں کہ یہ سب تو فطری امر ہے، تاریخ کا جبر ہے۔ مغرب نے جو کچھ کیا ہے وہ انسانی فطرت و مزاج کے عین مطابق ہے۔ ہر دور میں زمین نے یہی تماشا دیکھا ہے۔ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ کمزوروں کو زیادہ سے زیادہ دباکر، کچل کر اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اِس میں حیرت کیسی؟ ہاں، اہلِ مغرب شرافت کی مثال بن کر ساری دُنیا کا بھلا کرتے تو ضرور حیرت ہوتی۔
مرزا کو اِس بات پر سخت غصہ ہے کہ دُنیا کے مسائل ابھی حل نہیں ہوئے اور اہلِ مغرب نے دوسری دُنیاؤں میں جھانکنا اور اُنہیں پرکھنا شروع کردیا ہے۔ چاند کی سطح کو پامال کرنے کے بعد ترقی یافتہ اقوام نے اب مِرّیخ کو نشانے پر لیا ہوا ہے۔ مِرّیخ کے بارے میں تحقیق کا بازار کچھ اِس انداز سے گرم ہے کہ مرزا بھی شدید اشتعال کے عالم میں ہیں۔ مِرّیخ سے متعلق ایک (غیر انسان بردار) مشن تو مکمل ہوچکا ہے۔ اب وہاں اِنسان کو بسانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ بات مرزا کو سیخ پا کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتے ہیں : ''انسان اور بالخصوص مغرب کا انسان بھی بہت عجیب مخلوق واقع ہوا ہے۔ اب تک اپنی دُنیا کے تمام معاملات درست نہیں کئے جاسکے اور دوسری دُنیاؤں کا سُکون غارت کیا جارہا ہے۔ مِرّیخ سے متعلق تحقیق اِس قدر ہو رہی ہے کہ اب تو اُلجھن سی ہونے لگی ہے۔ وہاں کبھی پانی تھا یا نہیں، اِس کی فکر خود مِرّیخ سے زیادہ دُنیا والوں کو ہے۔ وہاں لاکھوں یا کروڑوں سال قبل آکسیجن تھی یا نہیں، اِس کے بارے میں تحقیق کا پہیّہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مِرّیخ کی زبان ہوتی تو وہ فریاد کرتا کہ اہلِ زمین! بس کرو، مجھ پر رحم کرو یعنی میرے بارے میں تحقیق کا سلسلہ ختم کرو۔ مگر انسان کہاں مانتا ہے؟‘‘
ہم نے کہا یہ تو اچھی بات ہے کہ انسان چاند کے بعد اب مِرّیخ کو بھی تسخیر کرنے کی طرف مائل ہے یعنی وہاں بھی اِنسانی قدم پڑنے والے ہیں۔ حال ہی میں ایسے 100 افراد کا انتخاب عمل میں آیا جن میں حتمی طور پر 25 افراد کو منتخب کرکے مِرّیخ پر آباد ہونے کے لیے بھیجا جائے گا۔ یہ مشن یک طرفہ ہوگا۔ یعنی واپسی کی کوئی ضمانت نہیں۔ واپس آسکے تو ٹھیک ورنہ خدا حافظ۔ ابتدائی مرحلے میں جن 100 رضاکاروں کو منتخب کیا گیا ہے اُن میں پاک فضائیہ کا ریٹائرڈ پائلٹ بھی شامل ہے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بننے والے منصوبے میں ایک پاکستانی بھی شریک ہے۔
مرزا کے لیے اِس خبر میں کچھ جاذبیت نہیں کہ مِرّیخ کے مشن کے لیے منتخب رضاکاروں میں ایک پاکستانی بھی شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں : ''یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ زمین کے کئی خطوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے پر توجہ دینے کے بجائے مِرّیخ پر پانی تلاش کیا جائے؟ اور اگر کوئی پاکستانی بھی وہاں جارہا ہے تو حیرت کی کیا بات ہے؟ ایک اوٹ پٹانگ منصوبے میں پاکستانیوں جیسے سَر پِھرے لوگوں کا شریک ہونا فطری سی بات ہے! ہمارا خیال ہے کہ مِرّیخ پر آباد ہونے کے خواہش مند افراد میں یہ پاکستانی ہی مِرّیخ کے ماحول کو سب سے زیادہ موزوں پائے گا۔ سُنا ہے مِرّیخ پر پانی ناپید ہے۔ پانی کے ناپید ہونے کی صورت میں کس طور گزارا کرنا ہے، یہ بات ایک پاکستانی سے زیادہ بھلا کون جان سکتا ہے!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ جب ایک پاکستان بھی اِس عظیم منصوبے کا حصہ ہے تو پوری قوم کو فخر کرنا چاہیے۔ مرزا بولے : ''ہاں ہاں، کیوں نہیں۔ ایک پاکستانی مِرّیخ پر پہنچ کر دُنیا کی رہنمائی کرے گا کہ دیکھو، پانی کے بغیر کیسے جیا جاتا ہے! اور ضمنی فائدہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پاکستانی کسی نہ کسی طور وہاں پانی دریافت کرکے تحقیق کی دُنیا میں دھوم مچادے۔ پانی کا جیسے تیسے انتظام کرنا کچھ ہم پاکستانیوں ہی کو تو آتا ہے!‘‘
مرزا کو خلائی تحقیق میں کچھ بھی چارم محسوس نہیں ہوتا۔ اُن کی ''غیر ناقص‘‘ رائے یہ ہے کہ خلاء کی طرف اُسی وقت دیکھنا چاہیے جب زمین کے تمام مسائل حل کرلیے جائیں، تمام معاملات خوش اُسلوبی سے طے کرلیے جائیں۔ ساتھ ہی وہ اِس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ اِنسانوں کے قدم پڑنے سے کہیں دوسرے سیّاروں کا بھی سُکون غارت نہ ہوجائے! یہی سبب ہے کہ وہ جب بھی خلائی تحقیق سے متعلق کسی مغربی منصوبے کے بارے میں سُنتے یا پڑھتے ہیں تو فوراً ''جل تو جلال تو، 'گئی‘ بَلا کو ٹال تو‘‘ کا ورد کرنے لگتے ہیں! مرزا کا کہنا ہے کہ مغربی دُنیا نے اِس دُنیا میں جو خرابیاں پیدا کی ہیں اُنہیں دُور کرنے کے بعد ہی دوسری دُنیا کی طرف دیکھنا اور بڑھنا چاہیے۔ مگر خیر، یہ مرزا کی رائے ہے۔ اور مرزا کی رائے سے اہلِ مغرب کا متفق ہونا لازم نہیں۔ اُن سے تو ہم یہی کہیں گے ع
تیر پر تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کِس کا ہے!
یعنی زمین کا خواہ کچھ حشر ہوتا رہے، تم خلاء کی تسخیر کے منصوبوں پر عمل کرتے رہو۔ اچھا ہے، دوسرے سیّاروں کو بھی اِنسانوں سے رابطہ کرنے پر کچھ معلوم ہو کہ زمین کا کیسی مخلوق سے پالا پڑا ہے!