ایک بار کہیں جھوٹ بولنے کا مقابلہ ہوا تو جس جھوٹ کو پہلا انعام ملا وہ یہ تھا کہ ایک کمرے میں بیس پچیس عورتیں بیٹھی تھیں اور وہاں سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی!
یہ لطیفہ ہمیں اپنے کرم فرما‘ وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ بیان پڑھ کر یاد آیا کہ حکومت کرپشن سے پاک ہے اور کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ کوئی انگلی اس لیے نہیں اٹھا سکتا کہ لوگ انگلی اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں اور بالآخر صبر و شکر کر کے خاموش ہو گئے ہیں کہ اگر اس واویلا کا آپ پر کوئی اثر ہی نہیں ہونا تو خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔
دراصل انگلی اٹھانے والے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جہاں کرپشن کو کرپشن سمجھا ہی نہ جاتا ہو اور یہ سیدھا سادہ حق الخدمت کہلاتا ہو تو وہاں کچھ کہنے سننے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو حکومت واقعی کرپشن سے پاک ہے اور کسی کو انگلی اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور حکمران اور بیورو کریسی والے اثاثوں کے جو پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں بلکہ اس کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں اسے حق حلال کی کمائی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے‘ اور یہی وجہ ہے کہ یہ کام اس قدر حیرت انگیز دلیری اور بے خوفی سے کیا جا رہا ہے کہ اسے دیدہ دلیری کے علاوہ اور کوئی نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔
اس دیدہ دلیری میں مزید اضافہ اس لیے ہو گیا ہے کہ گزشتہ سات آٹھ سالوں سے زرداری فیم مفاہمت کا نظریہ ہی سکّہ رائج الوقت چلا آرہا ہے اور اس نیک کام میں کوئی مداخلت نہیں کی جا رہی اور بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کو اس لیے اکاموڈیٹ کیا جا رہا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے کانے ہیں کیونکہ ایک اگر دوسرے کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو کل کو پہلے کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ یہ نہیں ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے کارہائے نمایاں سے واقف نہیں ہیں جس کا اندازہ حالیہ الیکشن سے قبل میاں شہباز شریف کے ان تابڑ توڑ بیانات سے کیا جا سکتا ہے جس میں علی بابا اور چالیس چوروں کا نہ صرف بار بارذکر کیا جاتا بلکہ علی بابا کو چوک میں لٹکانے اور کھایا ہوا روپیہ پیٹ پھاڑ کر باہر نکالنے کے دعوے کئے جاتے تھے لیکن الیکشن کی گہما گہمی ختم ہوئی ،
توٹھنڈ کا ایسا موسم شروع ہوا کہ کسی کو یاد ہی نہ رہا کہ کبھی ایسی بات کی بھی گئی تھی، حالانکہ الیکشن کے بعد یہ لوگ مکمل طور پر بااختیار تھے اور اپنے دعووں کو عملی جامہ پہنانے میں مکمل طور پر آزاد تھے۔ بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تابہ کجا‘ بلکہ اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں کے درمیان سے سوئی بھی نہیں گزر سکتی جبکہ سینیٹ کے چیئرمین کے معاملہ پر سمجھوتہ سے یہ محبتیں اور بھی گاڑھی ہو گئی ہیں اس لیے اب قوم کو زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے!
صورتحال تو یہ ہے کہ ساری قوم‘ میڈیا سمیت‘ باں باں کر رہی ہے کہ موٹر ویز اور میٹرو بس وغیرہ جیسی عیاشیوں کی بجائے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی ناگفتہ بہ حالت پر ترس کھایا جائے جن کا تعلق براہ راست عوام کی ضروریات اور مشکلات سے ہے لیکن عالم یہ ہے کہ نت نئی موٹر ویز کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے اور یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جسے سمجھنے کے لیے کسی خصوصی ذہانت کی ضرورت ہو کہ جتنابڑا پراجیکٹ ہوگا، کک بیکس کے مواقع اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت بہتر بنانے سے کتنے نفلوں کا ثواب ہو گا‘ ہیں جی؟؟
اس سلسلے میں زیادہ مثالیں دینے کی گنجائش اس لیے نہیں کہ اس بیان کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہو گی۔ صرف یہی مثال کافی ہے جس کے مطابق مبینہ طور پر چین سے جو رگز خریدی گئی تھیں اور جن کی مالیت 7ارب روپے تھی‘ وہ بالکل ناکارہ ثابت ہوئی ہیں جس کی بناء پر رقم کی واپسی کا مطالبہ تو کیا جا رہا ہے لیکن اس پر عمل اس لیے کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ اس مسود ے میں ٹھیک ٹھاک کک بیکس وصول کی گئی تھیں۔ حالانکہ اس کا ایک ممکنہ حل یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اصل رقم میں سے کک بیکس کا پیسہ کاٹ لیا جاتا اور باقی رقم تو واپس کی جاتی، لیکن ایسا بھی ہونا آسان نظر نہیں آ رہا۔ اور ‘ یہ نہیں کہ یہ باتیں کوئی ڈھکی چھپی ہیں بلکہ یہ تو میڈیا ہی میں کئی بار طشت ازبام کی جا چکی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تردید‘ وضاحت یا جواب آنے کی بجائے کسی کے کانوں پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آتی کیونکہ عوام اپنے طور پر مایوس ہیں اور ملک میں حزب مخالف کوئی ہے ہی نہیں‘ اکیلا عمران خان کہاں تک شور مچاتا رہے اور اس شور کو بھی اہمیت کون دیتا ہے؟
حکمرانوں کی محبوب بیورو کریسی کا عالم یہ ہے کہ آئے دن کروڑوں اور اربوں کے سکینڈل واشگاف ہوتے ہیں لیکن ایک تو جس افسر کے خلاف اس غبن کا الزام لگتا ہے اور اس میں کوئی پیش رفت ہونے لگتی ہے تو جس اہلکار نے اس کا سراغ لگایا ہو‘ اسے کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے جبکہ ملزم کو کوئی تاخیر کیے بغیر اگلے گریڈ میں ترقی دیدی جاتی ہے اور اس طرح کی ایک سو ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جبکہ کئی ایماندار اور فرض شناس افسر اس کی سزا بھی بھگت چکے ہیں۔ صرف ایک طارق ملک کی مثال کافی ہے جسے نوکری چھینے جانے کے ساتھ ساتھ ملک بھی چھوڑنا پڑا، لیکن حکومت ایسے آنسوئوں میں اپنا چہرہ دیکھنے کو تیار ہی نہیں۔
آج کا مطلع
نکلتے نہیں بے قراری سے ہم
ابھی مہربانی تمہاری سے ہم