تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-03-2015

کرزئی صاحب‘ اب نہیں!

برطانوی اخبار گارڈین سے ایک انٹر ویو میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی (پوپلزئی) نے پاکستان کے بارے اپنی اندرونی نفرت اور عداوت کا اظہار کرتے ہوئے افغان پارلیمنٹ کے اراکین اور موجو دہ صدر اشرف غنی احمد زئی کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے میں لگے رہے تو یہ افغان قوم سے غداری ہو گی اور اگر پاکستان کے ذریعے اس نے طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت شروع کی تو یہ سو سال پہلے برطانوی استعماریت کے خلاف افغانوں کی لڑی جانے جنگ سے بھی غداری سمجھی جائے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان کی نئی منتخب حکومت اپنے سب ہمسایہ ممالک کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے فارمولے پر متفق ہو چکی ہے‘ حامد کرزئی کی یہ اشتعال انگیزی نفرت بھرا ایجنڈا لئے افغان عوام پر حملہ ہو رہی ہے۔ اب اس میں تو کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہا کہ موجو دہ افغان صدر اشرف غنی کا پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے کا فیصلہ بھارت اور کرزئی گروپ کو کسی صورت ہضم نہیں ہو رہا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان کے ذریعے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کئے جائیں۔ حامد کرزئی اور اس کے گروپ کی پریشانیوں کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اشرف غنی کی قیا دت میں افغانستان کی نئی حکومت اس وقت بھارت کی بجائے پاکستان سے تعاون حاصل کرنے کے معاہدے کر رہی ہے۔ کرزئی حکومت کے گیارہ سالوں میں افغانستان کے کیڈٹوں اور جوانوں کو تربیت کے لیے بھارت کی ملٹری اکیڈمی میں بھیجا جا تا تھا لیکن اب اشرف غنی کی وجہ سے افغان فوجی تربیت حا صل کرنے کے لیے کاکول پاکستان آ رہے ہیںاور یہ ایک ایسا دکھ اور زخم ہے جو نہ تو کرزئی سے برداشت ہو رہا ہے اور نہ بھارت کے لیے قابل قبول ہے۔ ان دونوں کی اب یہی کوشش ہے کہ کسی طرح ان معاہدوں کو سبو تاژ کرکے پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے افغان تعلقات کو روکا جائے۔ 
کرزئی دور میں بھارت نے افغانستان میں دس سال تک اپنے بے پناہ اثر و رسوخ سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں ، تاجروں، مافیااور میڈیا سمیت رائے عامہ سے متعلق دوسرے لوگوں سے رابطے بڑھائے تھے‘ اب ان کو استعمال میں لاتے ہوئے کبھی افغان مہاجرین کے نام سے تو کبھی تحریک طالبان کے مختلف گروپوں کی وساطت سے‘ وزیرستان اور فاٹا میں ضرب عضب کی وجہ سے پاکستان سے بھاگ کر افغانستان آنے والوں کے ذریعے کابل اور دوسری جگہوں پر دہشت گردی کی کارروائیاں کرا رہا ہے تاکہ ان کا الزام پاکستان کے سر تھوپ کر کابل کی سکیورٹی فورسز اور عوام کو پاکستان کے خلاف مشتعل کیا جا سکے۔ 12مارچ کو قندوز میں افغان پولیس کے سات سپاہیوں کو‘ جو اپنی تنخواہیں وصول کرنے کے لیے جا رہے تھے‘ گھات لگائے نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ ان سات افغان پولیس والوں کو با لکل اسی طرح گھات لگا کر قتل کیا گیا ہے جس طرح بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں سے پولیس اور ایف سی کے جوانوں اور دوسرے سرکاری اہل کاروں کو کہیں بھی آتے جاتے قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ سچائی ہے جس کے ثبوت امریکہ کے سابق سی آ ئی اے چیف اور امریکی وزیر دفاع چک ہیگل خود دے چکے ہیں اور دنیا کی ہر با خبر طاقت کو معلوم ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ افغان کی موجو دہ حکومت یقیناََ اس بات سے بے خبر نہیں ہو گی کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے گزشتہ دس سالوں میں کس حد تک افغانستان کے ہر محکمے میں اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اور وہ یقینا اس بات سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے کہ تین سال قبل بھارت سے میڈیکل عملے کے روپ میں آنے والے‘ جن میں خواتین بھی شامل ہیں‘ اصل میں بھارتی فوج کے سپیشل سروس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ 
