اکبر اِلٰہ آبادی نے کہا تھا ؎
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے!
بس کچھ ایسی ہی کیفیت گزشتہ دنوں میں کراچی کے ایک یُوتھ فیسٹیول نے بھی پیدا کردی۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ یُوتھ فیسٹیول میں سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے چند سُر کیا بکھیرے، بہت سوں نے خاصے تیکھے اور تِیوَر سُروں میں مخالفت کے راگ الاپنا شروع کردیا۔
میٹھے سُروں سے گورنر سندھ کی شناسائی، بلکہ آشنائی نے جمعیت علمائے پاکستان (کراچی) کے صدر علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی کی طبیعت کو مُکدّر کردیا۔ قاضی صاحب نے ایک بیان میں کہا : ''باب الاسلام (سندھ) کو گانے، بجانے والے حکمرانوں کی ضرورت نہیں۔ پورا سندھ مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ایسے میں سندھ کے گورنر کا گٹار تھامنا وہی سماں پیدا کرگیا جو روم کے جلتے وقت نیرو نے بانسری بجاکر پیدا کیا تھا۔‘‘ ہماری نظر میں قاضی صاحب کی رائے بہت وقیع ہے مگر ساتھ ہی ہم یہ احترام کے ساتھ گزارش بھی کرنا چاہیں گے اُن کا ردعمل ضرورت اور گنجائش سے زیادہ ہے۔ اِس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ اِس پر راج کرنے والے ہر معاملے میں بے سُرے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی گورنر سُریلے پن کا مظاہرہ کر رہا ہے تو اِسے غنیمت جانیے۔ سیاسی ماحول میں جس قدر بے ڈھنگے سُر لگائے جارہے ہیں وہ سماعتوں پر بار ہیں۔ وفاق سے چھوٹے صوبوں کو ان گِنت شکایات ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کا شِکوہ ہے کہ اُنہیں بُری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایسے میں اگر وفاق کا نُمائندہ (یعنی گورنر) کچھ گاکر ماحول کو تھوڑا سا سُریلا بنا رہا ہے تو داد نہ دینا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا!
ڈاکٹر صاحب نے گٹار اِتنی عمدگی سے بجایا کہ ہم اِسے ایک اعتبار سے ''گڈ گورننس‘‘ کے زُمرے میں رکھ سکتے ہیں! کسی کا دل چاہے تو ''سُریلی گورننس‘‘ بھی سمجھ لے۔ محاورہ تو آپ نے بھی سُنا ہی ہوگا کہ گُڑ دو یا نہ دو، گُڑ جیسی میٹھی بات تو کرو۔ صد شُکر کہ حق تلفی کے اِس کڑوے ماحول میں گورنر سندھ گُڑ جیسی میٹھی اور سُریلی بات تو کر رہے ہیں۔ جس سسٹم کے حِصار میں ہم جی رہے ہیں اُس میں اگر اِتنا بھی مل جائے تو غنیمت جانیے۔
گورنر سندھ کہ مہربانی کہ اُنہوں نے صرف گٹار بجانے پر اکتفا کیا۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ حکمرانی کے نام پر خود کو زیادہ سے زیادہ بااختیار ثابت کرنے والے عوام کا بینڈ بجانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ ایک زمانے سے قوم کی سماعت خدا جانے کیا کیا جھیل رہی ہے۔ یعنی مجبوری کا نام شکریہ۔ سیاسی آرکسٹرا میں طرح طرح کے بے ہنگم ساز یُوں بجائے جارہے ہیں جیسے ہاتھی چنگھاڑ رہے ہوں، شیر دہاڑ رہے ہوں! اِس وقت بھی سیاسی آرکسٹرا کا ہر ساز پوری قوت سے چیخ رہا ہے ... یا پھر چخوایا جارہا ہے۔ بیگاری یہ ہوتی ہے کہ مرضی ہو نہ ہو، کرنا ہی پڑتی ہے۔ اہلِ پاکستان کے لیے بیگاری کی ایک شکل یہ ہے کہ دل چاہے نہ چاہے، سیاسی آرکسٹرا کے ناہنجار سازندوں کا پیدا کردہ شور سُننا ہی پڑتا ہے۔
اب آئیے نئی نسل کو دینی اقدار سے آشنا کرنے کے سوال کی طرف۔ ہم قاضی صاحب کی خدمت میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ عرض کرنا چاہیں گے کہ نئی نسل کو دین سے آشنا رکھنے کا بنیادی فریضہ حکمرانوں سے کہیں بڑھ کر والدین کا ہے۔ اور اب تو والدین خود نغمہ و رقص کے اِس قدر رسیا ہیںکہ کسی اور کو، اور بالخصوص حکمرانوں کو لتاڑنے کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں رہی۔
جدید تعلیمی نظام بھی عصری تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ تعلیم و تربیت کا زمانہ ہوا ہوچکا ہے۔ اب ہم ''تعلیم و طربیت‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔ جب ہر معاملے میں رنگِ طرب نمایاں ہے تو پھر تعلیم کیوں پیچھے رہے یا اُسے کیوں محروم رکھا جائے؟ کل تک تعلیم کا سلسلہ خُشک بھی تھا اور پھیکا پھیکا بھی۔ اب تر بھی ہے اور شیریں بھی۔ کل تک پڑھنا بھاری بھرکم کتابوں سے سَر پھوڑنے کا عمل تھا۔ اب خیر سے یہ عمل اِس قدر دل آویز اور تسکین بخش ہوچکا ہے کہ نئی نسل خوشی خوشی پڑھنے جاتی ہے اور شاداں و فرحاں واپس آتی ہے۔ لُطف و سُرور کا پہلو نمایاں ہوا تو تعلیم و تعلّم کی ''وحشت اثری‘‘ ختم ہوئی! اچھا ہے، نئی نسل کی پریشانیٔ کچھ تو کم ہوئی۔
ملک کا ماحول جتنا پراگندہ، بلکہ گندا ہے اُس کے تناظر میں دیکھیے تو تعلیمی اداروں کا دم غنیمت ہے کہ نئی نسل کو وحشت سے بچاکر تعلیم کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق ''طربیت‘‘ بھی فراہم کر رہے ہیں! زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے اُصولوں کا کیا ہے، وہ تو اِنسان یُوں بھی سیکھتے سیکھتے سیکھ ہی جاتا ہے۔ اگر تعلیمی ادارے زندگی بسر کرنے کا ہُنر سِکھانے پر اُتر آئے تو فارغ التحصیل ہونے پر نئی نسل عملی زندگی میں کیا سیکھے گی؟
یہ بھی اہلِ سیاست کی نظرِ کرم کا نتیجہ ہے کہ قوم، اور بالخصوص نئی نسل اب ہر معاملے میں ''ہر fun مولا‘‘ ہوئی جاتی ہے یعنی ہر معاملے سے زیادہ سے زیادہ لُطف کشید کرکے زندگی کے خاکے میں طرح طرح کے رنگ بھرتی ہے۔
ڈاکٹر عشرت العباد خان گورنر سندھ کے منصب پر جس کامیابی سے رونق افروز ہیں اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہوں نے سیاسی سرگم بے مثال عمدگی اور پختگی سے یاد کر رکھی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اِس معاملے میں ''اُستاد‘‘ کے درجے پر ہیں! وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کب، کہاں، کون سا سُر کِس طرح لگانا ہے۔ ویسے اب تک اُنہوں نے کومل سُروں کا زیادہ سہارا لیا ہے۔ جو کومل سُر سیاسی بڑوں پر کارگر نکلے وہ نئی نسل پر کیوں اثر نہ کرتے؟ پھر حیرت کیا ہے کہ یُوتھ فیسٹیول کے شُرکاء ڈاکٹر صاحب کی ساز آفرینی اور نغمہ سَرائی سے جُھوم اُٹھے!
چیختے، چِنگھاڑتے سیاسی آرکسٹرا میں ایک ''سُر آشنا‘‘ گورنر کو خوشگوار ''استثناء‘‘ سمجھ کر قبول کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ یُوتھ فیسٹیول میں ڈاکٹر صاحب نے پبلک ڈیمانڈ کو پورا کیا۔ یہی مارکیٹنگ کا بُنیادی اُصول ہے۔ اور سیاست بھلا مارکیٹنگ کے بُنیادی اُصولوں سے کب مستثنیٰ ہے!