پس ماندگی کے اپنے مزے ہیں۔ اور یہ مزے ہم سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ ٹھیک ہے، افریقہ میں ہم سے بھی پس ماندہ ممالک پائے جاتے ہیں مگر وہ اپنی پس ماندگی کو ڈھنگ سے انجوائے کرنے کے قابل اب تک نہیں ہو پائے! ہم نے ''ترقیٔ معکوس‘‘ سے بھی مستفید ہونے کی راہیں نکالی ہیں! دنیا خوش حالی سے فوائد کشید کرتی ہے، ہم اپنی پس ماندگی سے نئے امکانات کشید ہی نہیں کرتے، پیدا بھی کر گزرتے ہیں!
یہ تو ہوئی پس ماندگی کی بات۔ اب آئیے ترقی کی طرف۔ ترقی کے اپنے مزے ہیں۔ اور اپنے ہی عذاب بھی ہیں۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ طرح طرح کے اُصولوں کا غلام ہوتا ہے۔ اِن معاشروں کے باشندے زندگی بھر اُصولوں کی غلامی میں رہتے ہیں اور خود کو آزاد سمجھتے ہوئے خوش فہمی کی دُنیا میں رہتے ہیں۔ اِن بے چاروں کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ ترقی اور خوش حالی کے نام پر اِن سے کون کون سی آزادی چھین لی گئی ہے۔ کوئی اپنی مرضی سے جی نہیں سکتا۔ سب کچھ طے شدہ ہوتا ہے۔ یعنی نظام الاوقات کے مطابق زندگی گزاریے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ نظام الاوقات کے مطابق زندگی بسر کرنے میں کیا لُطف پوشیدہ ہوسکتا ہے؟ ملائک کے لیے بھی سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ شاید اِس لگی بندھی زندگی کے بارے ہی میں علامہ اقبالؔ نے شیطان کی زبانی کہا تھا ؎
میں کھٹکتا ہوں دِلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہوُ، اللہ ہُو، اللہ ہُو!
کچھ ایسا ہی معاملہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کا بھی ہے۔ اُصولوں کی غلامی نے اُنہیں طرح طرح کے لُطف و سُرور سے محروم کردیا ہے۔ علامہ اقبالؔ ہی نے کہا ہے ؎
تِرے آزاد بندوں کی نہ یہ دُنیا نہ وہ دُنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی!
اب اِسی بات کو لیجیے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں کسی بھی کام کو نہ کرنے پر کارروائی جھیلنی پڑتی ہے۔ اور دیئے ہوئے ٹاسک کے مطابق کام کرنے پر بھی کارروائی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے!
یہ عجیب قِصّہ امریکی ریاست جارجیا میں ہوا۔ محکمۂ صفائی سے وابستہ گاربیج کلکٹر (گھر گھر جاکر کچرا جمع کرنے والا) کیوبن میکگل نے اپنی ڈیوٹی کے اوقات سے دو گھنٹے قبل کام شروع کیا تو عدالت نے اُسے ایک ماہ قید کی سزا سُنادی۔ میکگل کا جُرم کیا تھا؟ صرف یہ کہ اُس نے طے شدہ اوقات سے قبل کام شروع کرکے شہریوں کے آرام میں خلل ڈالا تھا!
ترقی یافتہ معاشروں کی ہر بات نرالی ہوا کرتی ہے۔ ہر معاملے میں ''پروسیجر‘‘ کی اِتنی مار پڑتی ہے کہ اِنسان کے حواس قابو میں نہیں رہتے۔ معاملات اِس حد تک ''بگڑ‘‘ چکے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں غلط کام پر سزا دینے والا معاشرہ اب فرض شناسی کی سزا دینے پر بھی تُل گیا ہے! یعنی نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ کوئی اپنی مرضی سے غیر معمولی فرض شناسی کا مظاہرہ بھی نہیں کرسکتا۔ گویا معاشرے کا بُرا سوچنا ہو یا بھلا، ہر معاملے میں وہی کچھ کرنا پڑے گا جو حکومت یا مقامی انتظامیہ طے کرے۔ ایسی ہی کیفیت کے لیے مرزا داغؔ دہلوی کہہ گئے ہیں ع
مِرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
ہم اگر کیوبن میکگل سے ہمدردی محسوس نہ کریں تو اور کیا کریں؟ اُس بے چارے نے سوچا کہ کچرا ذرا پہلے جمع کرلیا جائے تاکہ لوگ پہلے فارغ ہوجائیں۔ مگر اِس فرض شناسی کو بھی لوگوں کے لیے تکلیف سے تعبیر کیا گیا۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ایسے چونچلے ذرا بھی حیرت انگیز نہیں! اِس نوعیت کی اُصول پسندانہ سوچ کو وہ اپنا طُرّہ امتیاز سمجھتے ہیں‘ یعنی اُصول یہ طے پایا ہے کہ کوئی طے شدہ طریق کار کی راہ سے ہٹ کر نقصان تو کیا، فائدہ بھی نہ پہنچائے!
ہوسکتا ہے کہ آپ بھی یہ سوچ کر حیران ہوں کہ جب طریق کار کو اپنانے کی صورت میں اِتنے مسائل ہیں تو امریکہ میں لوگ سکون سے زندگی کیسے بسر کرتے ہوں گے؟ آپ کا حیران ہونا حیرت انگیز نہیں۔ جہاں جہاں قدم قدم پر ضابطے ہوں وہاں کوئی زندگی کے مزے کیونکر لُوٹ سکتا ہے؟
معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمام معاملات میں ہر انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔ اور یہ آزادی ہر کسی کے رگ و پے میں اِس قدر سرایت کرگئی ہے کہ ؎
اِتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مَر جائیں گے
والی کیفیت پیدا ہوچکی ہے! ہم نے فری فار آل سسٹم اپنا رکھا ہے۔ یعنی ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی رکھتا ہے۔ لوگ اپنی مرضی کے مطابق کام پر جاتے ہیں یعنی دِل چاہا تو گئے ورنہ وہ بھلے اور گھر بھلا۔ ساتھ ہی ڈیوٹی ٹائمنگ بھی اپنی مرضی کی ہوتی ہے۔ دِل جس وقت دفتر، فیکٹری یا دُکان پہنچنے کو چاہے اُسی وقت پہنچئے۔ سارا مزا ہی اِس بات کا ہے کہ ڈیوٹی پر پہنچنے کے معاملے میں آپ کے دِل و دِماغ پر کوئی دباؤ نہ ہو۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ دباؤ کی حالت میں اِنسان ڈھنگ سے کام نہیں کرسکتا! اور ڈیوٹی سے واپس آنے کا بھی یہی معاملہ ہے! حاضر دِماغی کو اپنے لیے فیصلہ کُن ہتھیار بنائیے اور ڈیوٹی سے جلد چھٹکارا پانے کے لیے نئے نئے بہانے گھڑ کر گھر کی راہ لیجیے! یہ زندگی بسر کرنے کا ایسا ڈھنگ ہے جس میں جسم تھکتا ہے نہ ضمیر پر کوئی بوجھ پڑتا ہے۔ ضمیر پر بوجھ کیسا؟ جب سبھی نے خود کو اِس رنگ میں رنگتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو کوئی اپنی یا دوسروں کی نظر میں کیوں گِرے؟
ویسے امریکی حکومت کا بھی جواب نہیں۔ اُس نے اپنے باشندوں کے لیے تو لازم قرار دیا ہے کہ وہ چند اُصولوں کی پاسداری کریں مگر سرکاری مشینری کسی بھی ضابطے کی پابند دکھائی نہیں دیتی۔ اُسے اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی مکمل چھوٹ دی گئی ہے۔ یہی حال پالیسیوں اور ان پر عمل کے طریق کا بھی ہے۔ امریکہ میں کچرا جمع کرنے والوں کے لیے تو اوقات مقرر ہیں لیکن امریکی خارجہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی (کمتر اور کمزور) ملک کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کا کوئی نظام الاوقات نہیں۔ جب جی میں آئے، کسی بھی پسندیدہ یعنی نشان زدہ ملک کا رُخ کیجیے، کسی بھی بہانے اُسے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کیجیے اور جب ''شاندار فتح‘‘ کا عمل مکمل ہوجائے یعنی متعلقہ ملک اچھی طرح ''نیوٹرلائزڈ‘‘ (غیر موثر) ہوجائے، وہاں سے بوریا بستر لپیٹ کر نئی منزل کی طرف قدم بڑھائیے! لگی بندھی ہر بات امریکی سرزمین پر بسنے والوں کے لیے ہے۔ امریکی وار مشین کے لیے کوئی نظام الاوقات نہیں۔
امریکہ نے مسلم دنیا میں اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ بروقت تو کیا ہونا تھا، بے وقت ہونے کے معیار پر بھی پورا نہیں اُترتا! اپنی مرضی کے حکمران لانے کے لیے ناپسندیدہ لوگوں کو ہٹانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ عالمی طاقتیں کچرا پیدا کرنے اور اُن سے نمٹنے کے عمل ہی میں خرچ ہوجایا کرتی ہیں۔ کیوبن میکگل کو وقت سے پہلے کچرا جمع کرنے کی سزا دی گئی۔ اور دوسری طرف انتہا یہ ہے کہ امریکی وار مشین دُنیا بھر میں کچرے کے ڈھیر لگاتی جاتی ہے اور اُسے ہٹانے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ اپنے شہریوں کا آرام اور سُکون یقینی بنانے کے لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ باقی دُنیا کو بے سُکون کرتی پھرتی ہے۔ میکگل جیسے لوگوں کو یہی سوچ کر خوش ہو جانا چاہیے کہ باہر کسی بھی اُصول کو تسلیم نہ کرنے والا اُس کا مالک اندرونی سطح پر تو چند ایک اُصولوں کا پاسدار ہے! کوئی بے لگام عالمی قوت اِتنی اُصول پسندی بھی نبھالے تو غنیمت جانیے۔