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے برطانوی اخبار گارڈین کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس فقرے پر بہت زیا دہ زور دیا کہ ''ہم پاکستان سے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اس کے انگوٹھے کے نیچے آنا ہمیں قطعی گوارا نہیں اور یہی بات میں افغان پارلیمنٹ کے ہر رکن اور دفاعی طاقتوں کو بھی کہہ رہا ہوں‘‘۔ حامد کرزئی سے کوئی پوچھے کہ ان کی آمریت پر مبنی صدارت کے دس سالوں میں بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات تھے میں کیا بھارت کا انگوٹھا ان کی گردن پر نہیں
تھا؟ کیا بھارت کی طرف سے ملنے والے اربوں ڈالر کے سودوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہوا تھا؟ ایسا لگتا ہے کہ حامد کزرئی کی جان پر بنی ہوئی ہے‘ اسی لیے افغان پارلیمنٹ کے اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اپنے فوجیوں کو تربیت کیلئے کسی بھی ہمسایہ ملک میں نہیں بھیجنا چاہئے۔ کیا ان کی نظر میں بھارت میں تربیت حاصل کرنے کیلئے افغان فوجیوں کا بھیجا جانا ان کے نزدیک کار ثواب تھا؟ حامد کرزئی نے افغانستان کی مسلمان سکیورٹی فورسز کے ساتھ اور تو جو ظلم کئے‘ سو کیے لیکن اب تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت کی فوجی اکیڈیمیوں میں دوران تربیت افغانستان کے مسلم کیڈٹوں کو حرام جانوروں کا گوشت کھلایا جا تا رہا۔ ابھی حامد کرزئی کی پاکستان پر بہتان طرازیوں کی باز گشت ہوا میں ہی تھی کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی ڈینیل فلڈ مین نے کرزئی کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اور پاکستان کے طرز عمل کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی کوششوں سے افغانستان کا امن بحال ہو رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کے غیر سرکاری خصوصی نمائندے کی حیثیت سے کام کرنے والے حامد کرزئی کو اس کے آقائوں کی جانب سے اس وقت فوری طور پر چین سے واپس افغانستان پہنچنے کا کہا گیا جب بھارت تک یہ اطلاع پہنچی کہ جنرل راحیل شریف نے افغان صدر کی رضامندی کے بعد طالبان کے نمائندوں سے رابطہ کرنے کی ہامی بھر لی ہے تاکہ افغانستان میں مکمل طور پر امن بحال ہو جائے۔ کابل
پہنچتے ہی کرزئی اپنے نئے محل اور نئے دفتر میں بیٹھ کر مختلف سفارت کاروں اور افغان حکومت کے اہل کاروں سے رابطوں کو تیز کر نے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی ہر بات کی تان پاکستان دشمنی پر ہی ٹوٹتی ہے۔ بہت سے سفارت کار اور سول سوسائٹی سے متعلق لوگ اس کی پاکستان دشمنی پر حیران بھی ہو رہے ہیں اور وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو نے لگے ہیں کہ کرزئی کے دور حکومت میں پاکستان میں بڑھنے والی دہشت گردی کے پیچھے اس کی یہی نفرت تھی۔ حامد کرزئی کی بہتان تراشیوں کے فوری بعد پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے امریکی نمائندہ برائے افغانستان و پاکستان نے کہا کہ امریکہ کیلئے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ افغانستان ا ور پاکستان باہمی اعتماد اور بھروسے سے خطے کی سلامتی کیلئے مل جل کر کوششیں کر رہے ہیں اور امریکہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
حامد کرزئی کی پوری کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے مذاکرات کو اس وقت تک نشانہ بنائے رکھا جائے جب تک اشرف غنی اور عبد اﷲ عبد اﷲ ان مذاکرات میں پاکستان کے کسی بھی عمل دخل کو خارج نہ کر دیں اور اس سلسلے میں کرزئی اور بھارت کے میڈیا گروپ سمیت کھمبیوں کی طرح جگہ جگہ اگے ہوئے اس کے قونصلیٹ جنرل سے متعلق لوگ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارت نہیں چاہتا کہ افغانستان ترقی کرے کیونکہ اس وقت پوری دنیا افغانستان میں سرمایہ کاری کیلئے اپنی اپنی تیاریاں مکمل کر چکی ہے اور ظاہر ہے کہ افغان عوام کی یہ خوشحالی امن قائم ہونے سے ہی آ سکے گی‘ جو بھارت کو قطعی قبول نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved