اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے گزشتہ دنوں امریکہ کا دورہ کیا۔ غالباً اس دورے کا مقصد اسرائیل میں آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات جیتنے کی کوشش تھا۔ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران انہوںنے یہودیوں کی مختلف تنظیموں سے خطاب کیا اور بعد میں امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران امریکہ اور ایران کے مابین ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس معاہدے کے ذریعے (جس کی انہوں نے وضاحت نہیں کی بلکہ معاہدہ ابھی ہوا ہی نہیں ہے) ایران کو مشرق وسطیٰ کی ایک طاقتور نیوکلیئر ریاست بنانا چاہتا ہے۔ نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ ''اسلام کو سب سے بڑا خطرہ ایران سے ہے‘‘ ذرا غور کریں! مسلمانوں کا ازلی دشمن اور فلسطینی مسلمانوں کا قاتل ایران کو اسلام کے لئے خطرہ کا باعث قرار دے رہا ہے، حالانکہ پہلے بھی اور آج بھی اسلام کو درپیش خطرات اسرائیل سے ہیں جس نے اپنی سازشوں اور فوجی طاقت سے (جس میں ایٹمی طاقت بھی شامل ہے) پورے مشرق وسطیٰ کو تہس نہس کردیا ہے۔ آج مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک مضبوط ومستحکم نہیںہے، ماسوائے خود اسرائیل کے جس نے داعش جیسی تنظیم تخلیق کی ہے جو اسلامی ممالک کے لئے خطرہ کا باعث بن رہی ہے۔ کیا دنیا بھر کے مسلمانوں کو داعش کے ترجمان کی اس بات پر حیرت زدہ نہیں ہونا چاہئے، جس میں اس نے کہا تھا کہ پہلے ہم مسلمانوں کے بعض ممالک سے نمٹ لیں، بعد میں اسرائیل کی طرف پیش قدمی کریں گے، حالانکہ مشرق وسطیٰ میں بنیادی مسئلہ اسرائیل سے وابستہ ہے جو آہستہ آہستہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے شام اور لبنان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی اس شاطرانہ پالیسی سے پوری دنیا واقف ہے ،اگر امریکہ بہادر اس کی بلا سوچے سمجھے پشت پناہی نہ کرے تو فلسطینی عوام سمیت مشرق وسطیٰ کے وہ تمام ممالک مل کر اس کے وجود کو ختم کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ایران کے خلاف نیتن یاہو کا یہ بیان نیانہیں ہے، وہ اس سے قبل بھی ایران پر فوجی کارروائی کرنے کا عندیہ دے چکاہے اور اب بھی وہ فوجی کارروائی کرنا چاہتا ہے، جس طرح اس نے عراق کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کیا تھا۔ چونکہ امریکہ سمیت عالمی رائے عامہ اسرائیل کے اس جارحانہ موقف کی حمایت نہیںکررہی اس لئے وہ عالمی دبائو کی وجہ سے ایران پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کررہا۔ دراصل امریکہ ایران کے ساتھ اس کے نیوکلیئر پروگرام پر مذاکرات اس لئے کررہا ہے کہ اُسے اس بات کا اندیشہ ہے کہ ایران نیوکلیئر بم بنا رہا ہے اور ایران کایہ پروگرام پر امن مقاصد کے لئے نہیں ہے۔ حالانکہ ایران کی اعلیٰ سیاسی و مذہبی قیادت نے امریکہ سمیت عالمی برادری کو یہ یقین دلایا ہے کہ ایران کا پروگرام پر امن مقاصد پر مشتمل ہے نہ کہ بم بنانے کے سلسلے میں۔ نیز اس وقت بھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی کے نمائندے ایران میںموجود ہیں اور اس کے نیوکلیئر پروگرام پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ایران نیوکلیئر پروگرام کے تحت بم بنا نے کی کوشش کرتا تو سب سے پہلے اس کی خبر انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمشن کو ہوتی، جو ساری دنیا میں اس قسم کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ چنانچہ اسرائیل جس کے پاس خود دوسو سے زائد ایٹم بم موجود ہیں ، وہ محض ایک مفروضے کے تحت ایران پر یہ الزام لگا رہا ہے، کہ اس کا ایٹمی پروگرام بم بنانے سے منسلک ہے اور امریکہ کو متنبہ کررہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں مذاکرات ختم کردے، حالانکہ امریکہ نے اسرائیل کو یقین دلایا ہے کہ ایران کے ساتھ اس ضمن میں جو بھی معاہدہ ہوگا وہ شفاف ہوگا، جس کی ساری دنیا حمایت کرے گی۔ اگر ایسا معاہدہ وجود میں آجاتا ہے تو ایران پر امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیاں بھی اٹھالی جائیں گی؛ تاہم یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ امریکہ کے علاوہ سکیورٹی کونسل کے دیگر ممالک اور جرمنی کے ساتھ بات چیت کا یہ مرحلہ نہایت ہی پیچیدہ ہے اور ابھی ان کے درمیان کسی قسم کا معاہدہ دُور کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ اسرائیل بظاہر ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے خوف زدہ نظرآرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو تنقید کا نشانہ بناتا رہتا ہے، لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ اس وقت مشرق وسطیٰ کا سب سے زیادہ طاقتور مسلمان ملک ایران ہے جس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں پھیل رہے ہیں۔ یہی وہ ملک ہے جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا اور یہی وہ ملک ہے جو فلسطین کی غیر مشروط حمایت کررہاہے اور ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کی ساری دنیا میں تشہیر بھی کرتا ہے۔ ایران کی فلسطینیوں اور مسلم ممالک کے حق میں اٹھائی جانے والی آواز اسرائیل کو شدید نا پسند ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایران کے مشرق وسطیٰ میں کسی قسم کی طاقت بڑھنے لگے‘ چنانچہ وہ ایران کے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے اثرات اور کردار کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ بعض عرب ملکوں کا موقف بھی ایران کے خلاف کچھ ایسا ہی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنی بے لگام طاقت اور امریکہ کی حمایت سے بعض عرب ممالک پر اپنا سیاسی و فوجی تسلط قائم کرنا چاہتا ہے، جس کی ایران کی طرف سے مزاحمت ہورہی ہے۔ شام کو تباہ وبرباد کرنے میں جہاں اسرائیل اور امریکہ پیش پیش تھے، وہیں ہمارے بعض عرب ممالک بھی ان کے ساتھ تعاون کررہے تھے، حالانکہ شام کی طرف سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور نہ ہی عرب ممالک کو ، بلکہ اسرائیل نے ابھی تک جولان کی پہاڑیوں پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور وہاں اس نے جدید دفاعی مورچے بھی بنارکھے ہیں۔ شام کو تباہ و برباد کرنے کے بعد وہ ایران کی طرف بڑھنا چاہتا ہے تاکہ اسے بھی عدم استحکام سے دوچار کرکے پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی اجارہ داری قائم کرسکے۔ داعش اسرائیل کے ساتھ خفیہ طورپر مل کر بعض عرب ممالک کے لئے خطرہ کا باعث بن رہی ہے اور وہاں وہی افراتفری پیدا کرنا چاہتی ہے جو اس نے شام ، مصر اور لیبیا میں پیدا کی ہے۔ چونکہ ایران کی حکومت کو ایران کے عوام کی غیر معمولی حمایت حاصل ہے، اس لئے اسرائیل ابھی تک ایران کے خلاف فوجی مہم جوئی کرنے سے رکا ہوا ہے، لیکن وہ دل سے ایسا کچھ کرنے کا خواہش مند ہے ، چنانچہ اسرائیل اس خطے اور پوری دنیا میں اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پاکستان کے اندر بھارت کی طرف سے جو دہشت گردی ہورہی ہے ، اس کے پس پشت بھی اسرائیل کی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔ ہند اور یہود کا یہ اتحاد مسلمانوں کے سروں پر لٹکتی ہوئی ایسی تلوار ہے جو کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نااتفاقی ہے جسے اسلام دشمن طاقتیں مسلسل پھیلارہی ہیں، اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