تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     16-03-2015

’’سفید پوشی‘‘ کے فریب!

حکمران طبقات کی سیاست کی اپنی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ سماجی اور معاشی نظام پر مسلط بالادست سیاست کے روپ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ تشخص بنائے اور بگاڑے جاتے ہیں۔ حکومتیں تشکیل بھی دی جاتی ہیں‘ گرائی بھی جاتی ہیں۔ کبھی فوجی آمریتوں کے جبر کے ذریعے سماج پر نظامِ زر کو مسلط کیا جاتا ہے تو کبھی جمہوریت کے نام پر محنت کش عوام کو اس نظام کا مطیع کیا جاتا ہے‘ لیکن اس مروجہ سیاست میں کتنے ہی تنازعات ابھر آئیں، یہ سیاست دان‘ بیوروکریٹ اور دوسرے سٹیک ہولڈر ایک دوسرے کے کتنے دشمن ہی کیوں نہ بن جائیں، اس سیاست کا کردار وہی رہتا ہے کیونکہ سیاست آخری تجزیے میں معیشت اور سماجیات کی ہی پیداوار ہوتی ہے اور پھر اسی نظام کو چلانے اور اس کے استحصال کو جاری رکھنے کے لیے طرح طرح کے سیاسی ناٹک کیے جاتے ہیں۔ اس سیاست میں ظاہری طور پر مذہبی بنیاد پرستی سے لے کر لبرل، سیکولرازم اور قدامت پرستی سے لے کر اصلاح پسندی کے تمام تر نظریات آخری تجزیے میں اسی نظامِ زر کے محتاج اور تابع رہتے ہیں۔ ان کے اختلافات اور ٹکرائو نظام کے اندر کے تضادات کی غمازی کرتے ہیں اور جب پورا نظام ہی طبقاتی جبر و استحصال پر مبنی ہو تو حکمرانوں کی آپسی ہار جیت سے محنت کش عوام کی تقدیریں بدلا نہیں کرتیں۔
پاکستان جیسے نیم نوآبادیاتی اور صنعتی انقلاب سے محروم سرمایہ دارانہ ممالک میں شخصیات کا اثر و رسوخ اور کردار کہیں زیادہ مبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا ہے۔ ریاست اور سامراج کے پالیسی ساز ذرائع ابلاغ اور دوسرے ذریعوں سے افراد کی ساکھ بناتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اسی ساکھ کو نظام کے تحفظ اور عوامی تحریکوں کو زائل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کارروائی برصغیر میں عام رہی ہے۔ ساکھ بنائی جاتی ہے تو بگاڑی بھی جاتی ہے۔ بعض اوقات شخصیات کو مجروح اور بدنام کیا جاتا ہے، اٹھتی ہوئی تحریک یا محنت کش عوام کے انقلابی طوفان کے ابھرنے کی صورت میں ایسی شخصیات کو سیاسی منظرنامے اور سماجی افق سے ہٹا کر یا رسوا اور معزول کر کے اس نظام کے خلاف بھڑکنے والی آگ کو شخصیتوں کی تبدیلی اور ہیراپھیری سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں فرد کا کردار اور تاریخ کی ٹرین کے انجن سوشلسٹ انقلاب کو چلانے میں قیادت کا کردار اگر شخصیت پرستی پر مبنی ہو تو مثبت انجام کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ 
پاکستان میں رائج اور مسلط سیاست میں آج بھی یہ رجحانات بہت شدت سے موجود ہیں۔ سیاست دانوں، اقتدار میں موجود حکمرانوں اور عسکری و سویلین بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کی ذاتیات پر زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے۔ میڈیا عوام کی سوچوں اور ترجیحات کو شخصیت پرستی اور ثانوی موضوعات کی طرف بڑی منصوبہ بندی سے مائل اور مبذول کرواتا ہے۔ بھوکے ننگے عوام کی بھاری اکثریت کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان متحارب سیاسی لیڈروں اور سٹیٹس پرسنز کے ظہرانوں میں کتنے اور کون کون سے کھانے تھے۔ انہوں نے کپڑے کس برانڈ کے پہنے ہوئے تھے۔ گاڑیاں اور موبائل کس کمپنی کے تھے یا پھر بال کس خضاب سے رنگے ہوئے تھے۔
سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے دوران ان ظہرانوں اور مذاکرات کا نیا ناٹک پیش کیا گیا۔ ایسی صورتحال میں مذاکرات سے پہلے ہی معاہدے ان کے کارندے طے کر چکے ہوتے ہیں۔ سینیٹ کی سیٹوں اور عہدوں کا فیصلہ بیوپاریوں کے سیاسی لین دین میں ہو چکا ہوتا ہے اور پھر جب یہ سیاست دان عوام کی نظروں میں پوری طرح آ چکے ہوں تو ایسے میں حکمرانی کے ماہرین کوئی نہ کوئی ایسا پیادہ بچا کر ضرور رکھ چھوڑتے ہیں‘ جس کی ساکھ بنائی جا چکی ہو اور عوام میں اس کا ''اچھا بندہ‘‘ ہونے کا تاثر قائم کیا جا چکا ہو۔ اس مرتبہ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کا قرعہ رضا ربانی کے نام نکلا۔ ویسے تو ماضی کے بائیں بازو کے رہنما اور مفکر سٹالنزم اور اصلاح پسندی کی زوال پذیری میں تاریخی استرداد کا شکار ہو چکے ہیں۔ مروجہ سیاست میں کسی بھی پارٹی میں انقلابی مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات پر قائم رہتے ہوئے ابھرنا ممکن نہیں‘ لیکن ماضی کے بائیں بازو کے ان آثار قدیمہ کو استعمال آج بھی کیا جاتا ہے۔ محمد نواز شریف جیسے انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان کی مسلم لیگ (ن) کا 2013ء میں عبوری وزیر اعظم رسول بخش پلیجو کو نامزد کرنا ہو یا موجودہ سینیٹ میں رضا ربانی کا چیئرمین بننے پر اس حکمران سیاست کا اتفاق رائے، یہ سب اسی ''عوامی تاثر‘‘ کے استعمال کی مختلف کڑیاں ہیں‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارے‘ یہ جمہوریت‘ یہ ریاست اور اس معاشرے پر مسلط مختلف ثقافتی‘ نصابی‘ عدالتی اور تدریسی ادارے اس فریضے پر مامور ہیں کہ اس بحرانوں اور محرومیوں کی آگ میں سلگتے ہوئے عوام کو اس نظامِ زر کے سماج میں کیسے مصالحت کروا کے رکھا جائے۔ اسی مقصد کے لیے حکمرانوں کی سیاست‘ صحافت اور ثقافت کا کردار تعمیر کیا جاتا ہے۔ اس میں اگر کوئی حقیقی نمائندہ یا انقلابی فرد کسی عہدے پر فائز ہو بھی جائے تو اکثر و بیشتر اسی نظام کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک بدعنوان معاشرے کے کرپٹ سیاسی و ریاستی اداروں کے کیچڑ میں کوئی بھلا کیسے ''سفید پوش‘‘ اور ''مسٹر کلین‘‘ ہو سکتا ہے؟ رضا ربانی کے چیئرمین سینیٹ بننے سے نہ نجکاری رکے گی نہ علاج اور تعلیم غریبوں کو فراہم ہوں گے اور نہ ہی مفلسی‘ استحصال‘ مہنگائی اور ذلت کا خاتمہ ہو سکے گا۔
آخری تجزیے میں یہ افراد محنت کش طبقات کے مفادات کو کچلنے کے اوزار کا ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ جو نظام تاریخی طور پر متروک ہو جائے اس کی اخلاقیات منافقت پر، اس کی قدریں جعل سازی پر، سیاست فریب پر، ریاست جبر پر، ادارے کرپشن پر اور تعلقات مفاد پرستی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہوتے ہیں۔ چہرے بدلتے ہیں نظام وہی رہتا ہے۔ بدمعاش شریف ہونے کا ناٹک کرتے ہیں، گناہگار نیکی اور پرہیزگاری کا روپ دھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجرم منصف اور ''مخیر حضرات‘‘ بن جاتے ہیں۔ ہر کوئی اس کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے‘ جو وہ ہے اور وہ بننے کا ڈھونگ رچاتا ہے جو وہ نہیں ہے۔ جب سچائی سے آگے بڑھنا محال ہو جائے تو جھوٹ کا سہارا لینا معاشرے کی ضرورت بن جاتی ہے۔ مذہبی فرقہ واریت دولت کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ قوم پرستی کو سیاسی اور مالی طاقت کے لیے تعصبات کے زہر سے سینچا 
جاتا ہے۔ رشتوں اور محبتوں کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ذلتیں دراصل سماج کو لاحق سنگین بیماری کی علامات ہیں۔ جہاں اتنی غربت اور بھوک ہو وہاں حس لطافت اور ثقافت بازار کی لونڈی بن جاتی ہے۔ جہاں بازار میں انسانی اعضا برائے فروخت ہوں، زخموں اور بیماریوں کا کاروبار سب سے منافع بخش ہو، غریبوں کی بچیاں جسم فروشی پر مجبور ہو جائیں اور والدین اپنے لخت جگر قدیم مصر کے بازاروں کی طرح فروخت کرنے پر مجبور ہوں وہاں کیسی جمہوریت، کیا آزادی اور کون سی حبّ الوطنی؟ ایسے میں سب سے بڑا فریب ''پرہیز گاری‘‘ بن جاتی ہے۔ حکمرانوں کے منافعے‘ مصنوعی مسکراہٹیں‘ بغل گیریاں، مذاکرات، ظہرانے‘ سیاست کی چالبازیوں اور ریاستی جاہ و جلال کی نمائش سے بھرا پیلا آسمان عوام کے سروں پر پھیل کر نیلے آسمان کو اوجھل کیے ہوئے ہے‘ لیکن حکمرانوں کے یہ کرتب کب تک عوام برداشت کریں گے؟ ان ذلتوں اور محرومیوں کے درد و اذیت میں کب تک مبتلا رہیں گے؟ اس دکھوں بھری زندگی کے بوجھ تلے کب تک دبے رہیں گے؟ اس نظام کے ستم کب تک سہتے رہیں گے؟ آخر محنت کش عوام بھی انسان ہیں۔ جیسی کیسی بھی ہے ان کی کوئی تہذیب ہے، تمدن ہے، روایات ہیں، سماجی رشتے اور زندگی بھی ہے۔ آج اس نظام کا بحران اس معاشرے کو جس بربریت میں دھکیل رہا ہے، اس کے خلاف بدیر نہیں بہت جلد یہ عوام ایک بغاوت کے طوفان میں ابھریں گے۔ ان کے پاس اب انقلاب کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ آخر یہ نسلِ انسان کی بقا کا سوال ہے!
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
(ساحر)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved