تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-03-2015

فوج اور اہلِ سیاست

مذہبی تشدد پسند اور اب کراچی کا مافیا... اِن کے خلاف، بالآخر فوج اور رینجرز ہی کو بروئے کار آنا پڑا۔ تو کیا اہلِ سیاست اس عمل کا حصہ نہیں ہیں؟
مذہبی تشدد پسندی اس بیانیے کا منطقی نتیجہ تھا‘ جو جنرل ضیاء الحق مرحوم سے منسوب ہے۔ جب ریاست خود مذہب کے نام پر گروہوں کو مسلح کرتی ہے تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہوا۔ ضیاء الحق صاحب رخصت ہو گئے لیکن بیانیہ باقی رہا۔ اہلِ سیاست اس کے خلاف متحد تھے مگر اس بیانیے کو بدلنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ وہ اس کے خالق تھے نہ بدلنے پر قادر۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ جوابی بیانیہ بھی وہیں سے ہی آ سکتا تھا جہاں سے بیانیہ آیا۔ جنرل پرویز مشرف نے تو اسے طوالتِ اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ جنرل اشفاق کیانی ہمت نہیں کر پائے اور یہ زہر پھیلتا رہا۔ ان کے شخصی محاسن ہوں گے مگر قومی سطح پر، جنرل یحییٰ خان کی طرح، ان کی ایک ہی خدمت ہے۔۔۔۔۔شفاف انتخابات۔ فوج نے جب بطور ادارہ عملی سیاست سے دور رہنے کافیصلہ کیا تویہ انتخابات اس کا نتیجہ تھے۔ جوابی بیانیہ دینے کا یہ اعزاز جنرل راحیل شریف کے ہاتھ رہا۔ پہلے انہوں نے اِس کی نظری بنیادیں اٹھائیں۔ جب فوج کی قیادت ان کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے اس جوابی بیانیے کو حکمتِ عملی میں بدل دیا۔ اہلِ سیاست کی مکمل حمایت انہیں میسر آئی کہ اس باب میں فوج اور ان کے مابین کوئی اختلاف نہ تھا۔
کراچی کا معاملہ مگر دوسرا ہے۔ اس المیے کی بنیاد بھی اگر چہ ایک جنرل ، ضیاء الحق نے رکھی اور ایک دوسرے جنرل پرویز مشرف نے اسے اپنے اقتدارکی طاقت سے مزید توانا کیا ؛ تاہم اہلِ سیاست کے پاس ایسے مواقع آئے کہ وہ چاہتے تو کراچی کا امن لو ٹا سکتے تھے۔ وہ اگر ایسا نہیں کر سکے تو اس کے دو اسباب تھے۔ ایک یہ کہ کراچی میں جرم اور سیاسی عصبیت کو الگ کر نا مشکل ہو گیا۔ جرم کے ہاتھ میں ووٹ کی تلوار بھی آگئی۔ اب جرم کے خلاف اقدام کی یہ تاویل کی جاسکتی تھی کہ یہ کسی خاص لسانی گروہ کے خلاف ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ سماجی بد امنی ہے۔ کوئی سیاسی حکومت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یوں جرم کو زندہ رہنے کا موقع مل گیا۔
دوسرا سبب یہ ہوا کہ اہلِ سیاست کا گروہی مفاد بھی آڑے آیا۔ پیپلزپارٹی کو اگر صوبے میں اپنے اقتدارکو قائم رکھنا تھا تو اس کے لیے اسے مرکز اور صوبے کی اسمبلیوں میں حمایت کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے دانستہ جرم سے صرفِ نظر کیا گیا۔کچھ دیر کے لیے ذہن میں رحمٰن ملک صاحب کے لندن اور نائن زیرو کے دوروں کی یاد تازہ کیجیے اور ان نعروں کی صدائے بازگشت سنیے جن سے کراچی کی فضا گونجتی رہی۔ اہلِ سیاست نے مزید ظلم یہ ڈھا یا کہ جواباً اپنے مافیا ترتیب دیے۔ اسے بقا کی جنگ کا نا گزیر نتیجہ کہا گیا۔ ذوالفقار مرزا اورشاہی سید بروئے کار آئے۔ علاج بالمثل سے یہ ہوا کہ جُرم، جُرم کو جنم دینے لگا اور کراچی اس کے انڈوں بچوں سے بھر گیا۔ حکومتوں نے اپنے 
سیاسی مفادات کے لیے سلامتی کے سول اداروں کو نااہل اور بد عنوان لوگوں سے بھر دیا۔ پولیس جرم کی پشتیبان بن گئی۔ باڑ کھیت کو کھانے لگی اوریوں یہ فصل بر باد ہو گئی۔
اب کراچی میں رینجرز بروئے کار ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ فوجی قیادت نے مذہبی دہشت گردوں کے بعد،کراچی مافیا سے نمٹنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ میرا احساس ہے کہ اہلِ سیاست کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہے، اس لیے انہوں نے مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ن لیگ کے مفادات پر اس سے براہ راست کوئی زد نہیں پڑنے والی۔کراچی میںیہ کوئی قابلِ ذکر سیاسی قوت نہیں ہے۔ مرکز میں اسے پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ یہاں بھی وہ ایم کیو ایم کی تائید سے بے نیاز ہے۔ پیپلزپارٹی بھی یہ چاہتی ہے کہ اس درد سری سے نجات ملے۔ تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی سے زیادہ خوش کون ہو گا کہ ان کی سیاسی پیش رفت میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی۔ یوں ایم کیو ایم کے خلاف رینجرز کو زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کر نا پڑے گا۔
اہلِ سیاست اور رینجرز کا اصل امتحان اس کے بعد شروع ہو نا ہے۔ یہ سوچ غیر منطقی ہو گی کہ جرم کسی ایک جماعت اور گروہ تک محدود ہے۔ سپریم کورٹ اس باب میں رائے دے چکی کہ جرم کا دائرہ بہت سی جماعتوں کو محیط ہے۔ اب لازم ہے کہ دوسری جماعتوں کی صفوں میں چھپے مجرموں کو تلاش اورقانون کے حوالے کیا جائے۔ پیپلزپارٹی ، اے این پی اور دوسری جماعتوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ خود کو ایسے عناصر سے پاک کریں جو سیاست اوران کے لیے بری شہرت کا سبب بن رہے ہیں۔ تطہیر کے اس عمل میں رینجرز اور سیاسی جماعتیں اگر اپنی ساکھ کے بارے میں حساس ہوسکیں تویہ ان کے لیے بھی خیر کا باعث ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں رینجرز کی ضرورت ہے کہ وہ ان کی صفوں سے مجرموں کو باہر نکالیں۔ رینجرز کو اس باب میں متنبہ رہنا ہے کہ ان کی غیر جانب داری متاثر نہ ہونے پائے۔
اصل امتحان ایم کیو ایم کے لیے ہے۔ اگر اسے ایک سیاسی تشخص کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو ضروری ہے کہ نائن زیرو کی طرف جانے والے جرم کا ہر نشان مٹ جائے۔ الطاف حسین صاحب کے لیے شاید اب یہ ممکن نہ ہو سکے کہ وہ ایک متحرک کردار ادا کر سکیں۔ ایم کیو ایم نے متوسط اور غریب طبقے میں جو سیاسی فعالیت پیدا کی ہے، وہ ایک اثاثہ ہے جسے ضائع نہیں ہو نا چاہیے۔ اس اثاثے کی قدر ہو نی چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ایم کیو ایم کو نئی قیادت میسر آئے۔ یہ نئی قیادت وہ نہیں ہو سکتی جو سابق قیادت کا حصہ یا اس کے دست و بازو رہے ہیں۔ نئی قیادت کو نیا ہی ہو نا چاہیے۔ تو کیا پرویز مشرف ایم کیو ایم کے نئے قائد بن سکتے ہیں؟ یہ سوال سیاسی حلقوں میں ایک عرصے سے گردش میں ہے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو اس سے گریز کر نا چاہیے۔ جنرل مشرف پر پہلے ہی غداری کا سنگین مقدمہ ہے۔ ایک فوجی آ مر کے طور پر ان کے نامہ اعمال میں ایسا بہت کچھ درج ہے جو کسی سیاسی قوت کے لیے باعثِ فخرنہیں ہو سکتا۔ الطاف حسین کے بعد پرویز مشرف کی قیادت میں آنے کا مطلب، آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنا ہے۔ ایم کیو ایم اگر ماضی کی طرح نچلے طبقے سے قیادت کو سامنے لا سکے تو یہ 'عام آ دمی‘ کی سیاست کو دہرانے کا تجربہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ تنظیم ایک خوبی ہے، لیکن سیاسی جماعت اور مافیا کی تنظیم میں فرق ہو تا ہے۔ اسے اب ایک سیاسی جماعت کی تنظیم کو اختیار کر نا ہو گا۔
انسان کے لیے امکانات کی دنیا کبھی ختم نہیں ہو تی۔ اگر اخلاصِ نیت زادِ راہ ہو تواللہ تعالیٰ کی نصرت بھی شاملِ حال ہو جاتی ہے۔کراچی اور پاکستان میں جو امن کے لیے اپنا حصہ ڈالے گا، اس کا شمار قوم کے محسنوں میں ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ فساد سے بڑا جرم کوئی نہیں اورسماج کو امن دینے سے بڑھ کر نیکی کوئی نہیں۔ اگر یہ ملک دہشت گردی سے پاک ہو جائے اور کراچی میں امن لوٹ آئے توپاکستان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ معلوم ہو تا ہے کہ ایک فیصلہ کن مر حلے کا آغاز ہو چکا۔ ہم سب کو خیرکی دعا کرنی چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved