ایک فرانسیسی ویب سائٹ وزٹ کرنے والوں کو''تھوڑی سی بے وفائی‘‘ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اگرچہ فرانس جنس کے حوالے سے ایک آزاد ملک ہے لیکن یہاں بھی اس سائٹ سے اشتہارات کو ہٹادیا گیا ۔ اس پر ویب سائٹ کی انتظامیہ نے شکایت کرتے ہوئے اس عمل کو سنسر شپ اور دبائو ڈالنے کے مترادف قراردیا۔ فرانس کی مذکورہ سائٹ دنیا بھر میں مردوں اور عورتوں کوملنے کا موقعہ دیتی ہے۔ بہت سے شادی شدہ افراد نے بھی اس سائٹ میں خود کو رجسٹر کرارکھا ہے کیونکہ وہ، بقول یوسفی صاحب، ''تنگنائے نکاح‘‘ سے باہر نکل کر گھومنے پھرنے کے مشتاق ہوتے ہیں۔ اس پر فرانس کا مذہبی اور روایتی تصورات رکھنے والا طبقہ خاصا چراغ پاہے۔ یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہے کہ جن ممالک کے شہریوں نے خود کو ویب سائٹ کے ساتھ رجسٹر کرارکھا ہے، اُن میں مسلم ممالک کے شہریوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان ممالک میں سے بیشتر میں جنسی آوارگی کی سزا سخت ہے۔
جب مسلم ممالک کے شہری ہجرت کرکے مغربی معاشروں میں سکونت اختیار کرتے ہیں تو جنسی آزادی اُن کی طبع ِنازک پر گراں گزرتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے وہاں کی فلموں ، ٹی وی پروگراموں اور آن لائن دستیاب مواد میں عریانی کی تشہیر قابلِ نفرت حرکت ہے۔۔۔۔۔ تاہم یہ صرف عوامی سطح پر پھیلایاگیا تاثر ہے۔ بندکمروں کے معاملات کچھ اور ہیں۔ یقینا ایسے معاملات میں مسلمان ناک بھوں چڑھاتے ہیں جبکہ مغربی معاشرہ ایک ''معمول کی انسانی خواہش‘‘ قرار دے کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ وہ اسے اپنے اعصاب پر سوار نہیں کرتے۔
مغربی ممالک میں آباد ہونے والے مسلمان تارکین ِو طن کو اپنے میزبان معاشرے سے جدا کرنے والی چیز صرف جنس ہی نہیں، کچھ اور معاملات بھی ہیں، جیسا کہ شراب کا استعمال۔ مغربی ممالک میں طبقات اور عمرکی تفاوت سے قطع ِ نظر الکحل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ درحقیقت ورکنگ کلاس‘ پیشہ ور ماہرین اور اپرکلاس سے زیادہ مے نوش ہے۔ پبلک بارزاور کلبوں میں جا کر پینا یا خاندان میں ہونے والی تقریبات میں مے کشی کرناسلیقہ شعاری کی مظہر سرگرمی ہوتی ہے۔ وہاں پینے والے نشے میں آپے سے باہر ہوکر مرنے مارنے پر نہیں اتر آتے اور نہ ہی بدتہذیبی برتتے ہیں ، بلکہ اس سے افراد ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ مذہب کی طرف سے منع کرنے پر بہت کم مسلمان عوامی مقامات پر اپنے مغربی دوستوں اور رفقائے کار کے ساتھ پیتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ عوامی مقامات پر عقیدے کی پاسداری کرنے والے بند کمروں میں اندھا دھند چڑھا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ مہذہب انسانوں کے ساتھ مل کر پینے کا سلیقہ نہیں سیکھ پاتے ۔
شاید سب سے زیادہ ممنوعہ چیز حرام گوشت ہے ۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ مسلمان کبھی مے کشی کرلیں یا کسی حسینہ کے ساتھ وقت گزار لیں لیکن سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ حرام گوشت اور ا س سے تیار کی ہوئی اشیا اُن کے حلق سے نیچے اتر پائیں۔ احتیا ط کا یہ عالم کہ بہت سے مسلمان اُن ہوٹلوں میں کھانا بھی نہیں کھاتے‘ جہاں سؤر کے گوشت سے ڈشز تیار کی جاتی ہوں ، حالانکہ انتظامیہ کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہوتی ہے کہ ان کی آرڈر کردہ ڈش میں اس ممنوعہ گوشت کی مطلق آمیزش نہیں اور نہ ہی یہ اُس برتن میں پکائی گئی ہے جس میں ممنوعہ گوشت پکایا گیا تھا۔ چنانچہ مغربی میزبان بہت ناراض ہوتے ہیں کہ جب اُنہیں یقین دلایا گیا ہے کہ ان کی ڈش میں کوئی آمیزش نہیں تو وہ اعتبار کیوں نہیں کرتے۔
مسلمانوں کو مغربی معاشرے سے جدا رکھنے والا ایک اور عامل پالتو جانوروں،خاص طور پر کتے، سے روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔ امریکی اور یورپی شہری پالتو جانوروں سے بہت پیار کرتے ہیں؛ چنانچہ وہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بدسلوکی پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ چند سال قبل ایک عرب تارک ِوطن کو جیل جانا پڑا جب اُس کی ایک ویڈیو‘ انٹر نیٹ پر تواتر سے دیکھی گئی جس میں وہ ایک بلی کو پائوں سے ٹھوکر مار رہا تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ انگلینڈ میں مسلمان تارکین ِوطن پفن ، بلکہ چھوٹے اور بہت ہی دوستانہ مزاج رکھنے والے Jack Russell Terrier سے بھی خوفزدہ ہوکر دور بھاگ جاتے ہیں۔ انگریز خاص طور پر کتوں کے دیوانے ہیں اور وہ ہرگز نہیں سمجھ پاتے کہ مسلمان کتوں سے اس قدر متنفر کیوں ہیں۔ اس کی وجہ غالباً ایک حدیث (جو پتہ نہیں قوی ہے یا ضعیف؟) کا مفہوم ہے کہ جس گھر میں کتے ہوں ، وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ آپ یہ بات اپنے انگریز میزبان کو سمجھانے کی کوشش کریں، شاید اُس کے پلے پڑ جائے۔ اس وقت مغربی افراد کی مذہب کے ساتھ وابستگی کم جبکہ مسلمانوں کی زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ آج کل مسلمانوں میں مذہبی شناخت کا اظہار شدید جذباتی معاملہ بن چکا۔ درحقیقت موجودہ نسل کے مسلمان تارکین ِوطن لباس اور شباہت کے اعتبار سے اپنی مذہبی شناخت کے اظہار پر بے حد مصر ہیں؛ حالانکہ سابقہ نسل کے تارکین ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اس رویے کی وجہ سے اُن پر اُس شدت پسندی کا شک کیا جاتا ہے جس کا مظاہرہ ہم مشرق ِوسطیٰ میں دیکھتے ہیں۔ کیے جانے والے بہت سے سروے یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مذہب کی موجودہ سیاسی جہت کی وجہ سے یہ لوگ اپنے میزبان مغربی ممالک کے ساتھ وفادار ہیں یا نہیں؟ چنانچہ جب مغربی سیاست دان اور صحافی سوال کرتے ہیں کہ مسلمان ان کے معاشروں میں ضم کیوں نہیں ہوتے تو اُنہیں ان گہرے مذہبی اور سماجی تفرقات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مغربی روایات کو اپنانے سے انکارسے آگے بڑھ کر اب مسلمان مغربی معاشروں میں اخلاقی زوال اور بے راہ روی پر کھلے عام تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اپنے مغربی میزبانوں کے لیے‘ جن کا معاشرہ اُنہیں بہترین معاشی زندگی اور سماجی آزادی عطاکرتا ہے، ''کافر‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ پر میزبان بہت سیخ پا ہوتے ہیں۔ مسلمان ان کی کھلے عام الکحل کے استعمال سے لے کر ان کے ہاں پائی جانے والی آزادی کو تضحیک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی عورتوں کو گمراہ اور بھٹکی ہوئی قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک میں بہت سی خامیاں ہیں، لیکن یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ مسلمانوں نے اپنی مرضی سے اپنے معاشروں کو چھوڑ کر مغربی ملکوں میں سکونت اختیار کی ۔ اگر وہ وہاں برائیاں دیکھتے ہیں تو اُنہیں واپس آجانا چاہیے۔ درحقیقت اب مغرب میں یہ پچھتاوا ابھر رہا ہے کہ اُنھوں نے اتنی فیاضی سے مسلمان تارکین ِ وطن کو اپنے ہاں آباد ہونے کی اجازت کیوں دی۔ وہاں غیر مسلم تارکین ِوطن بھی آکر آبادہوئے، لیکن اُنھوں نے خود کو مقامی رسوم ورواج میں ڈھال لیا اور اُن معاشروں میں ضم ہوگئے؛ تاہم مسلمان ایسا نہ کرسکے۔ اگر معمول کے حالات ہوتے تو مسلمانوں کی طرف سے اپنی شناخت کے اظہار پر اصرار کو نظر انداز کردیا جاتا، لیکن یہ معمول کا دور نہیں۔ یہ مذہب کے نام پر بے گناہ مغربی شہریوں کے سرقلم کرنے والی داعش کا دور ہے، چنانچہ ان سے شباہت رکھنے والے تمام لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھاجانا فطری امر ہے۔
سماجی علوم کے بہت سے ماہرین فروغ پذیر انتہا پسندی کو غربت اور بے روزگاری کا نتیجہ بتاتے ہیں؛ تاہم داعش کی صفوں میں شامل ہوکر لڑنے والوں میں سے بہت سوں کا تعلق مڈل کلاس، بلکہ اپرکلاس خاندانوںسے بھی ہے۔ فرانس میں عرب تارکین ِوطن غربت زدہ آبادیوں میں رہتے ہیں اور اُنھوں نے یہاں قیام کے دوران فرانسیسی زبان کے سواکچھ نہیں سیکھا۔ مسلمان تارکین ِوطن اور مغرب کے درمیان تفاوت کی جو بھی وجوہ ہوں، ایک بات واضح ہے کہ یہ خلیج آسانی سے پُرہونے والی نہیں۔